اسلام آباد( رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں، ہائبرڈ نظام ہے، یہ ریماکس انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ )اراکین کی خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن /پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر سنی اتحاد کونسل اور سپیکر خیبر پختونخواہ اسمبلی کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران دیے، مخصوص نشستوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حقیقی پوزیشن یہی ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑاہی نہیں۔ جسٹس قادرمندوخیل نے استفسار کیا کہ جب پارٹی امیدوار کو اور امیدوار پارٹی سے تعلق تسلیم کررہا ہو تو الیکشن کمیشن کا کیا اختیاررہتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھا ئے ہیں کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟جسٹس منیب کا اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اقدامات میں کوئی منطق نظرنہیں آتی۔دوران سماعت چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر میں اس وقت ناخوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جب ججز کے سوالات پر چیف جسٹس نے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے ایک کیس کا حوالہ دیا، جسے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ غیرزمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں ، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔ کے دوران اپیل گزار کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی،جسٹس امین الدین خان،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس شاہد وحید،جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 13رکنی فل کورٹ بنچ سوموار کے روز کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس مسرت ہلالی صحت کی خرابی کے باعث فل کورٹ بینچ میں شامل نہیں تھیں، سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا اورسلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آئے، فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرنے سے قبل گزشتہ سماعت کا عدالتی حکم نامہ پڑھ کر سنایا، اور موقف اختیار کیا کہ یہاں پر 2مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کیخلاف عدالت کے آرڈر پر عمل نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التواء تھی تاہم سپریم کورٹ پچھلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر چکی ہے ،ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مخصوس نشستوں سے متعلق وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ کے خلاف توہین عدالت کا کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے،جس پرجسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ میںوزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے خلاف توہین عدالت کی کارورائی شروع ہوئی تو کیا آپ بطور استغاثہ پیش ہوں گے ؟سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی شعبہ خواتین کی سربراہ کنول شوزب نے بھی انکے ذریعے اس مقدمہ میں فریق بننے کے لیے درخواست دائر کی ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر آپ کا موقف بھی سنیں گے،فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاذ کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں متناذعہ مخصوص نشستوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55نشستیں متنازع ہیں، انہوں نے بتایا کہ سندھ میں 2 نشستیں متنازع ہیں، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری ایم کیو ایم کو ملی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں 21نشستیں متنازع ہیں جن میں سے 19 نشستیں ن لیگ، ایک پیپلز پارٹی اور ایک استحکام پاکستان پارٹی کو ملی ہے اقلیتوں کی ایک متنازع نشست ن لیگ، ایک پیپلز پارٹی کو ملی ہے ، فاضل وکیل نے بتایا کہ خیبرپختونخوا ء اسمبلی میں 8 متنازع نشستیں جے یو آئی کو ملی ہیں ، خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی 5، 5 نشستیں ملی ہیں، ایک نشست خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ملی ہے، خیبرپختونخوا میں 3 اقلیتوں کی متنازع نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دی گئی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں سے فائدہ اٹھانے والی سیاسی جماعتوں کی اس مقدمہ میں نمائندگی موجود ہے؟ تو مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور جمیعت العلما ئے اسلام کی جانب سے وکلا ء پیش ہوئے اور عدالت کے استفسار پر ان اپیلوں کی مخالفت کی۔