تحریر: نرجس ملک
ماڈل: زینب سلیم
ملبوسات: شاہ پوش (لبرٹی مارکیٹ، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
آپ کے لیے ایک فیس بُک پوسٹ کچھ (بلکہ کافی) ترمیم کےساتھ حاضر ہے۔ ’’میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں قدیم وقتوں میں جائوں اور کچھ کہانیوں کے انجام بدل دوں۔ ہیر کو بتادوں کہ لڈّو میں زہر ہے، کیدو تجھے کبھی رانجھے کا نہیں ہونے دے گا۔ سوہنی کے کان میں کہوں کہ یہ کچّا گھڑا تجھے لے ڈوبے گا، رانجھے تک نہیں لےجائےگا۔ مرزا کوخبرکردوں کہ صاحباں نے بھائی کی محبّت میں تیر، کمان سے نکال لیا ہے۔ فرہاد سے کہوں کہ شیریں تیرے لیے ہے ہی نہیں۔ سو، پہاڑ کھود کے بھی نہیں ملے گی۔
پُنّوں کو بتائوں کہ بھائیوں میں کون ہابیل ہے اور کون قابیل، پتا لگاناآسان نہیں ہوتا۔ یوں ہی بےسدھ پڑا رہا، تو تیری سسّی کو صحرا نگل جائے گا۔ عُمر کو خبردار کروں کہ ماروی آزاد فضائوں کی پنچھی ہے، اُسے قید، اسیر کرنے کی کوشش کی، تو سانس لینا بھول جائے گی۔ رانے کو صُبح تک ہاتھ جوڑ کے روک لوں کہ خُود دیکھ لے، اُس کی مومل ہرگز بے وفا نہیں۔ شیربانو کے ترلے، منّت ڈالوں کہ یوسف خان کو ہرگز کہیں جانے نہ دے، رسّی جس چچازاد کے ہاتھ ہے، وہ ہرگزقابلِ بھروسا نہیں۔ اور… درخانئی کو ہوش یار کردوں کہ رباب بجاتے آدم خان کی آنکھوں میں بُھول کے بھی نہ جھانکے، ورنہ زندگی بھر کے لیے سُدھ بُدھ کھو بیٹھے گی۔ کیوں کہ یہ وراثتی غم و اندوہ، رنج و الم، حُزن و ملال، اُداسیاں، ویرانیاں آنے والی نسلوں کے کاندھوں پر بہت بھاری ہیں۔‘‘
ویسے یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ ہم ماضی کو بدلنے کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگرحال کی بہتری و درستی کے لیے حتی الامکان دوڑدھوپ، سعی وکوشش بھی نہیں کرتے۔ مستقبل کےلیے سو سو اندیشے تو پال رکھتے ہیں، لیکن اُس کے سنوار کے لیے، حال کی جدوجہد پر کوئی یقین و ایمان نہیں۔ حالاں کہ جو ہاتھ میں ہے، وہ صرف ’’حال‘‘ ہے کہ ماضی سے صرف سبق سیکھا جا سکتا ہے اور روشن مستقبل کے لیے بہرحال میسّر وقت کے اِک اِک لمحے کو بروئے کار لانا از حد ضروری ہے۔
بدقسمتی سے اِس وقت جو مُلکی حالات ہیں، وہ تو بہت ہی تشویش ناک ہیں۔ اُس پر طرّہ یہ کہ ہم گلوبل وارمنگ سےمتاثرہ ممالک میں سرِفہرست ہیں۔ موسموں کا کوئی بھروسا ہی نہیں رہ گیا۔ بےموسم سردی، بارش، خزاں، بہار اور..... گرمی تو الامان الحفیظ۔ اِن دنوں تو حال یہ ہے کہ موسم کی شدّت وحدّت بس پگھلائے دے رہی ہے۔ گھر و باہر کہیں چین، سُکون نہیں۔ ٹھنڈے کمروں کی عیاشی بھی صرف ’’سرکاری اخراجات‘‘ ہی پرممکن ہے۔ پی ٹی وی کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، تاجدارعادل نےپچھلے دنوں ایک اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کہ ’’دنیا بجلی پر کاریں، بسیں، ٹرینیں چلا رہی ہے اور ہم الیکٹرک بِلز کے ڈر سے پنکھے نہیں چلا رہے۔‘‘
تو اَن گنت لوگوں نے لائیک، شیئر کیا، کمنٹس دیئے، کیوں کہ فی الوقت غریب اور متوسّط طبقے کے ہر گھرکاایک ہی مسئلہ ہے۔ اور پھر انور مسعود صاحب نے ’’اُف یہ گرمی‘‘ کے عنوان سے رباعی لکھی ؎ موسمِ گرما کی شدّت کے سبب سے ہر جگہ ..... ہر کوئی بےحال اور ہلکان پایا جائے ہے..... گرم و یسا ہی پشاور بھی ہے اور لاہور بھی..... اِن دِنوں ہر شہر میں ملتان پایا جائے ہے۔ بخدا، کیا سو فی صد سچ کہا۔ حد تو یہ ہے کہ اِن دنوں تو کراچی میں بھی ملتان ہی پایا جائے ہے۔ چلیں خیر، موسم نے تو اخیرکر ہی رکھی ہے، لیکن ہم نے بھی سدِباب و روک تھام، دروازے بند کرنے کی کوئی ترکیب و تدبیر تو کرنی ہی ہے۔ سو، اپنا وہی ہرہفتے والا کارگر ’’نسخہ‘‘ لیے حاضرِ خدمت ہیں۔
ذرا ہماری آج کی بزم ملاحظہ فرمائیں۔ سیاہ رنگ کھاڈی نیٹ میں ایک خالصتاً دعوتی پہناوا ہے، جس کی شرٹ کاپورافرنٹ تھریڈ، سیکوینس ورک سے پٹا پڑا ہے، جب کہ ساتھ اِسی کام سے مزیّن نیٹ کا حسین دوپٹا ہے۔ ہلکے زرد رنگ میں ہم رنگ اور سلور دھاگے کے کام سے آراستہ خُوب صُورت فراک کے ساتھ اسٹریٹ ٹرائوزر اور سلک کے میچنگ دوپٹے کی دل آویزی ہے، تو کھاڈی نیٹ ہی کے ٹی گرین سے شیڈ کے پہناوے کی شرٹ، دوپٹے پر نفیس سے موتی، تھریڈ ورک کی جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے۔ اور سفید ٹرائوزر کے ساتھ ہلکے سے سُرمئی رنگ میں شیفون جارجٹ کی کام دار شرٹ اور دوپٹا بھی اس جلتے تپتے موسم کی کسی بھی تقریب میں شرکت کے لیے ایک بہترین انتخاب ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارے انتخاب میں سے کچھ بھی منتخب کرکے حالات سے مقابلے کی تیاری کریں، نہ کہ ماضی کی کہانیوں کے انجام بدلنے کی تمنّائیں، آرزوئیں پالتی رہیں۔ وہ کیا ہے کہ موسم قاتلانہ ہے، تو رنگ و انداز بھی ’’قاتلانہ‘‘ ہی ہونے چاہئیں تاکہ بےاختیار ہی لبوں پر آئے ؎ ہنسی میں ساغرِ زرّیں کھنک کھنک جائے..... شباب اُس کی صدا کا چھلک چھلک جائے..... دل و نظر میں بَسی ہے، وہ چاند سی صُورت..... وہ دل کشی ہے کہ بالک ہمک ہمک جائے..... لباس میں ہے وہ طرزِ تپاکِ آرائش..... جو رنگ چاہے چُھپانا، وہ چھلک چھلک جائے..... قدم قدم تری رعنائیوں کے دَر وا ہوں..... روش روش ترا آنچل ڈھلک ڈھلک جائے..... نفس نفس ہو صبا کی طرح بہار انگیز..... اُفق اُفق گلِ ہستی مہک مہک جائے۔