میڈاکٹر شہنیلا کاشف
عید الاضحیٰ مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عظیم قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ سو، دنیا بَھر کے مسلمان اس روز سنّتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ایک مسلمان معاشرے میں عید الاضحیٰ کا دن نہ صرف مذہبی لحاظ سے اہم ہے، بلکہ اس کا معاشرتی پہلو بھی غیر معمولی ہے۔ عید کے موقعے پر لوگ اپنے عزیز و اقارب، دوستوں اور ہم سایوں کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں۔
قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے اور اِس تقسیم میں خصوصیت کے ساتھ ایسے افراد کو بھی شریک کیا جاتا ہے، جنہیں سال بھر گوشت باآسانی دست یاب نہیں ہوتا۔ اِس اعتبار سے یہ تہوار معاشرے کے کم زور طبقے کے ساتھ تعاون کا ذریعہ ہے اور اس دن باہمی اخوّت، بھائی چارے اور پیارو محبّت کو بھی فروغ ملتا ہے۔
عید الاضحیٰ کے موقعے پر گوشت کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے، کیوں کہ اس دن لوگوں کو اپنی پسند سے جانور خریدنے اور پھر اپنے سامنے ذبح کروانے کے سبب تازہ، بہترین، معیاری اور صحت بخش گوشت میسر آتا ہے۔اسی لیے یہ گوشت زیادہ لذیذ اور غذائیت کے اعتبار سے بھی بہترین ہوتا ہے۔ہر فرد کو پتا ہوتا ہے کہ کس عُمر کا، کیسا جانور ذبح کیا گیا اور صاف ستھرے طریقے سے کی جانے والی قربانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والا گوشت کس قدر تازہ و عُمدہ ہے۔
گوشت، انسانی غذا کا ایک اہم حصّہ ہے کہ اس میں شامل اجزاء جسم کی نشوونما اور طاقت و مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ہماری غذا میں شامل اہم اجزاء، مثلاً پروٹینز، وٹامنز، فولاد، لحمیات اور نمکیات وغیرہ کسی نہ کسی درجے میں گوشت میں شامل ہوتے ہیں اور اس کے استعمال سے یہ تمام غذائی اجزاء جسم کو فراہم ہو جاتے ہیں، جب کہ تازہ گوشت میں بہت اہم غذائی اجزاء، معدنیات اور وٹامنز موجود ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کی نشوونما میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے گوشت متوازن غذا کا بہت اہم حصّہ ہے۔ یاد رہے، ایک سو گرام گوشت میں143 کیلوریز، 3-5 گرام چکنائی، صفر گرام کاربو ہائیڈریٹس اور26 گرام پروٹینز پائے جاتے ہیں۔
گوشت میں شامل وٹامنز اور معدنیات:
پروٹین (Protein) :مجموعی طور پر گوشت پروٹین سے بنتا ہے اور جانوروں سے حاصل کردہ پروٹین ( Animal Protein) اعلیٰ درجے کی غذائیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ پروٹین، پٹّھوں کی مضبوطی کے لیے نہایت ضروری ہے،اس سے جسم کو توانائی ملتی ہے اور مختلف جسمانی افعال میں بہتری آتی ہے۔چوں کہ یہ پروٹین، انسانی گوشت کی پروٹین سے ملتی جلتی ہے، اِس لیے کس سرجری یا بیماری کے بعد بحالیٔ صحت کے لیے گوشت کا استعمال بہت سُود ثابت ہوتا ہے۔
چکنائی یا چربی (Fat) : گائے اور بکرے کے گوشت میں مختلف مقدار میں چکنائی یا چربی موجود ہوتی ہے، جس کا تعیّن عُمر، جنس اور جانور کی غذا کے مطابق ہوتا ہے۔ البتہ جانور کی چربی میں موجود چند فیٹی ایسڈز انسانی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔
وٹامنز اور معدنیات ( Vitamins and minerals): وٹامن بی 12 :جانوروں سے حاصل ہونے والی غذا، یعنی گوشت، وٹامن بی- 12 کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ یہ وٹامن، خون اور اعصابی نظام کے لیے انتہائی مفید ہے۔
زنک (Zinc) : گوشت میں زنک کی مقدار بھی کافی زیادہ ہوتی ہے، جو جسم کی نشوونما کے علاوہ وائرسز کی روک تھام کا عمل بھی انجام دیتا ہے۔
سیلینیم (Selenium) : گوشت، سیلینیم کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے اور یہ جسم کے مختلف کیمیائی مراحل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
فولاد / آئرن: یہ گوشت میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے اور گوشت میں موجود آئرن جلد اور زیادہ مقدار میں جذب ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آئرن، خون کی تیاری اور آکسیجن کی ترسیل کے لیے ضروری ہے، جب کہ اس کی کمی سے جسمانی کم زوری اور تھکن کی شکایت ہو سکتی ہے۔
وٹامن بی-12 اور وٹامن بی-6 : گوشت میں یہ وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جن کا خون بنانے اور توانائی کی فراہمی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ دماغی صحت، اعصابی نظام کی درستی اور خون کے سُرخ خلیوں کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔
فاسفورس: یہ اہم عُنصر بھی جسم کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے، جو سُرخ گوشت میں پایا جاتا ہے۔
کریٹینین (Creatinine): گوشت میں موجود یہ جزو مسلز کو توانائی فراہم کرتا ہے۔
گوشت کی اقسام :
گوشت کی مختلف اقسام ہیں، جن میں گائے، بکرے، اونٹ اور بھیڑ وغیرہ کا گوشت شامل ہے۔ ہر قسم کا گوشت اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور اس میں مختلف غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ گائے کا گوشت پروٹین، آئرن اور وٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ طاقت اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس میں چربی کی مقدار زیادہ ہو سکتی ہے، جس کے باعث اِسے اعتدال سے کھانا چاہیے۔
بکرے اور بھیڑ کا گوشت بھی پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے، جب کہ اس میں آئرن کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ گوشت ذائقے دار ہوتا ہے اور عید الاضحیٰ کے موقعے پر زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ یاد رہے، قربانی کے جانوروں کا گوشت اپنی نوعیت کے اعتبار سے سُرخ گوشت (Red meat) کہلاتا ہے۔
انسانی جسم کی صحت کے لیے متوازن غذا ازحد ضروری ہے اور گوشت اس کا ایک اہم حصّہ ہے کہ ایک صحت مند بالغ انسان کو روزانہ تقریباً 50 سے 70 گرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، جو گوشت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
البتہ، گوشت کے زائد استعمال سے صحت کے مختلف مسائل لاحق ہو سکتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ گوشت کھایا تو جائے، لیکن اعتدال پیشِ نگاہ رہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق، ایک ہفتے میں دو سے تین بار گوشت کھانا کافی ہوتا ہے، تاہم یومیہ بنیادوں پر گوشت کھانے کی صُورت میں ہفتے بَھر کی مجموعی مقدار 500 گرام یا آدھا کلو گرام سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔
امراض کے ساتھ گوشت کا استعمال:
گوشت، صحت کے لیے مفید تو ہے، لیکن بعض بیماریوں کی صُورت میں اس کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے۔مثلاً ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کم چربی والا گوشت استعمال کریں اور اُنھیں نمک کی مقدار بھی کم رکھنی چاہیے۔ چوں کہ چَٹ پٹے پکوانوں میں مختلف مسالوں اور نمک کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، سو اُن سے احتراز برتا جائے۔
نیز، سُرخ گوشت میں چربی اور کولیسٹرول زیادہ ہوتا ہے، جو بلڈ پریشر بڑھا سکتا ہے، جب کہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے بھی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح امراضِ قلب کے مریضوں کو سُرخ گوشت کم کھانا چاہیے اور چربی سے بچنا چاہیے کہ چکنائی کی مقدار بڑھنے سے خون کی نالیوں میں تنگی ہو سکتی ہے اور دل کا دَورہ بھی پڑ سکتا ہے۔
ہاضمے کے مسائل کے شکار افراد کو بھی سُرخ گوشت کھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے، کیوں کہ یہ بعض اوقات ہاضمے میں دشواری پیدا کر سکتا ہے اور ایسے افراد کو معدے میں تیزابیت، جلن اور گیس کی زیادتی کی شکایت ہوسکتی ہے۔ گوشت کو اچھی طرح صاف نہ کرکے پکانے سے معدے اور آنتوں کے انفیکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اُلٹی، متلی کی شکایات ہوسکتی ہیں۔
جب کہ جگر کے مریضوں کو بھی کم چکنائی والا گوشت استعمال کرنا چاہیے۔نیز، یورک ایسڈ کے مریضوں کو گوشت کے استعمال میں خاصی احتیاط برتنی چاہیے کہ گوشت میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو Gout اور دیگر مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
عموماً عید الاضحیٰ کے موقعے پر وہ لوگ بھی گوشت کے استعمال میں بے احتیاطی برتتے ہیں، جو موٹاپے یا وزن کی زیادتی کا شکار ہیں، تو یاد رہے، سُرخ گوشت وزن میں اضافے کا باعث بنتا ہے، اِس لیے استعمال میں اعتدال لازم ہے۔ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد کو بھی زاید پروٹین کے حصول سے اجتناب برتنا چاہیے۔
بہرحال، ان تمام خطرات کے باوجود گوشت ہماری جسمانی ضرورت بھی ہے تو عیدِ قرباں کے موقعے پر کھانے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اس ضمن میں اپنی جسمانی ضرورت اور امراض کو بھی لازماً پیشِ نگاہ رہنا چاہیے۔
گوشت محفوظ رکھنے کے طریقے:
عموماً موسمِ گرما میں گوشت محفوظ رکھنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ چوں کہ قربانی کا گوشت تازہ اور صحت کے لیے مفید ہوتا ہے، اِس لیے اسے کافی دنوں تک فریزر میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے، لیکن تین سے چھے ماہ کے عرصے میں اس کے خواص کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
گوشت کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے فوری طور پر صفر درجۂ حرارت پر محفوظ کر لینا چاہیے۔ جب ایک مرتبہ گوشت ڈی فروسٹ( غیر منجمد)کرلیں، تو دوبارہ ہرگز فریز نہ کیا جائے۔ فریزر میں رکھنے سے پہلے گوشت کو صاف پانی سے دھو کر خشک کر لینا چاہیے اور پھر پلاسٹک بیگز یا ایئر ٹائٹ بیگز میں بند کر کے رکھنا چاہیے۔گوشت کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے لیے متعدّد طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں، مثلاً:
فریزر میں محفوظ کرنا: گوشت کو فوری طور پر کم ازکم منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ پر فریزر میں رکھنا چاہیے تاکہ وہ خراب نہ ہو۔
ویکیوم سیلنگ: گوشت ویکیوم سِیل کرنے سے زیادہ دیر تک تازہ رہتا ہے۔ اِس طریقے سے گوشت میں موجود ہوا نکال دی جاتی ہے، تو بیکٹیریا کی نشوونما کم ہوجاتی ہے۔
نمک لگا کر محفوظ کرنا: نمک، گوشت کو خراب ہونے سے بچاتا ہے اور نمک لگا کر گوشت زیادہ عرصے تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
پکانے کے بعد محفوظ کرنا: گوشت کو پکانے کے بعد بھی فریزر میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے، پکانے سے گوشت میں موجود بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ امر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ قربانی کے گوشت کو طویل دورانیے کے لیے محفوظ نہ کیا جائے اور منجمد گوشت زیادہ سے زیادہ ایک سے دو ماہ کے اندر استعمال کر لیا جائے۔
گوشت کے روایتی پکوان:
عید الاضحیٰ پر گوشت سے مختلف اقسام کے روایتی پکوان تیار کیے جاتے ہیں، جو ذائقے دار اور غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان پکوانوں میں نہ صرف گوشت کی مختلف اقسام استعمال ہوتی ہیں، بلکہ مختلف مسالا جات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بچّے ہوں یا بڑے، سارا سال بے چینی سے قربانی کے گوشت سے تیار ہونے والے لذیز، چٹخارے دار پکوانوں کا انتظار کرتے ہیں اور ان پکوانوں میں خصوصیت سے قورما، بریانی، پلاؤ، کباب، نہاری، کڑاہی، پائے اور دیگر کھانے شامل ہیں۔
چند احتیاطی، حفاظتی تدابیر:
گوشت کے استعمال کے لیے کچھ اصولوں پر عمل بہت ضروری ہے تاکہ کسی قسم کی بیماری یا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔٭قربانی کے فوراً بعد گوشت استعمال کرنا مناسب نہیں۔ اسے تین سے چار گھنٹے کُھلی ہوا میں رکھنا بہتر ہو گا۔
٭گوشت کو استعمال سے پہلے صاف پانی سے اچھی طرح دھو لینا چاہیے تاکہ اس میں موجود بیکٹیریا اور دیگر آلودگیاں دُور ہو جائیں۔٭گوشت فوری طور پر فریزر میں محفوظ کرنے کا انتظام کرنا چاہیے، جس کا درجۂ حرارت منفی 18ڈگری سینٹی گریڈ تک ہو۔
نیز، گوشت کو صحیح طریقے سے پکانا بہت ضروری ہے تاکہ اس میں موجود بیکٹیریا اور جراثیم ختم ہو جائیں۔یاد رہے، گوشت کو اچھی طرح پکانے سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
گوشت کا متوازن استعمال:
عید الاضحیٰ کے موقعے پر بھی گوشت کا متوازن استعمال بے حد ضروری ہے تاکہ صحت کے مختلف مسائل سے بچا جا سکے کہ زیادہ گوشت کھانے سے دل کے امراض، ذیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور اِس ضمن میں ماہرینِ صحت کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے۔جیسا کہ ایک ہفتے میں دو سے تین بار گوشت کھانا کافی ہے اور اس استعمال میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ اس کے ساتھ چند مزید احتیاطی تدابیر بھی مفید ثابت ہوں گی۔
جیسے: ٭گوشت جس شکل میں بھی کھایا جائے، مسالوں کی مقدار زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔٭تکّے کباب ضرور کھائیں، مگر بہت زیادہ مقدار میں کھانا مناسب نہیں۔٭گوشت کے ساتھ سلاد، لیموں اور دہی کا استعمال فائدہ مند ہے۔٭اگر دو وقت گوشت کھایا جائے، تو ایک مرتبہ سبزی کا استعمال بھی ہونا چاہیے۔٭دو کھانوں کے درمیان چھے گھنٹے کا وقفہ ضروری ہے۔٭زیادہ شوربے والے کھانوں کو ترجیح دینی چاہیے۔٭گوشت کے ساتھ پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔٭کھانا آہستہ آہستہ اور اچھی طرح چباکر کھایا جائے۔٭گوشت کھا کر پورا دن آرام نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہلکی پُھلکی ورزش کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔٭کھانے کے ساتھ کاربولک یا تیزابی مشروبات کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے، ان کی جگہ لیموں ملے پانی، تازہ پَھلوں کے رَس یا سبز چائے کا استعمال مفید ہے۔
ماحول کی صفائی:
قربانی کے موقعے پر ماحول کو آلودگی سے بچانے کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جانوروں کی آلائشیں سڑکوں، گلی محلّوں، چوراہوں اور نالیوں وغیرہ میں پھینک دیتے ہیں، جو ماحول میں تعفّن، جراثیم کی افزائش اور خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ دیہات کی نسبت شہروں میں قربانی کی آلائشیں ٹھکانے لگانے کا قدرے مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، تاہم اسے مزید بہتر بنانے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
شہریوں کو چاہیے کہ جہاں یہ سہولتیں موجود ہوں، اُن سے فائدہ اٹھائیں، قربانی کی آلائشیں کچرے دانوں میں ڈالیں اور مقامی انتظامیہ سے رجوع کریں کہ وہ ان کچرے دانوں کی باقاعدگی سے صفائی کروائیں۔ دیہات یا جن علاقوں میں ایسا کوئی انتظام موجود نہ ہو، وہاں اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی یا اجتماعی طور پر ان آلائشوں کو آبادی سے دُور پھینکنے کا انتظام ضرور کرنا چاہیے تاکہ ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔
ایک بار پھر ذہن نشین کرلیں کہ انسانی صحت کے لیے گوشت کا استعمال بہت ضروری سہی، تاہم اعتدال اور حفظانِ صحت کے اصول بھی پیشِ نظر رہنے چاہئیں تاکہ کسی قسم کی بیماری یا کوئی شکایت پیدا نہ ہو اور عید الاضحیٰ کے موقعے پر گوشت کے جو مختلف روایتی پکوان بنائے جاتے ہیں، ان کا متوازن استعمال ہی فائدہ مند ثابت ہوگا، بصورتِ دیگر نہ تو قربانی کے فوائد حاصل ہوں گے اور نہ ہی گوشت کے استعمال کے۔ ( مضمون نگار، ماہرِ اغذیہ ہیں، کراچی سے تعلق رکھتی ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) کی رُکن بھی ہیں)