انسان جب صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ سے کوئی دُعا مانگتا ہے اور اُس سے اپنی کسی ضرورت براری کی التجا کرتا ہے، تو پھر وہ اُس کی وہ ضرورت ضرور پوری کرتا ہے اور یہ قبولیتِ دُعا پروردگار کے وجود کا حسّی ثبوت ہے۔ ہم بے شمار لوگوں کے بارے میں کئی ایسی باتیں سُن رکھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ایسی ایسی دعائیں قبول کیں، جو ناممکنات میں سے تھیں۔
قرآنِ کریم میں اس قسم کے کئی ثبوت مہیّا کیے گئے ہیں، جیساکہ سورۃ الانبیاء، آیات نمبر84,83 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:’’ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو، جب کہ اُس نے اپنے پروردگار کو پُکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تُو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے اُس کی سُن لی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شفا رکھی اور خود باری تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ: ’’اور ہم اُتارتے ہیں قرآن میں سے وہ، جس سے روگ (بیماری) دفع ہوں اور وہ رحمت ہے، مؤمنین کے لیے اور گناہ گاروں کو تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قرآنِ پاک کی آیات سے اپنی بیماریوں کا علاج کیا کرتے تھے، لہٰذا قرآنِ مجید سے شفا حاصل ہونا یا کرنا کوئی قابلِ تعجب امر نہیں۔
جو شخص بھی قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کے ساتھ پڑھے، تو اِن شاء اللہ، باری تعالیٰ اسے شفا عطا فرمائے گا۔ اور اگر خُود نہیں پڑھ سکتے، تو کسی صحیح قرات کرنے والے شخص سے تلاوت کرواکر دَم کروا سکتے ہیں، یا اُس کی تلاوت سُن سکتے ہیں اور اس کے لیے کسی خاص قاری کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ بہرحال، اب اس تمہید کی روشنی میں اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نذرِ قارئین کررہا ہوں۔
یہ آج سے چند ماہ قبل کی بات ہے، جب میری پُرسکون اور بھاگتی دوڑتی زندگی میں جیسے ایک بھونچال سا آگیا۔ مَیں معمول کے مطابق صحت مند زندگی گزار رہا تھا کہ اچانک ہی’’ فیسٹولا‘‘ نامی مرض کا شکار ہوگیا۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو انسانی جسم میں پَس پیدا کرکے اندر ہی اندر پھیلتی چلی جاتی ہے اور اگر وقت پر اس کا آپریشن نہ کروایا جائے، تو یہ سرطان میں بھی بدل سکتی ہے۔ مرض کی تشخیص کے بعد میری تو جیسے دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ آپریشن کا نام سُنتے ہی ایسا لگا، جیسے پھانسی کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہو۔
خیر، قصّہ مختصر، مَیں نے شہر کے بہترین سرجنز اور ڈاکٹر سے رابطہ کیا ۔ ایس آئی یو ٹی (SIUT) کے ایک سینئر ڈاکٹر نے آپریشن سے منع کرتے ہوئے مجھے جو تفصیلات بتائیں، وہ کافی خوف ناک تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’آپ کو کمپلیکس فیسٹولا ہے، اس کا آپریشن کافی پیچیدہ ہوتا ہے، اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپریشن کے بعد ٹانکے بھی نہیں لگاسکتے، جس کی وجہ سے ری کوری میں پانچ سے چھے ماہ لگتے ہیں، اس دوران مریض اپنے زخموں کی وجہ سے انتہائی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے، جب کہ ان زخموں کی ڈریسنگ بھی بذاتِ خود بہت تکلیف دہ امَر ہے۔‘‘
مرض اور اس کے علاج کے ضمن میں ڈاکٹر کے خیالات اور تفصیلات سُن کر میری پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ جو سب سے خطرناک بات تھی، وہ یہ تھی کہ فیسٹولا کا یہ ٹریک میرے اُن غدودسے ہو کر گزر رہا تھا، جو اسٹول، یعنی رفعِ حاجت کو کنٹرول کرتے ہیں، تو بہت حد تک یہ خوف بھی تھا کہ یہ غدود ضائع ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ساری زندگی کی معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔
اس وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے آپریشن کروانے سے منع کر دیا کہ آپ جوان آدمی ہیں، اگر ایسا کچھ ہو گیا، تو آپ کی ساری زندگی برباد ہوجائے گی۔ اپنے گھر کا واحد کفیل ہونے کی وجہ سے اس خبر سے میری اُس وقت کیا کیفیت ہوگی، یہ محتاج ِ بیان نہیں۔ میں شدید ڈیپریشن میں چلا گیا، یہاں تک کہ ایک ہفتے کے اندر میرا دس کلو وزن گر گیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، صورت ِ حال ایسی ہوگئی تھی کہ آگے کھائی اور پیچھے کنواں محسوس ہورہا تھا۔
پھر مَیں نے اس مرض کے ماہر ایک اور ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور مشورہ طلب کیا، تو انہوں نے بھی کم و بیش وہی باتیں بتائیں۔ میں وہاں سے بھی مایوس ہو گیا اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر زندگی کے دن گزارنے لگا۔ علاج کی طرف سے منہ موڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اسی اثناء مجھے ٹراما سینٹر، کراچی کے ایک ڈاکٹر منیر میمن کا پتا چلا، جو اس مرض کے علاج میں خاص مہارت رکھتے تھے۔
مَیں اُن سے ملا،تو چیک اَپ کے بعد بہت محبت سے مجھے دیکھا، دلاسا دیا اور کہاکہ ’’صورتِ حال وہی ہے، جو آپ کو گزشتہ ڈاکٹرز نے بتائی ہے، مگرآپ فوراَ َ آپریشن کروائیں، کیوں کہ آپ جتنی دیر کریں گے، یہ آپریشن مزید مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد میرے پاس سوائے آپریشن کے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مَیں نے ہامی بھرلی اور آپریشن کی تاریخ لے لی۔ اور پھر یہیں سے میری زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔
ایک روزمجھے اپنے ایک دوست کے توسّط سے قرآنِ مجید کی خُوب صُورت ترین سورت، سورئہ رحمٰن کی فضیلت کےحوالے سے معلوم ہواکہ اگر یہ سورت سات دن تک مسلسل سُنی جائے، تو بڑی سے بڑی بیماری سے بھی شفا مل جاتی ہے۔ مَیں نے فوراً سورئہ رحمٰن پرتحقیق شروع کی، تو معلوم ہوا کہ سورئہ رحمٰن سُننے سےبڑی سے لوگوں کو نہ صرف بڑی بیماریوں میں شفاء ملی، بلکہ اُن کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔
مَیں نے چوں کہ ڈاکٹر سے آپریشن کی تاریخ سات دن بعد کی لی ہوئی تھی، لہٰذا اس دوران باقاعدگی سے دن میں3مرتبہ سورئہ رحمٰن سُننا شروع کردی اور سات دن تک باقاعدگی سے سورئہ رحمٰن سُننے کے بعد اللہ پاک سے بس ایک ہی دُعاکی کہ مجھے آپریشن کروانے کی ضرورت نہ پڑے، لیکن اگر تُونے آپریشن ہی سے میری شفاء لکھ دی ہے، تو بس، مجھے معذوری سے بچالے۔ خیر، آپریشن ہوا اور 3 گھنٹے تک چلا۔
آپریشن کے بعد جب ڈاکٹر مجھ سے ملنے آئے، تو انھوں نے میری آنکھوں کا سوال فوراً پڑھ لیا، کیوں کہ وہ میری پریشانی سے اچھی طرح واقف تھے۔ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے جو جواب دیا، وہ میری آنکھوں میں آنسو لانے کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے کہا۔ ’’ایک تو آپ کا آپریشن کام یاب رہا، دوم، وہ غدود، جس سے فیسٹولا کا وہ ٹریک گزر رہا تھا اور جس کے ضائع ہونے سے معذوری کا بھی خوف تھا، ہم نے جب دورانِ سرجری اُسے کھولا، تو فیسٹولا کا ٹریک اپنا راستہ بدل چُکا تھا، یعنی فیسٹولا کا وہ ٹریک اُس غدود سے نہیں گزر رہا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے کہ اس کی وجہ سے آپ کسی بھی قسم کی معذوری سے محفوظ رہے۔‘‘ آپ میری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مجھ پر تو شادئ مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔ ساتھ ساتھ سب سے بڑا احساس یہ تھا کہ مجھ جیسے گناہ گار بھی اس قابل ہیں کہ اُن کی سُنی جائے اور یہ احساس بھی بہت شدّت سے بیدار ہوا کہ ’’ہاں، میں اکیلا نہیں، کوئی میرا بھی ہے۔ ایک ذات ہے، جو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتی ہے اور وہ ہمارا رحمان و رحیم پروردگار ہے۔‘‘ لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد جب میں چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا، تو انہوں نے پھر ایک خوف ناک بات کردی۔ جیسا کہ شروع میں، مَیں نے آپ کو بتایا تھا کہ اس آپریشن کے بعد زخموں کو ٹانکے نہیں لگائے جاتے، جس کے نتیجے میں وہاں دوبارہ پَس پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے، تو آپریشن کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے کہ پس پیدا نہ ہو، لیکن یہ انسان کے بس میں کہاں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ ’’پس پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، لہٰذا آپ اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں کہ ایک اور چھوٹا آپریشن کرکے اسٹول بیگ لگانا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مجھے تین دن بعد آنے کو کہا، لیکن مَیں اُن کے پاس سات دن بعد گیا۔ اس دوران مَیں نے ایک بار پھر متواتر سورئہ رحمٰن سُنی اور اللہ تعالیٰ سے گِڑ گڑا، گِڑگڑا کر صدقِ دل سے التجا کی کہ ’’اللہ پاک! مجھے اس پریشانی سے نجات دلا کر مزید کسی تکلیف اور پریشانی سے بچالے۔‘‘
خیر، سات دن بعد جب ڈاکٹر صاحب نے میرا معائنہ کیا، تو حیران رہ گئے، کہنے لگے، ’’ارے، یہ تو کوئی کرامت ہوگئی، آپ کے زخم سے تو پَس بالکل غائب ہوچکی ہے، کیا کیا ہے آپ نے؟‘‘ وہ اچھے خاصے حیران تھے اور مَیں دل ہی دل میں اپنے ربّ کا شُکر ادا کررہا تھا۔ انہوں نے بالخصوص میری والدہ سے کہا کہ ’’آپ کے بیٹے کا آپریشن نہایت پیچیدہ تھا، لیکن جس طرح سے چیزیں پلٹی ہیں اور جتنی جلدی اُن کے زخم ٹھیک ہوئے ہیں، مَیں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کے بیٹے پر اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص کرم ہے۔‘‘
یہ تو ہوا جسمانی فائدہ، اس کے بعد سورئہ رحمٰن کے جو روحانی فوائد مجھ پر ظاہر ہونے لگے وہ یہ کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حقّانیت اور وحدانیت کے حوالے سے ایک الگ قسم کا یقین پیدا ہوگیا، اب چھوٹی سی چھوٹی یا بڑی سے بڑی ہر قسم کی پریشانی میں آنکھیں بند کرکے دل میں تین بار اسم اللہ کے بعد سورئہ رحمٰن پڑھ کر اور سُن کر اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا مانگتا ہوں، تو یقین جانیے، میری دُعا قبول ہوجاتی ہے۔
اور ہاں، اب مَیں آپ کو سورئہ رحمٰن سُننے کا طریقہ بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ مجھے ایک بزرگ صفدر شاہ بخاریؒ کے روحانی وارث، سیّد شاکر عزیز کے توسّط سے معلوم ہوا۔ سیّد شاکر عزیز نے عوام النّاس کی آسانی کے لیے ایک ویب سائٹ (www.alrehman.com) بھی بنا رکھی ہے، جس پر سورئہ رحمٰن کی آڈیو قاری عبدالباسط کی آواز میں موجود ہے۔ سورئہ رحمٰن سُننے کاطریقہ یہ ہے کہ کسی بڑی اور جان لیوا بیماری کے شکار افراد دن میں3مرتبہ7دن تک متواتر سُنیں، یعنی 21مرتبہ۔ معمولی بیماری کے شکار افراد، دن میں2مرتبہ، یعنی ہفتے میں14مرتبہ۔
جب کہ تن درست افراد دن میں ایک مرتبہ روزانہ توجّہ کے ساتھ ضرور سُنیں، اس کی سماعت سے اللہ تعالیٰ آپ کو یقیناً شفا دے گا۔ یوں بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اس بات پر مکمل ایمان ہونا چاہیے کہ سورئہ رحمٰن کو دل سے پڑھنا اور سُننا امن و سکون کا باعث ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔ (سہیل رضا تبسّم، شمسی سوسائٹی، کراچی)
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کاربرائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘
٭باہمّت لوگ (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی غربی، بہاول نگر) ٭بیس برس پرانا سچّا واقعہ (عاجز داد فریادی ابنِ غلام نبی، سبّی روڈ، کوئٹہ) ٭واقعہ ذہن میں محفوظ ہے (امِّ زین، سرگودھا) ٭ندامت کے آنسو (والدہ عمار احسن، واہ کینٹ) ٭ہر طرف سکّوں کے نشان +قبر کی کھدائی کے بعد (رائو حاجی منظور احمد خان، اوکاڑہ)٭ 1958ء کا واقعہ (ملک محمد نواز تھیہم، سرگودھا)۔
برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭ضلع مظفر گڑھ کا گم نام تفریحی مقام (نعیم احمد ناز، اوچ شریف)٭ دو طوطوں کی آپ بیتی (نام و مقام نہیں لکھا)٭ نورمحل، بہاول پور (دانیال حسن چغتائی،کہروڑ پکا ،لیّہ)۔