• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سورج کی قرمزی کرنیں گرمی کی شدت، ہلکی سی حدت میں تبدیل کر رہی تھیں، ساتھ ہی سمندری ہوا کے چلنے سے دن بَھر چلنے والے لُو کے تھپیڑوں کی تاثیر ماند پڑتی محسوس ہوئی۔ ’’سیف الدین وِلا‘‘ کے نچلے پورشن کے سب سے بڑے کمرے (ٹی وی لاؤنج) میں داخل ہوتے ہی حارث سیف الدین نے ایک لمحے کو سُکون کا سانس لیا۔ 

بریف کیس سائیڈ پر رکھ کر پائیدان کے پاس جوتے اتارے اورجرابوں سمیت دبیز قالین پر پاؤں رکھ کر سامنے پڑے بڑے سے صوفےکےکنارے پرٹِک سے گئے۔ صوفے پر لیٹے وجود میں اُنہیں دیکھ کر حرکت سی ہوئی۔ وہ اُن کی نصف بہتر وانیہ حارث تھی، جس نے کسل مندی سے ٹانگیں سمیٹ کر گویا اُنہیں صوفے پر پھیل کر بیٹھنے کی اجازت دی۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے، وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹھیک سے بیٹھے، تو قالین پر آڑے ترچھےلیٹے اُن کی چاروں بچّوں کو بھی اُن کی آمد کی خبر ہوئی۔ سب سے پہلے سلویٰ اُٹھ کر باپ کے پیروں کے پاس آ کر بیٹھ گئی اوراُن کی جرابیں اُتارکر، گرمی سے تپتے پیر سہلانے لگی۔ 

عرفہ، جوموبائل میں گم تھی، باپ کے لیے کمرے کے کونے میں پڑے فریج سے پانی لے آئی، ذوہیب اور شعیب بھی ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹا کرباپ کی طرف متوجّہ ہوئے۔ ’’آج بہت گرمی تھی…‘‘حارث سیف الدین نے پانی کا دوسرا گلاس پی کر واپس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ظاہر ہے، گرمی کے موسم میں گرمی ہی ہوگی، اب سردی تو ہونے سے رہی۔‘‘ وانیہ نے آخرکار صوفے سے اُٹھنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ اِس لیے اُٹھ کر وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ 

’’ہاں جی، تم لوگوں کی حسِ مزاح کو ابھی گرمی کے تیروں نے نہیں چُھوا ناں، اِس لیے کہہ سکتے ہو۔‘‘ حارث نے اپنی بات کو ہنسی میں اُڑانے پر قدرے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ناں تو آپ انوکھے ہیں، جنہیں گرمی لگ رہی ہے۔ ہم بھی کوئی سارا دن اے سی میں تو نہیں بیٹھے رہتے۔ 

کام وام کر کے دوپہر گیارہ بارہ بجے تک ہی اے سی آن کرتی ہوں تاکہ بچّوں کے آنےتک کمرا ٹھنڈا ہوجائے۔‘‘ وہ بھی وانیہ تھی۔ حارث نے بحث بڑھانے کے بجائے اب کی بار نظرانداز کردیا۔ ’’ہممم… ٹھیک، اچھا کھانے میں کیا ہے؟‘‘ وہ اُٹھ کر ہاتھ منہ دھونے کمرے کے کونے پر بنے واش روم کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ ’’آج دن بھرگیس نہیں تھی، اوپر سے سلینڈر بھی ختم، ہم نے تو سینڈوچز بنا کرکھائے ہیں۔ 

آپ دیکھ لیں، پہلے گیس بھروا کے لائیں گے یا پھر اپنے لیے کھانے کو کچھ۔ اتنی شدید گرمی تھی، تو مَیں نے تو ذوہیب، شعیب کو کالج سے آنے کے بعد گھر سے نکلنے ہی نہیں دیا۔‘‘ وانیہ کی بات سُن کرتولیے سے ہاتھ خشک کرتے حارث نےایک اچٹتی ہوئی نظر اُس پر ڈال کرقدم کچن کی طرف بڑھادئیے۔ ’’مَیں گیس سلینڈر بھروا لاتا ہوں، ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی لیتا آؤں گا۔‘‘ 

حارث کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ سب اپنی اپنی فرمائشیں نوٹ کروانے لگے۔’’پاپا! میرے لیے برگر، میرا کلب سینڈوچ، مَیں بریانی…‘‘گیس سلینڈر لے کر، سب کی فرمائشیں نوٹ کر کے حارث ایک گرم ترین دن کی گرم ترین شام میں دوبارہ روانہ ہوا۔ آخروہ مرد تھا، گھرکا سربراہ، اور یہ سب اُسی کی ذمّے داری تھی۔

صبح ناشتے کی میز پر سب ہی کو جلدی تھی۔ حارث نے جلدی جلدی ناشتا کرکے دونوں بیٹیوں کو بھی جلدی ناشتا کر کے باہر گاڑی میں آنے کا کہا اورخُود بریف کیس لے کر نکل گیا۔ بیٹیاں بھی پیچھے پیچھے چل دیں کہ ایک کوکالج اور ایک کو یونی ورسٹی چھوڑ کر حارث کو آفس پہنچنا ہوتا تھا۔ ابھی مقامِ شُکر تھا کہ بیٹے خُود بائیک پر چلے جاتے تھے۔ اُن سب کے چلے جانے کے بعد وانیہ نے گیٹ بند کیا اور ٹی وی لاؤنج میں اے سی آن کرکے سبزی بناتے ہوئے مارننگ شو دیکھنا شروع کر دیا۔ 

گیارہ بجے تک ماسی کے آنے کا وقت ہوتا تھا۔ جب تک ماسی جھاڑو پونچھا کرتی، کپڑے، برتن دھوتی، وانیہ کھانا ہی بنا کے، گرمی سے بے حال اور تھک کے چُور ہوچُکی ہوتی تھی۔ سو، ایک بجے تک دوبارہ ٹی وی لائونج میں اے سی آن ہوجاتا۔ کبھی گیس کی بندش یا گرمی کی شدت زیادہ ہوتی، توپھرکھانےکی بھی چُھٹی ہوجاتی۔ یکے بعد دیگرے بچّے آتے اور پھر ٹی وی لائونج ہی میں پوری گرم دوپہر گزرجاتی۔

آج بھی وانیہ معمول کے مطابق چینل سرچ کرتے ہوئے ایک پروگرام پر رُک گئی۔ فیمینزم کے حوالے سے بحث چل رہی تھی۔ ’’حقوقِ نسواں‘‘ پر دو تین خواتین بڑی گرما گرم گفتگو کررہی تھیں۔ مَردوں کے اِس معاشرے میں مظلوم خواتین کی آواز بننے والی اُن خواتین کے لیے وانیہ نے دل میں بڑی عزت و تکریم محسوس کی۔ 

وہ سوچ رہی تھی، ’’عورت کی بھی کیا زندگی ہے۔ سارا دن گھرداری کرو، بچّے پالو، گھر ہی کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں چکراتے پِھرو اور پھر بھی شوہر کی طرف سے ستائش کے دو حرف بھی نہ ملیں۔ صحیح کہہ رہی ہیں یہ۔ عورت کو تو جیسے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے، اِن مَردوں نے۔‘‘

عیدالاضحٰی نزدیک تھی۔ قربانی کے لیے جانور خریدنا تھا، جب کہ وانیہ کو اپنے اور بچّوں کے کپڑوں کی خریداری بھی کرنی تھی۔ حارث سے کہا، تو اُس نے جواب دیا کہ منہگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ ہم ایک حصّہ ڈال لیتے ہیں اور کپڑے ابھی عیدالفطر پر تو سب کےتین تین جوڑے بنے تھے، اُن میں سے کوئی پہن لینا۔ وانیہ کو تویہ جواب سُنتے ہی جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’اچھا! اب یہ نوبت آگئی ہے، اتنی اچھی پوسٹ پر تو ہو، آخر کہاں جاتا ہے سارا پیسا؟‘‘ ’’گھر کے اخراجات تو دیکھو۔ 

بچّوں کی فیسز، بجلی کا بِل، اے سی کی وجہ سے کتنا زیادہ آرہا ہے، پھر گروسری …‘‘حارث نے ابھی گِنوانا شروع ہی کیا تھا کہ وانیہ نے رونا شروع کر دیا۔ ’’ٹھیک کہتے ہیں، مَردوں کا معاشرہ ہے یہ۔ ہر جگہ عورت ہی پِستی ہے۔ گھر بیٹھی عورت کا بجلی، گیس کے بِلز اور کھانے پینے کا سُنا سُنا کر استحصال کیا جاتا ہے، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔‘‘ وانیہ کے اِس طرح رونے دھونے پر حارث پریشان ہو اُٹھا۔ ’’اچھا بابا! دیکھتا ہوں مَیں کچھ، یہ واویلا تو بند کرو۔‘‘ اور یہ کہہ کر باہرنکل گیا۔ ’’مما ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں پاپا۔ کپڑے رہنے دیتے ہیں۔‘‘سلویٰ ماں کے نزدیک آئی۔ ’’کیسے رہنے دیتے ہیں، بہت پیسا ہے تمہارے باپ کے پاس، بس ہم پر خرچ کرتے ہوئے جان جاتی ہے۔‘‘ 

وانیہ ہنوزغصّےمیں تھی۔ ’’ہاں ناں حاشر کے پاپا آئے دن اُسے نئی نئی گھڑیاں، موبائل لا کردیتے رہتے ہیں اورہم جب بھی پاپا سےکہیں، وہ ایک دفعہ میں توکبھی نہیں مانتے۔ مما ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ یہ شعیب تھا۔ ویسے بھی تمام بچّےماں ہی سے زیادہ اٹیچ تھے کہ حارث نے بھی عمومی باپوں کی طرح اِس بات پر کبھی زیادہ توجّہ ہی نہیں دی۔ رات کو گھر آکر کھانا کھاتا اور سو جاتا۔ بچّوں کے سب معاملات ماں ہی دیکھتی تھی، تو اُنہیں بھی ماں کے مسائل، بیماریاں، پریشانیاں ہی تکلیف دیتیں۔ باپ بےچارے کو تو کبھی اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ کبھی کچھ اُن کی سُنتا، کچھ اپنی سُناتا۔

عید کے تینوں دن بہت اچھے گزرے تھے۔ سب کے نئے کپڑے بھی آگئےتھےاور سستے پیکیج کے تحت قربانی کا ایک حصّہ بھی ڈال لیا گیا تھا۔ رقم کہاں سے آئی، پوچھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ ہاں، عید کے بعد سے حارث رات گئے گھرآنے لگا۔ اور اِس طرزِعمل کو بھی مرد کی ازلی لاپروائی فرض کرلیا گیا۔ کسی نے پوچھا بھی تو کہہ دیا گیا۔ ’’ارے بھئی، ہماری کہاں سُنتے ہیں، بیٹھ گئے ہوں گےکہیں دوستوں میں گپیں لگانے۔‘‘اُدھر اوور ٹائم لگا لگا کر حارث کی صحت جواب دینے لگی تھی۔ ’’بس کچھ دن باقی ہیں، یہ مہینہ ختم ہوگیا تو مزید اوور ٹائم نہیں لگاؤں گا۔‘‘حارث نے اپنے آپ کو تسلی دی۔

آج سیف الدین وِلا میں ہُو کا عالم تھا۔ افراد تو موجود تھے، مگر سب ہی سوگوار اور اُداس۔ ’’تمہارے پاپا نے کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ سب کچھ خُود ہی پر جھیل گئے۔‘‘ وانیہ نے متورّم آنکھیں صاف کیں۔ ’’اُنہیں ہماری ضروریات پوری کرتےکرتے وقت ہی کہاں ملا مما؟ ہر بار اوور ٹائم لگا کر بس گھر آکے سو جانا، اور پھرصُبح سے وہی روٹین۔ 

پہلے یہ گھر سیٹ کیا۔ ہم چاروں کو پڑھایا لکھایا، دونوں بہنوں کی شادیاں کیں، ہمیں سیٹ کیا اور اب جب ہم بھائیوں کے ولیمے کی تقریب بھی کرکے کچھ اطمینان نصیب ہونے جارہا تھا، تو جیسے پاپا کو تمام فرائض سے سبک دوش ہونا راس نہیں آیا۔ اُنہیں توعادت ہوگئی تھی ناں ہمارے لیے اوور ٹائم لگانے کی۔ اب جب سب مسائل ختم، تو پاپا کے پاس جینے کا بہانہ بھی ختم۔‘‘ شعیب رو دیا۔ ’’نہیں مسائل کہاں ختم؟ اُنہیں فکر تھی کہ بڑی والی کی ڈیلیوری نزدیک ہے، اُس کے لیے رسم کے مطابق ابھی سے تیاری کرنی چاہیے، وہ تو ایک اور اوور ٹائم کا سوچ رہے تھے۔‘‘ وانیہ نے روتے ہوئے بتایا۔ 

ابھی اُن سب کی باتیں جاری تھیں کہ ماسی نےآ کر کہا۔ ’’باجی وہ ساتھ والے غالب انکل کہہ رہے تھے کہ صاحب کے کپڑے، جوتے وغیرہ نکالیں تو گلی کے چوکیدار کوبھی یاد رکھنا۔‘‘ ’’ہیں…؟‘‘ یہ تو کسی نے سوچا ہی نہ تھا۔ اور پھر وانیہ کی الماری میں حارث سیف الدین کے شیلف کا جائزہ لیا گیا تو دو شلوار قمیض، تین پاجامے، دو پینٹیں اور تین شرٹس نکلیں۔ ایک جوتا سلائی لگا ہوا، مگر سلیقے سے پالش شدہ اور ایک جوتا بہت خستہ حال میں۔ 

گھر والی چپّل باہر ہی پڑی تھی۔ تو یہ تھی، حارث سیف الدین کی کُل متاع، جب کہ الماری میں وانیہ کے کپڑے، جوتے رکھنے کی جگہ نہ تھی اور وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک (کیوں کہ وہ ہر سال اپنے اور بچّوں کے پرانے کپڑے، جوتے نکال دیا کرتی تھی۔ رہے حارث، تو اُن کے لیے کبھی کچھ لے بھی آتی، توفضول خرچی پراچھی خاصی ڈانٹ پڑجاتی۔ 

بقول وانیہ، اُنھیں کسی کا لایا پسند ہی کب آتا تھا۔ وہ تھے ہی اتنے’’کھڑوس، بدذوق‘‘) اور وہ ایسے کیوں تھے، کبھی کسی نے جاننے کی زحمت ہی نہیں کی کہ یہ تو شاید سب باپوں کی کہانی ہے۔ وہ سب ہی ہٹلر جیسے سخت گیر، اکھڑ اور بدمزاج ہوتے ہیں، جب کہ ہماری قوم کی مائیں انتہائی صبروتحمّل والی ہیں۔ گھرمیں یہ باپ، گھڑی بَھر کے تو مہمان ہوتے ہیں اور حارث اب اِس مہمان خانے سے بھی جا چُکے تھے۔

سنڈے میگزین سے مزید