• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جویریہ شاہ رُخ

’’عنایا! تم بار بار یہ موضوع کیوں چھیڑ دیتی ہو۔ مَیں نے جب ایک بار کہہ دیا کہ نہیں، تو پھر نہیں۔‘‘زوہان نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن زوہان… اگر مَیں آپ کے ساتھ گھر چلانے میں حصّے دار بن جاؤں، تو اس میں کوئی بُرائی تو نہیں۔‘‘ عنایا آج پھر بحث کے موڈ میں تھی۔ ’’مَیں نے کب کہا کہ برائی ہے، مگر…‘‘ زوہان اپنی بات مکمل ہی نہ کر پایا تھا کہ عنایا پھر بول پڑی ’’مگر کیا؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ پھر مَیں آپ کی بات نہیں سنوں گی یا باغی ہو جاؤں گی؟‘‘ ’’دیکھو عنایا! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ زوہان نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔ ’’تو پھر انکار کیوں…؟؟‘‘ عنایا نے اس کی بات ہی مکمل نہ ہونے دی ۔ ’’بچّوں کا کیا ہو گا، مُجھے بتاؤ۔‘‘ زوہان نے پوچھا۔ ’’ہم میڈ رکھ لیں گے اور پھر عالیان اب بڑا ہو گیا ہے۔ 

وہ عیشل اور مومنہ کا خیال رکھ سکتا ہے۔‘‘ عنایا نے اُسے تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’تم ادھر آؤ .....بیٹھو تو سہی۔‘‘ زوہان نے نرمی سے کہا، تو وہ اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’عنایا! مَیں چاہتا ہوں کہ بچّے تمہاری نگرانی میں پلیں بڑھیں، کیوں کہ ایک ماں جس قدرجاں فشانی سے بچّوں کی تربیت کر سکتی ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘‘ زوہان نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں بھی تو بچّوں کے اچّھے مستقبل کے لیے جاب کرنا چاہتی ہوں، لیکن آپ سمجھ ہی نہیں پا رہے۔‘‘ وہ کسی طور پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ تھی۔ ’’ہم اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ کفایت شعاری بھی تو کر سکتے ہیں۔‘‘ 

زوہان نے تجویز پیش کی۔ ’’ اس منہگائی میں پہلے ہی بہت مشکل سے اخراجات پورے ہو رہے ہیں ، اوپر سے آپ کفایت شعاری کا مشورہ دے رہے ہیں۔‘‘ عنایا نے طنز کیا۔ ’’دیکھو! منہگائی اپنی جگہ، مگر خواہشات کو بہر حال محدود کیا جاسکتا ہے۔‘‘ زوہان نے اُسے سمجھانے کی آخری کوشش کی۔ ’’آپ ہمیشہ یہی جواب دیتے ہیں۔ ہاں، ہوں مَیں خواہشات کی غلام اور جب مَیں اپنے بل بُوتے پر انہیں پورا کرنا چاہتی ہوں، تو پھر کیا مسئلہ ہے۔ کیا زیادہ محنت سے وسائل بڑھا کر اپنی خواہشات پوری کرنا غلط ہے؟‘‘ عنایا نے خاصے جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔

اگر تمہیں ہر صُورت جاب کرنی ہی ہے، تو پھر جو دل چاہے کرو۔ مجھ سے اجازت لینے کی بھی کیا ضرورت ہے۔‘‘ زوہان نے خفگی سے جواب دیااور کمرے سے باہر نکل گیا۔عنایا، زوہان کی ناراضی کو وقتی سمجھتے ہوئے انٹرویو دینے چلی گئی ۔ چوں کہ وہ ایک باصلاحیت اور تعلیم یافتہ لڑکی تھی، لہٰذا اُسے فوراً ہی سلیکٹ کر لیا گیا۔ گرچہ زوہان کو ساری باتوں کا علم تھا، مگر اُس نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی۔

مِس عنایا! آپ کو باس نے بلایا ہے۔‘‘ آفس بوائے نے اُس کے قریب آ کر کہا۔ وہ سارا دن کام کر کر کے کافی تھک چُکی تھی اور اب اُسے باس کا بلاوا ناگوار گزر رہا تھا۔ مگر باس نے اُسے ایک اور فائل تھماتے ہوئے الائنس کرنے کا کہا۔ جواباً اُس نے طبیعت کی خرابی کابتایا اور یہ کہہ کر اُٹھ آئی کہ گھر جا کر یہ اسائنمینٹ مکمل کر لوں گی۔ وہ تھکی ہاری دفتر سے باہر نکلی، تو بس کے انتظار نے رہی سہی کسر نکال دی۔ 

گھر پہنچ کر اُس نے حمدہ (ماسی) کو چُھٹی دی اور رات کا کھانا تیار کرنے لگی۔ رات کو سارے کام نمٹانے کے بعد وہ دفتر سے اپنے ساتھ لائی فائل کی طرف متوجّہ ہوئی، تو مومنہ کمرے سے باہر نکل کر اُسے بُلانے لگی۔ ’’بیٹا! آپ سو جائیں۔ مما آ رہی ہیں۔‘‘ عنایا نے اُسے پیارے سے سمجھایا۔ ’’نئیں مما! آپ آئیں ناں پلیز…‘‘مومنہ نے اصرار کیا۔ ’’بیٹا! مما کام ختم کر کے آپ کے پاس ہی آئیں گی۔‘‘ 

عنایا نے بیٹی کو نرمی سے جواب دیا۔ ’’نئیں…چلیں ناں میرے ساتھ۔‘‘ اب پانچ سالہ مومنہ ماں کا دامن کھینچنے لگی ،مگر عنایا سُنی ان سُنی کر کے اپنا کام جلدی جلدی ختم کررہی تھی۔ مومنہ نے ماں کی توجّہ نہ پاکرفائل کھینچی ،تو پیپر دو ٹکروں میں تقسیم ہو گیا، جس پر عنایا نے بیٹی کے چہرے پر طمانچہ دے مارا۔ مومنہ کے رونے کی آواز سُن کر زوہان کمرے سے باہر نکل آیا اور نہایت خفگی سے عنایا کو دیکھتے ہوئے مومنہ کو گلے سے لگا کر اندر چلا گیا۔

دن یوں ہی گزررہے تھے ۔ عنایا کی جھنجھلاہٹ دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ خاصی بے زاری سے گھر کے کام کرتی ، بچّوں کو بھی بالکل توجّہ نہیں دے پا رہی تھی اوراُس کے اس طرزِ عمل کا عالیان پر خاصا منفی اثر پڑا تھا۔ وہ دن بھر ٹی وی دیکھتا رہتا ، جب دل چاہتا کھاتا پیتا یا سو یا رہتا۔ گھر کا سارا روٹین ہی خراب ہو گیا تھا۔ 

عنایا کو ملازمت کرتے تقریباً سات ماہ ہو چُکے تھے۔ ایک روز وہ اسٹاپ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی کہ چند بد قماش لڑکے اسے نگاہوں سے ٹٹولنے لگے۔ عنایا نے پریشان ہو کر اپنی چادر کو ایک بار پھر دُرست کیا۔ اتنے میں بس آگئی اور ان میں سے ایک لڑکا عنایا کے ساتھ ہی بس میں سوار ہو گیا۔ 

لڑکے کو بس میں سوار ہوتا دیکھ کر عنایا خوف زدہ ہو گئی ، گھبراہٹ اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔ بس پوری طرح بَھری ہوئی نہ تھی۔ کنڈیکٹر نے عنایہ سے اُس کے اسٹاپ کا پوچھا، تو اس نے کہا کہ ’’دوسرا اسٹاپ ہے۔‘‘ جس پر اُس لڑکے نے آواز لگائی، ’’اوہو! ہمارا بھی وہی اسٹاپ ہے۔‘‘ لڑکے کی اس حرکت پر عنایا سہم گئی اور دل ہی دل میں دُعائیں پڑھنا شروع کر دیں۔ بس اسٹاپ پر رُکی، تو اس کے برابر میں ایک ادھیر عُمر خاتون آکر بیٹھ گئیں۔ وہ کوئی ٹیچر لگ رہی تھیں۔ انہوں نے عنایا کی پریشانی بھانپتے ہوئے پوچھا، ’’کیا ہوا بیٹی! کیوں پریشان ہو؟‘‘ 

عنایہ نے اُنہیں سارا احوال کہہ سُنایا، تو وہ بولیں، ’’اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کمانے نکلو، تو ایسے آوارہ لوگوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ کوئی اَن ہونی بات تو نہیں۔ لگتا ہے، تم نے ابھی جاب شروع کی ہے۔‘‘ عنایا نے اثبات میں سَر ہلایا، تو پھر وہ خاتون بولیں کہ ’’ بیٹی! مَیں تو برسوں سے ملازمت کر رہی ہوں۔

بھائی کوئی ہے نہیں اور باپ کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے، جب کہ اپنا گھر بھی نہیں بسایا۔ مجبوری انسان کو بہت سے سمجھوتے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خاتون نے ایک سرد آہ بھری اور عنایا سے پوچھا، ’’ کون سا اسٹاپ ہے تمہارا…؟‘‘ ’’اگلا… ‘‘ اُس نے مختصر سا جواب دیا ۔ ’’میرا بھی وہی ہے …ہم ایک ساتھ ہی اُتر جائیں گے ۔‘‘ خاتون نے اُس کی ہمّت بندھائی۔

گھر آکر عنایا سوچنے لگی کہ آخر ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ ہے، جومَیں نے اس کٹھن راہ کا انتخاب کر لیا۔ اُس کے کانوں میں زوہان کی باتیں گونجنے لگیں ۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا کہ ’’واقعی مَیں احمق ہوں کہ تپتی دُھوپ میں نکل کھڑی ہوئی ہوں۔ 

مَیں محض اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے اپنے ہنستے بستے گھر کے درپے ہو گئی ہوں اور خود کو زوہان سے بھی دُور کر لیاہے۔ آج عنایا کو یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ سائبان کے ہوتے ہوئے دھوپ کا سفر حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اُس نے فوری طور پر اپنا استعفیٰ ٹائپ کیا اور اپنے بچّوں کے ساتھ لیٹ کر سکون سے آنکھیں موند لیں۔

سنڈے میگزین سے مزید