اسلام آباد (رپورٹ:عاصم جاوید) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا، فیصلے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے یہ پہلے سے لکھا فیصلہ تھا، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کلاسیفائیڈ دستاویزات گم کرنے سے متعلق قوانین کیا ہیں؟ریاست کی سکیورٹی کیسے خطرے میں پڑ گئی،ایک کاغذ گم ہونے پر ایک شخص کیوں جیل میں بند ہے، پراسیکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی نے 342میں گناہ تسلیم کیا،بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ لاپرواہی کا الزام عمران خان پر بنتا ہی نہیں، سائفر کی حفاظت اعظم خان کی تھی، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہے کہ جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنا ہے، دوسری جانب حکومت کی جانب سے عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ،حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ مخصوص سیاسی جماعت کیلئے نرم فیصلے آرہے ہیں، سائفر کیس میں بانی ٹی ٹی آئی اور دیگر کی بریت چیلنج کرنے پر غور کر ر ہے ہیں،جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ 25کروڑ پاکستانیوں کی خوشی کا دن ہے ، ناحق اور بے بنیاد کیس کا خاتمہ ہوا۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اپیلوں کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کا 30 جنوری 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں وجوہات کا ذکر کیا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کیخلاف 15 اگست 2023 کو تھانہ کاونٹر ٹیررازم ونگ ایف آئی اے نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعہ 5/9 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کسی اور مقدمہ میں گرفتار نہ ہوں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر،علی محمد خان، فیصل جاوید اور شاندانہ گلزار سمیت پارٹی کی مرکزی قیادت اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود تھی۔ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں ، شاہ محمود قریشی کی اہلیہ اوربیٹیاں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل خصوصی ڈویژن بنچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت مکمل کر کے کچھ دیر بعد ہی فیصلہ سنا دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہے کہ جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنا ہے۔ اگر سائفر کاپی ٹرائل کورٹ کو دکھا دیتے تو پھر پراسیکیوشن کا کیس بن سکتا تھا۔ پتہ تو چلتا جو افسانہ ہے وہ ہے کیا؟ کوئی دستاویز عدالت کے اندر کلاسیفائیڈ نہیں ہوتا ، قانون نے طریقہ کار بتا دیا ہے کہ کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس کو کیسے ڈیل کرنا ہے ، کیا دنیا میں کوئی جواز پیش کر سکتا ہے کہ دوپہر کو ملزم کا 342 کا بیان مکمل ہو اور کچھ دیر بعد 77 صفحے کا فیصلہ آجائے ، ایسا لگتا ہے یہ پہلے سے لکھا فیصلہ تھا ، یہ کوئی طریقہ نہیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ سائفر کا دستاویز اور اس کا متن کہیں عدالتی ریکارڈ پر نہیں آئے۔ یہ سائفر نہیں دے رہے مگر سزا دے رہے ہیں۔ اگر سائفر گم گیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ بانی پی ٹی آئی نے سائفر گم جانے کی اطلاع کر دی تھی ، رولز کے مطابق انکوائری ہی نہیں کرائی گئی۔ وزارت خارجہ اس کیس میں مدعی بھی نہیں بنا۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے کہ معمولی لاپرواہی سے کریمنل ایکٹ ثابت نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے آڈیو وڈیو بطور شہادت لانے کے پیرامیٹر بتائے ہیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت میں کسی مخصوص ملک کانہیں بتایا گیا جس کیساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ پراسیکیوشن نے اضافی دستاویزات کی درخواست دی جس کامطلب ہے کہ وہ کیس ثابت نہیں کر سکے۔ استدعا ہے کہ ملزمان کو تمام الزامات سے بری کیا جائے۔ اس موقع پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سائفر کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اعظم خان کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے انہیں کہا ملٹری سیکرٹری اور سٹاف کو کہو کہ وہ سائفر کی کاپی ڈھونڈیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملزم کے بیان پر پراسیکیوشن کہے کہ ایک سوال کا جواب ہمارے حق میں ہے وہ لے لیں باقی چھوڑ دیں۔ پراسیکیوشن نے جرم پورا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ سائفر کیس کے فیصلے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر علی خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام کیلئے خوشی کا دن ہے۔ آج عوام نے دیکھا کہ انصاف کا علم بلند ہوا ہے۔ ایک ناحق اور بے بنیاد کیس کا خاتمہ ہوا ہے۔