• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: سید علی جیلانی…سوئٹزر لینڈ

اگرہم کبھی سوچیں کہ عبدیت کیا چیز ہوتی ہے ، رب کی بندگی کس کو کہتے ہیں ، جب بندہ اپنے خالق و مالک سے بندگی کا عہد کرتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے ، عید الاضحی کا دن بتا تا ہے کہ رب ِ کائنات کے حکم کی تعمیل کس طرح کی جاتی ہے قربانی ، قربان ، قربت اور قرب تمام مترادف الفاظ ہیں جس کا مطلب ہے کسی کے نزدیک ہونے کی کوشش کسی کو راضی کرنا اور کسی کی توجہ چاہنا کوئی ایسی عبادت الفاظ یا کام کرنا جن سے کسی کی توجہ حاصل کی جا سکے یا کسی کے قریب ہوا جا سکے جس دن سے حضرت انسان کرہ ارض پر آباد ہوا ہے اسی دن سے یہی قربانی کا تصور بھی ملتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر ملتا ہے، فلسفہ قربانی اللہ تعالی کی رضا اور حصول تقوی ہے فرمان باری تعالی ہے اللہ کی بارگاہ میں قربانی کے جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے یعنی اللہ تعالی کی عنایات پر اظہار تشکر کے طور پر اپنے حلال مال میں سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے اللہ کی راہ میں قربانی کرنا اسلام میں حرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ماہِ مبارکہ ذی الحجہ کا بھی ہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہر قلب میں اس عظیم و الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال تاریخ انسانی آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے بے شک یہ ماہِ مبارکہ اصل میں اس جلیل و قدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کی یادگار ہے جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثا ل تصور تھی جب حضرت اسمعیلؑ سن بلوغت کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے آ پؑ کی قربانی طلب فرمائی تین دن مسلسل خواب آتے رہے تیسری صبح آپ نے حضر ت ہاجرہؑ سے کہا کہ میں اور بیٹا اسماعیلؑ ایک دعوت میں جا رہے ہیں لہٰذا آپ اسے تیار کردیں حضرت ہاجرہؑ نے حضرت اسمعیلؑ کو بہت اچھا لباس پہنایا اور تیار کردیا آپ نے چھری اور رسی لی جنگل کی طرف چل دئیے۔ایک پہاڑ کے قریب لے جا کر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسمعیلؑ سے کہا ”اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو ں بتا تیری کیا مرضی ہے سعادت مند بیٹے نے جواب دیا اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے بلا خوف ِخطر پورا فرمائیے مجھے آپ انشاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر ابلیس نے کوشش شروع کی کہ حضرت ابراہیمؑ کو کہنے لگا کہ آپ کیا غضب کررہے ہیں خواب کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے، اے ملعون مجھ پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا میرا خواب شیطانی نہیں رحمانی ہے نبی کا خواب وحی ِ الہی ہوتا ہے میں اللہ کے حکم سے ہر گز منہ نہیں موڑوں گا شیطان نے ہر طرف سے مایوس ہو کر سر پیٹ لیا ہائے اب کیا ہوگا،تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم ِ فلک نے نہیں دیکھا ہوگا تیز چھری حضرت اسمعیل کے گلے پر پہنچ کر کند ہوگئی دو مرتبہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم نے اسے ایک پتھر پر دے مارا پتھر کو چھری نے دو ٹکڑے کر دئیے ابراہیم نے چھری سے کہا تو نے پتھر جیسی سخت چیز کودو ٹکڑ کردئیے لیکن اسمعیل کا گلا ریشم سے بھی نرم تھا چھری نے کہا ترجمہ ” خلیل اللہ کہتا ہے کاٹ مگر جلیل کہتا ہے خبرداد جواسمعیل کا بال بھی بیکا کیا جب خلیل اللہ خود جلیل اللہ کا حکم مان کر لٹائے بیٹھا ہے تو میں کیسے انکار کر سکتی ہوں ابراہیم نے فرمایا کہ میں قربان کرنے کے لئے اور میرا بیٹا قربان ہونے کے لئے تیار ہے تو توکیوں توکاوٹ بنتی ہے ابراہیم نے پھر چھری اٹھائی چھری حضرت اسمعیل کی گردن پر پہنچنے سے پہلے حضرت جبرائیل ایک مینڈھا لے آئے اس کو نیچے رکھ دیا اور حضرت اسمعیل کو اٹھا لیا مینڈھا ذبح ہوگیا تو آواز آئی ترجمہ ”اور ہم نے پکارا اے ابراہیم ! تو نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں ، بیشک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اسے بعد والوں میں باقی رکھا ”ابراہیم کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اسے قیامت تک باقی رکھا حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور بے شک اس کا خون زمین سے گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتا ہے بس دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کیا کرو ”صحابہ کرام نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺیہ قربانی کیا شے ہے تو پیارے محمد مصطفی نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے با پ حضرت ابراہیم کی سنت ہے ” اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا ” یا رسول اللہ تو اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا ” تاجدار مدینہ سکونِ قلب و سینہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا ”ہر بال کے عوض ایک نیکی،جانور کی قربانی اللہ کی فرمانبر داری کے سبق کاپریکٹیکل ہوتا ہے جس کے بعدسے اللہ رب العزت کی فرما برداری مزید احساس ہوتا ہے کہ حکم الٰہی پر صرف ایک جانور کی قربانی ہی نہیں بلکہ ہمیں ساری زندگی میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے مال واسباب ، تن من ، اولادغرض یہ کے ہر اُس خواہش اور حسرت کی قربانی دینی ہے جس سے ہمارا رب راضی ہو جائے۔

یورپ سے سے مزید