• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: فرحین ذیشان، رمشہ خان، حرا اویس، میر علی، شہہ روز، نیجل نومی

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو(ڈی ایچ اے، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

عیدالاضحیٰ کی نسبت سے ایک شعر نظر سے گزرا اور سیدھا دل میں اُتر گیا کہ ؎ یہ عید، عشقِ خاص ہے، بیٹے کا باپ سے.....تُو بھی اِسی طریق سے رُوٹھا خُدا مَنا۔ جیسا کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی ایک تحریر میں ’’قربانی‘‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’’نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حُکم سے قربانی کے لیے اُس خاص دن کا انتخاب فرمایا، جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے زرّین کارنامہ وقوع پزیر ہوا۔

یعنی ایک بوڑھا باپ اپنے رب کا ایک اشارہ پاتے ہی بہت ٹھنڈے دل سے اپنے لاڈلے، شہزادے بیٹے کو قربان کرنے پرآمادہ ہوگیا اوربیٹا بھی یہ سُن کر کہ مالک اُس کی جان کا نذرانہ چاہتا ہے، گردن چُھری تلے رکھ دینے پر بخوشی رضامند ہوا۔ یوں یہ قربانی، محض ایک عبادت نہیں، ایک عظیم تاریخی واقعےکی یادگار بن گئی، جو ایمانی زندگی کے اِس مُنتہائے مقصود کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ اُنہیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ 

حُکمِ قربانی بجا لانے، تہوارِعید منانےکےلیے سال کا کوئی بھی دن مقرر کیاجاسکتا تھا، مگر اِس خاص تاریخ کا انتخاب ’’بہ یک کرشمہ دوکار‘‘ کے مصداق ہے۔ 

نبی کریم ﷺ نےاِس انتخاب کی وجہ خُود بیان فرمائی، جب اُن سے پوچھا گیا کہ ’’یہ قربانی کیسی ہے؟‘‘آپؐ نےارشاد فرمایا ’’یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی سُنت ہے۔‘‘  (مسندِ احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ) 

پھر اگر ہم قربانی کی دُعا کےالفاظ پرغور کریں۔ ترجمہ: ’’مَیں نے یک سُو ہو کر اپنا رُخ اُس ذات کی طرف کرلیا، جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور مَیں مُشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بےشک، میری نماز اور قربانی اورمیرامرنا اورجینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حُکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جُھکانے والا مَیں ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔‘‘ اِس دُعا میں تقریباً اُن تمام باتوں کا ذکر ہے کہ جن کے سبب قربانی واجب ٹھہری۔

جب کہ قرآنِ مجید میں سورۃ الحج کی ایک آیت میں ربِّ کریم نے بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ قربانی کا پورا مقصد بیان کردیا ہےکہ ’’اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کاگوشت پہنچتا ہےاورنہ خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ قصّہ مختصر، عید الاضحیٰ کا اصل مقصد و مفہوم، بنیادی فلسفۂ ایثار و قربانی ہرگز ہرگز وہ نہیں، جو ہم نے سمجھ لیا ہے اور جس ڈگر، روش اور طرزِ عمل پرفی زمانہ ہم گام زن ہیں۔ وہ اقبال نے کہا تھا ناں کہ ؎ رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے..... وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے..... نماز و روزہ و قربانی و حج..... یہ سب باقی ہیں، ’’تُو‘‘ باقی نہیں ہے۔ اور جب، ہم ہی وہ ہم نہیں رہے، تو پھر بھلا کیا باقی رہ گیا۔

ہماری ’’عیدین’’ کا تو تصوّر دلی خوشی اور اللہ کے شُکر و ذِکر و امتنان ہی سے مشروط ہے۔ اگر ہمیں دیگر مذاہب سےالگ دو اہم ایّام بطورِ خاص ’’عید الفطر‘‘ اور ’’عید الاضحیٰ‘‘ کے ناموں سے موسوم کرکے (کہ عید کوعید کہا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ یہ دن ہر سال مسرت و شادمانی کے ایک نئے تصوّر کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے) 

اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبات سے لب ریز، بارگاہِ الہٰی میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ شُکر بجا لانے کے لیے عطا کیے گئے ہیں، تو یہ عام دنوں جیسے تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اور یہ ان مباہات و لغویات کے لیے بھی قطعاً مختص نہیں کیے گئے، جنہیں ہم نے اِن ایّام کا لازمہ بنا دیا ہے۔ 


جس نے رمضان المبارک کوپایا، مگر اپنی بخشش نہ کروا سکا۔ ماہِ صیام کے سب فضائل و برکات سے محروم رہا، تو اُس کا اُس مزدوری، انعام و اکرام پر بھی کیا حق، جو مالکِ کون و مکاں کی طرف سے ’’عیدِ سعید‘‘ کی صُورت عطا کیا جاتاہے اور جس نے عیدِ قربان کے مطلب و مقصد ہی کو نہ سمجھا۔ 

اطاعتِ الہیٰ کی بجا آوری کے نام پر جانور خریدا، اُسے اللہ کی راہ میں گرایا، ڈھایا، قربان بھی کیا، تو نمود و نمائش، بناوٹ و تصنّع کےغالب احساس کے ساتھ۔ اللہ کی واضح طور پر بتائی گئی تقسیم میں بھی ڈنڈی ماری، حسبِ توفیق ہیرپھیرکی، فریج، فریزرزتو بَھرے گئے، مگر مستحقین، ضرورت مندوں کے پیٹ نہیں، تو پھر اللہ کو ایسے خون، گوشت کی بھی کیا حاجت؟ اُسے تو صرف ’’تقویٰ‘‘ درکار تھا۔ 

اِسی ضمن میں مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری نے ’’خطبۂ عیدالاضحیٰ‘‘ دیتے ہوئے کیا خُوب صُورت بات کی کہ ’’ایک مسلمان کو چاہیے، وہ عیدِ قرباں پر محض نمود ونمائش کے لیے نہیں، اپنی نفسانی حیوانیت ذبح کرنے کے نقطۂ نظر سے جانور قربان کرے۔ 

عیدالاضحیٰ کے دن جانور ذبح کرنا دراصل اِس لیے افضل ترین عمل ہے کہ یہ اپنے ’’وجود‘‘ پر چُھری پھیرنے کے مترادف ہے اور کون سا وجود، یہ سمجھنےکی ضرورت ہے۔ اِس سےمُرادوہ وجود ہے، جس میں خواہشات بَھری ہیں۔ 

سرمایہ پرستی، غروروتکبّر، ظلم وحسد، بغض وعداوت اور حیوانیت کےاثرات ہیں، تو ہمیں درحقیقت اِن تمام اعمالِ بد پر چُھری پھیرنی ہے۔ 

سو، اگر ذبیحہ کے وقت یہ نیّت وعزم ہو، تو پھر تو قربانی، واقعتاً قربانی ہے، وگرنہ محض رسم و روایت اور کھانے پینے کا سلسلہ۔ اورایسی قربانی کی اللہ جل شانہ کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

اب اِن چند اقتباسات و گزارشات کے پس منظر میں آپ اپنا محاسبہ خُود کرلیں۔ آج، دنیا میں اللہ کے پہلےگھر، خانہ کعبہ سمیت کئی ممالک میں اُمتِ مسلمہ پورے جوش و خروش سے عید الاضحیٰ منانے کا اہتمام کر رہی ہے۔ 

اور کل ان شاء اللہ تعالیٰ ہم بھی اِس اہم فریضے سے سبک دوش وسرفراز ہوں گے، مگر ہم میں سے کتنے واقعتاً سُرخ رُو بھی ٹھہریں گے، اپنے رُوٹھے رب کو منانے میں کام یاب ہوں گے، اِس کا دارومدار سو فی صد ہماری نیّتوں پر ہے کہ جن کاحال بھی اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ 

بہرکیف، ہم نے ہرسال کی طرح، اِمسال بھی آپ کے لیے وہی روایتی رنگ و انداز سے مرصّع، خُوب آراستہ و پیراستہ سی ایک ’’عیدالاضحیٰ اسپیشل بزم‘‘ کا اہتمام کر دیا ہے۔ 

اور اِسی موقعے کی عین مناسبت سے صائب جعفری کی ’’عیدالاضحیٰ‘‘ ہی کےعنوان سے ایک نظم بھی آپ کی نذر ہے ؎ دینے پیغامِ محبّت، شمس اُبھرا عید کا… ہومبارک سب کو، دن اِک اور آیا عید کا… ایک دوجے کے گلے لگ جائو، نفرت چھوڑ کر… یوں منائو مِل کے خوشیاں، ہے زمانہ عید کا… 

دل کہ پژمُردہ، غم و اندوہ کی صرصر سے تھا… کِھل اٹھا دِل مثلِ گُل، پایا جو مُژدہ عید کا… کسمپرسی میں بھی سرشُکرِخدا میں جُھک گیا… آسماں پر جب ہلالِ نُور چمکا عید کا… مثلِ اہلِ بیتِ سرکارِ رسالتؐ حشر تک… فرض ہے ہر اِک مسلماں پرمنانا عید کا…عید کیا ہے، حکمِ یزداں کی اطاعت کی بہار… دیکھو، عصیاں کرنہ دے پھر رنگ پھیکا عید کا… 

روزِ قرباں ذبح کرنا جانور سُنّت ہے پر… کیا نہیں، ایثار و قربانی تقاضا عید کا… ہے خلیلؑ اللہ کے صدق و صفا کی بازگشت… ہے جہاں میں چار سُوجو آج چرچا عید کا… فاخرہ پوشاک، اونچی پگڑیوں کے ساتھ ساتھ… معصیت سے دُور رہنا بھی ہے جلوہ عید کا… خواہشاتِ نفس پر پھیرو چُھری تو بات ہے… ورنہ رہ جائے گا دن، بن کر تماشا عید کا… دیکھو رہ جائے نہ بھوکا آج ہم سایا کوئی…خلقِ خالق کی نگہداری ہے مایا عید کا… العجل لبیک ہو وردِ زبانِ مومنیں… اے خدا اس طرح گزرے لمحہ لمحہ عید کا… وہ نقابِ رُخ اُلٹ کر آئیں، جس دن روبرو… لحظہ لحظہ زندگی ہوگی نظارہ عید کا۔

ہمیشہ کی طرح آپ سب کو ہماری طرف سے اس دلی تمنّا کے ساتھ کہ؎ دُعا ہے، آپ دیکھیں زندگی میں بےشمار عیدیں… خُوشی سے رقص کرتی، مُسکراتی، پُربہار عیدیں… نچھاور آپ پر ہوں، ایسی ایسی صد ہزارعیدیں…زمانے بَھر کی خوشیاں آپ پر کردیں نثار عیدیں۔ یہ عیدِ قرباں، عیدِ ایثار، عیدالاضحیٰ بہت بہت مبارک ہو۔