• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز اس وقت مسائل کے گرداب میں ہے۔ کرپشن، مہنگائی، قتل وغارت، بدامنی اور دہشت گردی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں امید کی کرن طالبان سے مذاکرات میں کامیابی کی صورت پھوٹتی ہوئی واضح نظر آرہی ہے۔ اب اس موقع کو نوازشریف حکومت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔یہ یقیناً پوری قوم کے لئے خوشخبری ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔اس کا اچھا اور مثبت پہلو یہ سامنے آیاہے کہ فوجی قیادت نے نوازشریف حکومت کے فیصلوں کی مکمل حمایت اور اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعظم نوازشریف کی زیر صدارت سول وعسکری قیادت کے اجلاس میں مذاکراتی عمل کوتیز ترکرنے پر زور دیاگیا۔وزیراعظم کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اس حالیہ اجلاس کے بعدان قیاس آرائیوں نے بھی دم توڑدیا ہے کہ فوج مذاکراتی عمل سے خوش نہیں ہے اور وہ مذاکرات کے بجائے فوجی آپریشن چاہتی ہے۔اب اللہ کرے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت اپنے فیصلوں پر کھڑی رہے؟موجودہ غیر یقینی حالات میں آئے روز کے الٹے سیدھے بیانات صورتحال کو اور زیادہ گمبھیر بنا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان دوطرفہ جنگ بندی کے فوائد واضح طور پر سامنے آرہے ہیں۔خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں امن بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
قبائلی علاقوں میں امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے گا۔یہ سب کچھ تائید ایزدی سے ہورہا ہے۔ہر آنے والا دن اس پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے کہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ درست تھا۔ دوطرفہ جنگ بندی سے حالات بڑی تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اگر آئندہ آنے والے دنوں میں حکومت اور طالبان دونوں نے صبر وتحمل کامظاہرہ کیا تو امن عمل کی کامیابی یقینی ہے۔ مولاناسمیع الحق کایہ کہنا نوشتہ دیوار ہے کہ حکومت بعض لوگوں کے جھانسے میں آکر فوجی آپریشن کی غلطی نہ کرے۔ حکومت سنجیدہ رہی تو مذاکرات کامیاب اور ملک میں امن قائم ہوجائیگا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کچھ قوتیں مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا ’’مارچ‘‘ میں ’’مارچ‘‘ کرنے کا حالیہ بیان غیردانشمندانہ تھا۔ اگرچہ اس بیان کو بعد میں انہوں نے واپس بھی لیالیکن ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وزیر اعظم حکومت مذاکراتی عمل میں مخلص ہے تو پھر اسے اس کا جائزہ لینا ہو گا کہ کہیں اپنوں میں چھپے ہوئے لوگ اس سارے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہ کردیں؟وزیر داخلہ چوہدری نثار کایہ کہنا حوصلہ افزاء ہے کہ سول اور عسکری قیادت کی آراء مشترک ہیں اور فوج مذاکراتی عمل کی پشت پر ہے۔ اب اگلے فیصلہ کن مرحلے میں آئندہ چند دنوں میں مذاکرات کا نیادور شروع ہونے والاہے۔ نئی حکومتی کمیٹی حبیب اللہ خٹک کی سربراہی میں تشکیل پاچکی ہے۔نئی کمیٹی طالبان سے وزیرستان میں براہ راست مذاکرات کرے گی۔ مذاکرات کا دوسرا مرحلہ اس حوالے سے بڑااہم ہوگا کہ اس میں دونوں طرف سے مطالبات پیش ہوں گے۔ وزیرستان سے فوج کی واپسی،قیدیوں کی رہائی اور جاں بحق ہونے والوں کو زرتلافی کی ادائیگی طالبان کے مطالبات میں شامل ہیں۔ امید ہے کہ حکومت ان مطالبات پر ہمدردانہ غور کرے گی تاکہ حکومت اور طالبان دونوں کے اعتماد میں اضافہ ہوسکے اور معاملات امن کی طرف بڑھ سکیں۔ اس مذاکراتی عمل کا امیدافزاء پہلو یہ ہے کہ طالبان قومی دھارے میں شامل ہوجائیں گے۔گزشتہ سال ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی سول اور فوجی قیادت ایک پیج پر نظر آئیں مگر اے پی سی کے بعد خاصا وقت ضائع کیا گیا۔ اگر اس وقت ہی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق مذاکراتی عمل کو چلایا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔
ملک میں امن کی بحالی کی طرف تو پیشرفت جاری ہے مگر تھرپارکر میں 135 سے زائد بچوں کی اموات نے پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سیکڑوں بچے غذائی قلت کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تھرپار کے متاثرہ خاندانوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ایسایکدم تو نہیں ہوا اس کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔سندھ کے قحط زدہ علاقے تھرپارکر کے ڈھائی ہزار دیہات میں بھوک اور پیاس کے باعث جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ’’تھر‘‘ میں قیمتی معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کا واقعہ سندھ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’تھر‘‘ کے بے آب وگیاہ صحرائی علاقے میں گندم بروقت تقسیم ہوجاتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ’’تھر‘‘ کے سانحے میں ہونے والی تاخیر اور لاپروائی کو تسلیم کیا ہے مگر اسے تسلیم کرنا ہی کافی نہیں ہے اس مجرمانہ غفلت میں ملوث سرکاری افسران کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ ’’تھر‘‘ میں حکومتی ادارے اس سنگین صورتحال پر نظر رکھتے تو انسانی جانوں کے المیے سے بچاجاسکتا تھا۔چولستان کا علاقہ تھر سے ملتا جلتا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ چولستان کے حکام نے خشک سالی پر نظر رکھی اور غذائی قلت نہیں ہونے دی۔ وہاں ایسی صورتحال ابھی پیدا تو نہیں ہوئی لیکن مستقبل میں اس کے خدشات ضرور موجود ہیں۔ وزیر اعلیٰ نوازشریف نے ’’تھر‘‘ کا دورہ کرکے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیاہے۔حکومت کو کوشش یہ کرنی چاہئے کہ یہ رقم متاثرہ خاندانوں میں صحیح طریقے سے تقسیم ہو سکے۔ بارشیں نہ ہونے سے صحرا نشینوں کو اکثر خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکومت کوآئندہ کسی ایسے ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لئے تھر اور چولستان کے صحرائی علاقوں کیلئے مستقل نوعیت کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ تھر اور چولستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مستقل دفاتر قائم کئے جائیں۔ صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ خشک سالی میں ان علاقوں کے اندر اناج لے جانے کا موثر انتظام ہونا چاہئے۔ ’’تھر‘‘ کے غریب اور مفلوک الحال لوگ پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کو زندگی کی تمام سہولتیں پہنچانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صحرا نشینوں کا ذریعہ معاش اناج لگانا اور مال مویشی پالنا ہے۔ ’’تھر‘‘ کے باسیوں کے قحط سے پہلے مویشی مر گئے پھر بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر پھول سے معصوم بچے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ان کو بڑی آزمائش نے آن گھیرا، دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے صحرائی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ قحط ایک قدرتی آفت ہے مگر پیشگی اقدامات سے اس کے ممکنہ نتائج سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وافر مقدار میں گندم موجود تھی تو سندھ حکومت نے اسے قحط زدہ علاقوں میں تقسیم کیوں نہیں کرایا؟یہ انسانیت کا قتل ہے جس کی کوئی تاویل نہیں دی جاسکتی؟یہ وفاق اور سندھ حکومت کا فرض ہے کہ’’تھر‘‘میں انسانی المیے کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرے ۔سندھ حکومت اس کا جواب دے کہ آخر کیوں گندم کی 47ہزار بوریوں میں سے صرف9سوبوریوں کو قحط زدہ علاقوں میں تقسیم کیا گیا؟ اس سفاکانہ طرزعمل اور غفلت کا کون اصل ذمہ دار ہے؟افسوسناک امر یہ ہے کہ جب سندھ حکومت یوتھ فیسٹول کا ’’جشن‘‘ منا رہی تھی اس وقت تھر میں بچے بھوک سے مررہے تھے۔چیف جسٹس تصدق جیلانی نے بھی تھر کی صورتحال کاذمہ دارسندھ حکومت کو قرار دیا ہے۔چیف جسٹس نے تھر کے انسانی المیے پر ازخودنوٹس لے لیا ہے اور درست نشاندہی کی ہے کہ اگر میٖڈیا نہ ہوتا تو تھرپار کر میں بچے خاموشی سے مرتے رہتے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو اب چولستان کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ کہیں تھر پارکرکے بعد چولستان میں یہ دردناک صورتحال نہ سامنے آئے؟ چولستان میں بھی خشک سالی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔وفاقی اور پنجاب حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ امید ہے کہ حکومت ’’تھر‘‘ کی صورتحال پرجلد قابو پالے گی اور پاکستان کے اصل مسئلے دہشت گردی سے چھٹکارے کیلئے مذاکراتی عمل کوبھی رواں دواں رکھے گی۔
تازہ ترین