• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات، بزنس کمیونٹی، معیشت دانوں کے علاوہ ایک عام آدمی بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ایک ہفتے میں تقریباً 7% یعنی 105 روپے سے گرکر 97.90 روپے تک آنے پر خوشی کے ساتھ ساتھ فکر مند بھی تھا۔ فکر مند وہ سٹہ باز تھے جو زرمبادلہ کے گرتے ذخائر کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ کر ڈالر خرید رہے تھے کہ مستقبل قریب میں ڈالر 115 روپے کی سطح پر آجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس زرمبادلہ کے ذخائر 7.59 بلین ڈالر سے بڑھ کر 9.37 بلین ڈالر تک پہنچ گئے جو وزیر خزانہ کے مطابق مارچ کے آخر تک 10 بلین ڈالر اور جون 2014ء تک 16 بلین ڈالر تک ہوجائیں گے۔ ڈالر کی قدر میں تقریباً 8 روپے کمی کی وجہ سے ہمارے ایکسپورٹرز خاصے پریشان ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ایکسپورٹ سودے 105 سے 106 روپے کی قدر پر کئے تھے جبکہ آج انہیں ایک ڈالر کے عیوض صرف 98 روپے میں مل رہے ہیں۔ڈالر کی قدر گرنے سے حکمراں طبقے بالخصوص وزیر خزانہ اور عوام میں خوشی کی لہر پائی جاتی ہے کیونکہ ان چند دنوں میں ڈالر کی قدر گرنے سے حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں تقریباً 800 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے لیکن دوسری طرف اشیاء کی امپورٹ ویلیو کم ہونے سے حکومت کو کسٹم ڈیوٹی کی مد میں تقریباً 40 ارب روپے ریونیو کم ملے گا۔ ڈالر کی قدر گرنے سے عوام اس بات سے خوش ہیں کہ اس کے نتیجے میں درآمدی تیل، پیٹرولیم مصنوعات، چائے کی پتی اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدی لاگت میں تقریباً 10% تک کمی آئے گی جس کا فائدہ ایک عام آدمی کو ہوگا۔ ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب نے دوست ملک کی حیثیت سے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ جس کا افتتاح وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 18 فروری کو سعودی ولی عہد اور نائب وزیراعظم سلیمان بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے اختتام پر کیا تھا، میں 1.5 بلین ڈالر منتقل کئے ہیں جبکہ اتنی ہی رقم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مزید دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مارچ کے آخر تک پاکستان کو آئی ایم ایف کے 550 ملین ڈالر کی تیسری قسط بھی موصول ہوگی جبکہ مارچ میں ہی پاکستان کو اسلامی ترقیاتی بینک سے 150 ملین ڈالر اور کولیزن سپورٹ فنڈ کی مد میں 200 ملین ڈالر موصول ہوں گے۔اس کے علاوہ مئی2014ء میں حکومت 500 ملین ڈالر کے یورو بانڈ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت نے پہلے بھی 2 مرتبہ یورو بانڈز جاری کئے تھے جو زیادہ منافع ہونے کی وجہ سے انتہائی کامیاب رہے، حکومت باقاعدگی سے ان بانڈز کے مارک اپ کی ادائیگی کررہی ہے جس کے باعث بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ میں ان کی قیمت مستحکم ہے اور امید کی جارہی ہے کہ نئے یورو بانڈز کا اجراء بھی کامیاب رہے گا۔
میرے خیال میں پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 100 کی سطح کے آس پاس رہنے کی توقع ہے کیونکہ ہفتے کے اختتام تک ڈالر دوبارہ مضبوط ہوکر انٹربینک میں 99.50 کی سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے خریداروں کے دوبارہ آنے سے اس کی قدر 100 تک پہنچ گئی۔ یاد رہے کہ ستمبر 2013ء میں روپے کی قدر 110.50 کی سطح تک پہنچ گئی تھی اور لوگوں کا خیال تھا کہ یہ 2014ء میں 115 تک پہنچ جائے گی تاہم وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر روکنے کے لئے اہم اقدامات کئے جس کے نتیجے میں مارچ کے پہلے ہفتے کے صرف 3دنوں میں انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں2 روپے مستحکم ہوئی اور روپیہ 102.75کی سطح پر آگیا۔ روپے کی گرتی قدر کی وجوہات میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے باعث ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، عازمین حج کیلئے ڈالر کی طلب، ایئر پورٹوں سے روزانہ 25سے 30ملین ڈالر کی اسمگلنگ، تیل کے امپورٹ بلز کی ادائیگی کے لئے بینکوں کا گٹھ جوڑ، ایکسپورٹس رقوم کی ترسیل میں تاخیر اور مارکیٹ میں ڈالرائزیشن پر سٹہ بازی جیسے عوامل شامل تھے لیکن وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کراچی میں بینکوں کے صدور، فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور فیڈریشن میں بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کرکے سخت اقدامات اٹھائے جس سے روپیہ دوبارہ مستحکم ہونا شروع ہوا۔ اسی دوران وزیر خزانہ نے اُن سٹے بازوں جو ملک میں ڈالرائزیشن کو فروغ دے رہے تھے، کو یہ واضح پیغام دیا کہ وہ اپنے جمع شدہ ڈالر مارکیٹ میں فروخت کردیں کیونکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر رواں ماہ کے آخر تک 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے جبکہ 2014ء کے اختتام تک 16 بلین ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈالر 98 کی سطح پر آجائے گا۔ میں وزیر خزانہ اور اُن کی ٹیم کو روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لئے اٹھائے گئے ان بروقت اقدامات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے مطابق حکومت کو رواں ماہ مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے مزید فنڈ ملنے کی توقع ہے جبکہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے 3G اور 4Gلائسنس کی نیلامی کرنے جارہی ہے جس سے ایک بلین ڈالر حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں حکومت اور اتصالات کے مابین پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے معاملے پر پیشرفت ہوئی ہے جس کے تحت ہنگامی بنیادوں پر پی ٹی سی ایل کی بقایا جائیداد خریدار کو منتقل کی جارہی ہے جس سے اتصالات کے ذمہ بقایا 800 ملین ڈالر ملنے کی راہ ہموار ہوجائے گی جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو پاکستان کے اخراجات کی مد میں واجبات کی ادائیگی کرنا ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مزید مستحکم ہوں گے۔ وزیر خزانہ کے مطابق حکومت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے، چین نے پاکستان کے انرجی، انفرااسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں تقریباً 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے کچھ روز قبل دیئے گئے بیان کہ ’’ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 98کی سطح تک آجائے گی‘‘ کو لوگوں نے ایک سیاسی بیان کے طور پر لیا لیکن حکومت کے بیرون ملک جانے والے مسافروں کو غیر ملکی کرنسی لے جانے کی حد 10 ہزار ڈالر سے کم کرکے 5 ہزار ڈالر کرنے اور ایئر پورٹوں پر کرنسی کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنے جیسے اقدامات، ڈالر کی قدر میں مزید کمی کے خوف سے ایکسپورٹ بلز کی رقوم جلد منگوانے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ 14 بلین ڈالر ترسیلات زر بھیجے جانے، 3G/4G، اتصلات، CSF، یورو بانڈز کے اجراء سے حاصل ہونے والے فنڈز اور حکومت کو تیل کے کچھ سپلائرز کی جانب سے آئل امپورٹ بلز کی تاخیر سے ادائیگی کی سہولت کے باعث روپے کی قدر مزید مستحکم ہوگی۔
حال ہی میں اس موضوع پر ہونے والے ایک ٹی وی پروگرام میں پاکستان فارن ایکسچینج ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان ہوتی نے دوران گفتگو مجھے بتایا کہ مارچ کے پہلے ہفتے غیر ملکی کرنسی پاکستانی مارکیٹ میں طلب کے مقابلے میں 90% زیادہ رہی جبکہ مارکیٹ میں ڈالر خریدنے والے کم اور فروخت کرنے والے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق ڈالر کی طلب اور رسد دیکھتے ہوئے رواں ماہ کے آخر تک اوپن مارکیٹ میں ڈالر 100 کی سطح سے کم رہے گا۔ میرے خیال میں اسٹیٹ بینک کی پالیسی بھی یہی نظر آتی ہے کہ روپیہ مستحکم رہے لیکن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر انتہائی کم ہونے کا منفی اثر ملکی ایکسپورٹس پر پڑے گا جس سے ہماری اشیاء بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی ہوسکتی ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ ایکسپورٹرز کو ریلیف دینے کے لئے اُن کے سیلز ٹیکس ریفنڈ جلد از جلد ادا کرے جبکہ ایکسپورٹ ری فنانس کے مارک اپ اور ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج میں کمی کی جائے تاکہ اُن ایکسپورٹرز کو ریلیف مل سکے جو ڈالر کی قدر کم ہونے سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو ڈالر کی قدر کم ہونے کا فائدہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور کھانے پینے کی درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرکے پہنچائے، بصورت دیگر یہ منافع ’’مڈل مین‘‘ کی جیب میں چلا جائے گا۔
تازہ ترین