میں بڑی مشکل سے اسپتال کی انتظامیہ سے اجازت لیکر کمرے کے باہر کھڑا اندرکا منظر دیکھ رہا تھا جہاں ملک نور اعوان ایک بار پھر اپنے دل کی انجیو گرافی کرانے کے بعد آرام پذیر تھے ، ان کے چہرے پر آکسیجن ماسک موجود تھا جو شاید ان کی طبیعت کی خرابی کے تحت لگایا گیا تھا جبکہ ان کے ہاتھوں پر کئی سوئیاں نصب تھیں ، وہ چھ ماہ بعد پاکستان سے واپس پہنچے تھے اور آتے ہی انھیں دل میں تکلیف محسوس ہوئی تھی، علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹروں نے انھیں دل کی انجیو گرافی کرانے کے لیے اسپتال میں داخل کرلیا ۔ کمرے کے باہر ان کی جاپانی اہلیہ اپنے چھ بچوں کے ساتھ موجود تھیں ، سب ان کی صحت کے حوالے سے پریشان نظر آرہے تھے ، جبکہ میرے ساتھ ملک نور اعوان کے رفیق خاص ملک یونس بھی موجود تھے جو ملک صاحب کی تشویشناک حالت کا سن کر میرے ساتھ ہی اسپتال پہنچے تھے۔
اچانک میری نظر ملک صاحب کی جاپانی اہلیہ پر پڑی ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہےتھے یہی حال ان کے بچوں کا بھی تھا ، حقیقت تو یہ ہے کہ جاپانی قوم بہت صابر قوم ہے ،یہ لوگ بہت بڑے صدمے بھی صبر کے ساتھ سہہ جاتے ہیں لیکن میاں بیوی اور اولاد کی ماں باپ سے محبت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی کشش رکھی ہے کہ بعض دفعہ صبر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
دریں اثنا ملک نور اعوان ہوش میں آچکے تھے اوروہ بھی اپنی اہلیہ اور بچوں کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے تھے ۔ میں ملک نور اعوان کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھائو میں گم ہوچکا تھا ، ویسے تو وہ گزشتہ تیس سال سے میاں نواز شریف کی محبت میں مبتلا ہیں ، لیکن انھیں شہرت دوہزار سترہ میں پارلیمنٹ کے باہر شیخ رشید احمدکا گریبان پکڑ کر اپنے بائیس لاکھ روپے طلب کرنے پر ملی تھی ،حقیقت تو یہ تھی کہ ان دنوں شیخ رشید احمد سیاسی طور پر میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے سخت خلاف تھے اور ان کے سخت بیانات سے پوری ن لیگ کو تکلیف پہنچ رہی تھی لیکن کوئی شیخ رشید کی شعلے اگلتی ہوئی زبان کے سامنے بند باندھنے کو تیار نہ تھا ۔ ملک نور اعوان بنیادی طور پر شریف النفس انسان ہیں اور شاید بائیس لاکھ تو کیا وہ دیئے ہوئے بائیس کروڑ بھی واپس لینے کے روا دار نہ ہوتے لیکن شیخ رشید کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا اصل مقصد انکو متنازع بنانا اور نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیانات رکوانا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے لیکن اس واقعے کے بعد کسی نے گلو بٹ کا خطاب دیا تو کسی نے سیاسی بدمعاش کا لقب دیا ، حتی ٰ نے ن لیگ کی حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور اس وقت کے ن لیگ کے ہی اسپیکر سردار ایاز صادق نے ملک نور کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرادیا ، انھیں جیل میں ڈالا گیا ، اور وہ کئی سال تک کروڑوں روپے خرچ کرکے عدالت سے اپنے خلاف مقدمہ جیت کر واپس جاپان پہنچے ، صرف اتنا ہی نہیں وہ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد ان کے ساتھ ہی جہاز میں پاکستان پہنچے تو نواز شریف کے حق میں نعرے بلند کرنے کی پاداش میں انھیں لاپتہ کردیا گیا اور مردہ سمجھ کر پاک بھارت کے سرحدی علاقے میں پھینک دیا گیا ،لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں وہاں بھی بچالیا ، میاں نواز شریف بھی انھیں بہت پسند کرتے ہیں اور کئی دفعہ ان کی قربانیوں کا اعتراف بھی کرچکے ہیں ، شاید ملک صاحب اپنی قربانیو ں کے صلے میں کچھ زیادہ ہی توقعات لگائے بیٹھے تھے ، دوہزار اٹھارہ میں انھوں نے اپنے آبائی حلقے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا تو حمزہ شہباز صاحب نے انھیں اپنے دفتر بلا کر اس حلقے کا ٹکٹ دینے سے معذرت کرلی اور ملک صاحب اپنی قیادت کے سامنے سر تسلیم خم کرکے واپس جاپان آگئے ۔اس دفعہ دوہزار چوبیس کے عام انتخابات میں دوبارہ ٹکٹ کے حصول کیلئے چھ ماہ قبل وہ پاکستان گئے ، پارٹی کیلئے مہم میں حصہ لیا ، اپنے لیے ایک بار پھر ٹکٹ اپلائی کیا اور اس دفعہ ٹکٹ کے حصول کیلئے پارٹی انٹر ویو میں میاں نواز شریف نے ملک نور اعوان کو اپنا اور پارٹی کا قیمتی اثاثہ بھی قرار دیا لیکن ٹکٹ ایک بار پھر کسی اورکے حصے میں آیا۔ اسی دوران ان کے بڑے بھائی ملک مہر اعوان اچانک وفات پاگئے اور ملک نور اعوان ٹوٹ کر رہ گئے ،چھ ماہ بعد وہ جاپان واپس آئے تو دل کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے اور آج میرے سامنے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں ایک سیاسی کارکن کا یہی انجام ہوتا ہے کبھی اسے گلو بٹ بننا پڑتا ہے تو کبھی جیل کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ، کبھی قیادت کی دھتکار دیکھنا پڑتی ہے تو کبھی دل کا مریض بننا پڑتا ہے ایک عام کارکن کیلئے پارٹی کے پاس اس سے زیادہ دینے کو کچھ نہیں ہوتا ، ابھی میں سوچوں میں گم ہی تھا کہ ملک یونس نے میرے کاندھوں پر دبائو بڑھاتے ہوئے کہا عرفان بھائی چلیں ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے ۔میں ملک صاحب کی صحت کی بہتری اور طویل عمر کی دعا کرتے ہوئے اسپتال سے نکل آیا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)