• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے اتوار کی بات ہے صبح سویرے درویش کا ٹیلی فون آیا۔ درویش نے کہا۔’’قلندرآج سوتیلی ماں کا دن منارہا ہے ۔ اس نے پکنک پر چلنے سے معذرت کرلی ہے‘‘ہم چار دوست قلندر ، درویش، صوفی اور میں لامحالہ ہر اتوار کے دن کراچی کے آس پاس پکنک منانے جاتےہیں ۔ہم چاروں دوست سینئر سٹیزنز ہوچکے ہیں۔ مگر پکنک پرآنے جانے سے باز نہیں آتے ۔ آپ نہ جانے کیا سوچ رہے ہونگے۔ میں آپ کی غلط فہمی دور کردوں۔ ہم چاروں سینئر سٹیزن دوست من موجی نہیں ہیں ۔ ہم لال لگام والے بڈھےگھوڑے بھی نہیں ہیں ۔ ہم اکثر جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ہم سب چھوٹے بڑے دل کے عارضوں میں مبتلارہتے ہیں ۔ دکھائی کم دیتا ہے ۔ سنائی کم دیتا ہے ۔ کچھ باتیں سمجھ میں آتی ہیں ۔ کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔ جنوب جانے کا ارادہ کرکے گھر سے نکلتے ہیں اور شمال کو جانکلتے ہیں ۔ کبھی کوٹ کو قمیص اور قمیص کو کوٹ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ مگر چاروں دوست اتوارکے اتوار پکنک پر جانے سے باز نہیں آتے ۔ زندگی کی خلاؤں کو ہم نے واجبی پکنک سے بھر رکھا ہے ۔ کالج کےزمانےسے ہم نے اتوار کے اتوارپکنک اور رنگ رلیاں منانے کا پروگرام بنایا تھا ۔ اپنےپروگرام پر عمل پیرا ہوتے تھے ۔ تب ہم دوست آپس میں چالیس کے لگ بھگ ہوتے تھے۔ کالج کے چار سال کی طالب علمی کے دوران ہم چالیس سے گھٹ کر تیس اور پھر تیس سے گھٹ کر بیس رہ گئے۔ یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کےدوران پکنک پر جانے والے ہم دوست بیس سے گھٹ کر دس رہ گئے۔روزی روٹی کے چکر میں دوستوں کی تعداد درجہ بدرجہ کم ہوتی جارہی تھی۔ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد اکثر دوستوں کی والدین نے شادی کرادی۔ دوستوں نے قوم کو بچے دینا شروع کردیئے ۔ کچھ دوست پنساری کی دکان کھول کر بیٹھ گئے ۔ کچھ دوست تھوک اور پرچون، سبزی بیچنے لگے ۔ کچھ دوست کہیں کلرک اور کہیں پولیس والے بن بیٹھے۔ پولیس میں جانے والوں نے بڑی ترقی کی اور ان کی دیکھتے ہی دیکھتےتوند نکل آئی۔ آپ کی بڑھی ہوئی توند آپ کی آسودگی اور خوشحالی کی نشاندہی کرتی ہے ۔ باقی ماندہ پکنکی دوست جب ڈگریاں لے کر یونی ورسٹی سے فارغ ہوئے تب ہماری تعداد گھٹ کر دس رہ گئی تھی۔ پکنک کے دوران ہم دوست زیادہ تر اپنی معدوم ہوتی ہوئی تعداد کے بارے میں سوچتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم چالیس کے لگ بھگ دوست اتوار کے اتوار پکنک پر نکل جاتے تھے۔ پھر ہماری تعداد چالیس سے گھٹ کر تیس رہ گئی ۔ تیس دوستوں سے کم ہوکر بیس کے زمرے میں آنے میں ہمیں دیر نہیں لگی۔ ماتھا ہماراتب ٹھنکا جب ہم دوست گھٹ کر دس رہ گئے ۔ ہم دس دوست ملازمتوں اورزندگی کے اتار چڑھاؤ کے دوران عدم موجود ہوتے رہے ۔ ایک دوسرے سے اوجھل رہ گئے ۔ سینئر سٹیزن ہونے کے بعد ہم آپس میں باقی چار دوست رہ گئے ہیں ۔درویش، قلندر،صوفی اور میں۔ پکنک کے دورا ن لامحالہ ہم اپنی عدم موجودگی کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ ہم کہاں سے آتے ہیں ۔ کہاں چلے جاتے ہیں ؟ یہاں سے کوچ کرجانے کے بعد ہم دوست پھر کبھی گم نام دنیاؤں میں پھر سے ملتے بھی ہیں یاکہ نہیں ۔ یہاں سے ،ہم سے پہلے رخصت ہوجانے والے دوست انجان ، نامعلوم ، پراسراردنیا میں باقی ماندہ دوستوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں ؟ کیا ہوتا ہے ہمارے گزرجانے کے بعد؟ ہمارے مرجانے کے بعد؟یہ تمام باتیں آپ کو اس لئے سنائی ہیں تاکہ آپ ہمیں لال لگام والا گھوڑا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ سب کہنے اور سننے کی مضحکہ خیز باتیں ہیں ، کوئی نادیدہ بوڑھا ازلی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے رنگ رلیوں میں مبتلا رہا ہو۔ سب بوڑھے من موجی اور رنگیلے نہیں ہوتے ۔ ہم جب دوست احباب کو ازلی سفر پر روانہ ہوتےہوئے دیکھتے ہیں ۔ وہ بھی ایک کے بعد ایک، تب ہم باقی ماندہ زندگی بجھتے ہوئے زندگی کے دیپک کو کبھی بجھتے کبھی جلتے لڑکھڑاتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے اس دنیا میں آنے کی اذیت ماں جھیلتی ہے اس دنیا سے روانگی کی اذیت ہم جھیلتے ہیں۔ہم چار دوست درویش،قلندر،صوفی اور میں ، بڈھے اور کھڑوس اپنےآپ کو ایک دوسرے کے لئے غنیمت سمجھتے ہیں ۔پچھلے اتوار کے روز پکنک پر جانے سے قلندر کی معذرت چونکا دینے والی تھی ۔ برسوں کے یارانے میں قلندر نے کبھی بھی سوتیلی ماں کا دن منانے کی بات نہیں کی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ قلندر ایک عددسوتیلی ماں کے سائے میں پل کر بڑا ہوا تھا۔ قلندر کی ماں کے مرجانے کے بعد اس کا والد تین بچوں والی سوتیلی ماں کو بیاہ کرلے آیا تھا۔سوتیلی ماںنے مزید تین بچوں کو جنم دیا۔ اچانک سوتیلی ماں نے چھ بچوں کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری قلندر کو دے دی ۔ سوتیلی ماں بن سنور کر،سولہ سنگھار کرکے تتلی بنی پھرتی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے قلندر چھ بچوں کے پالنے پوسنے کیساتھ ساتھ باورچی خانہ سنبھالنے لگا ،ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا بنانا قلندر کے فرائض میں شامل تھا۔ دن میں کئی مرتبہ سوتیلی ماں کیلئے چائے بناتا۔ ذرا سی بھول چوک پر سوتیلی ماں قلندر کی بے تحاشہ پٹائی کرتی ،کبھی بید کے ڈنڈے سے ، کبھی خاردار چھڑی سےاور کبھی پتلون کے پرانے بیلٹ سے ۔ بیلٹ قلندر کے والد ماجد کا تھا۔ اگر کبھی طیش میں آکر سوتیلی ماں قلندر کی ہڈی پسلی توڑ ڈالتی تھی، تب قلندر دوستوں کو بتاتا تھا کہ راستہ پار کرتے ہوئے وہ گدھا گاڑی کے نیچے آکر زخمی ہوگیا تھا۔ میں نے درویش سے کہا۔’’ایسی ہلاکو سوتیلی ماں کا دن مناتے ہوئے قلندر کو شرم نہیں آتی؟‘‘درویش نے کہا ۔’’اقوام متحدہ نے مئی کے آخری اتوار کو سوتیلی ماں کا دن مقرر کردیا ہے ۔ اگلا اتوار سوتیلے باپ کا دن ہے ‘‘۔

تازہ ترین