اس عید کو بہترین ، یادگار اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تواِن مشوروں پر کان بند کرکے عمل کریں اور موجیں کریں۔پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ اتنی شدید گرمی میں عید کے دن ٹینکی والے پانی سے ہرگز نہ نہائیں۔ میرے محلہ دار حاجی یونس نے پچھلی عید پر یہ غلطی کرلی تھی اور کمر پر سوا انچ کے سینتالیس پھوڑے نکل آئے تھے۔بہتر طریقہ یہ ہے کہ بالٹیاں اور ٹب رات کو بھر لیںاور صبح ٹھنڈے ٹھار پانی کا مزا لیں۔اکثر لوگوں کو صبح عید کی نماز کے وقت اٹھنے میں دیر ہوجاتی ہے۔بندہ اُٹھ بھی جائے تو نیند کا خمار ختم نہیں ہوتا، سستی چھائی رہتی ہے۔ اس کا بہترین حل ہے کہ موبائل میں الارم لگانے کی بجائے ڈور بیل کی تار نکال کر رات کو اپنے بازو سے لپیٹ لیں۔ انشاء اللہ صبح پہلی بیل کے ساتھ ہی پورا وجود اگلے پچیس دن کیلئے ہشاش بشاش ہوجائے گا۔اکثر لوگ عید کی نماز کیلئے جاتے وقت گھر سے جائے نماز یا کوئی چادر لے جانا بھول جاتے ہیں۔ اس کا بھی بہترین حل موجود ہے۔ کپڑوں کی الماری کے اندر چادر کچھ اس طرح سے رکھ دیں کہ صبح جیسے ہی آپ عید کے کپڑے پہننے کیلئے الماری کھولیں، چادرآپ کے سر پر آن گرے۔اکثر بیگمات عید کے دن صبح سوئی ہوتی ہیں ، گویا عید کی نماز صرف مردوں پر ہی فرض ہے۔اسی لیے خواتین عید کے روز زیادہ ایکٹو نظر آتی ہیں اور مرد اس قدر نقاہت کا شکار ہوتے ہیں کہ کئی تو ناشتہ کرتے کرتے سو جاتے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ جب آپ نماز پڑھنے جائیں تو بیگم کو بالکل بھی سکون سے نہ سونے دیں، ایک کاغذ پر لکھ کر باہر گیٹ پر لگا دیں کہ ’ڈوربیل بجائیں اور عیدی حاصل کریں ‘۔ اس کے بعد آرام سے بچوں کے ہمراہ عید گاہ روانہ ہوجائیں۔واپسی پر آپ کو بیگم مکمل طور پر بیدار ملیں گی۔تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ واپسی پر بیل دیتے وقت تھوڑا سا دور ہٹ جائیں ورنہ اوپر سے آنے والی کوئی اینٹ آپ کا سربھی پھاڑ سکتی ہے۔نیز جب آپ گھر پہنچ جائیں تو اب کی بار اُلٹا کام کریں۔ ڈور بیل کے بٹن کی تار نکال دیںاور گھر میں سب کو آگاہ کردیں کہ اگر کوئی چیخ وغیرہ سنائی دے تو اگنور کریں۔خواتین کو اکثر عید کے روز بھی جھلستے ہوئے کچن میں کھانا بنانا پڑتا ہے۔ ان کیلئے بھی مشورہ حاضر ہے۔ اگر شوہر صاحب کھانے کی فرمائش کریں تو بالکل انکار نہ کریں۔ البتہ تنور سے چھ مدری روٹیاں لانےکیلئے کہہ دیں۔آپ دیکھئے گا کہ یہ سنتے ہی شوہر صاحب مائنس اٹھارہ سیکنڈ میں کیسے آن لائن آرڈر پر آمادہ ہوتے ہیں۔اکثر عید کے روز شوہر یا بیوی کے بہن بھائی گھر آتے ہیں۔دونوں فریق چاہتے ہیں کہ ان کے سسرال کا کوئی بندہ گھر میں نہ آئے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ شوہر ہیں تو بیوی کی بات مان لیں اور اگر بیوی ہیں تو اپنی بات منوائیں۔عید پر اکثر بچے ضد کرتے ہیں کہ سیر و تفریح کیلئے کہیں باہر نکلا جائے۔ ظاہری بات ہے 45 درجہ حرارت میںجو باہر نکلے گااُس نے وہیں پگھل جانا ہے لیکن بچوں کو بھی راضی رکھنا ضروری ہے ۔ ایسی صورتحال میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ بیگم سے بلاوجہ لڑائی کرلیں اور اونچا اونچا بولنا شروع کر دیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے مواقعوں پر بچے نہ صرف سہم جاتے ہیں بلکہ اگلے تین چار گھنٹے تک کوئی فرمائش بھی نہیں کرتے۔ آرام سے پرانی نیکر بنیان پہن کر سکون سے سوجائیں۔گھر میں ائیرکنڈیشنرموجود ہے تو اسے 16 پر کرلیں۔ نہیں ہے تو پھر نہ کریں۔شام ہوتے ہی آپ کی خودبخود آنکھ بھی کھل جائے گی اورطبیعت میں بھی سرور سا محسوس کریں گے۔ موسم بہتر ہوچکا ہوگا لہٰذا سب سے پہلے ناراض بیوی کو منائیں۔ عموماً بیویاں زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہتیں۔ظاہری بات ہے یہ غلط پٹیاں بھی اُن کی مائیں ہی پڑھاتی ہوں گی۔بیوی کومنانے کے بعد بچوں کو ساتھ لیں اور کوشش کریںکہ ساری تفریح موٹر سائیکل یا گاڑی پر ہی ہوجائے یعنی سڑک کنارے رک کر ہی آئس کریم کھا لی جائے، کسی کھوکھے پر ٹھنڈی بوتل پی لی جائے یادو پلیٹ دہی بڑے اور چار چمچ منگوا کر وہیں بھوجن کرلیا جائے۔اگر آپ نے کسی تفریح گاہ میں جانے کا سوچا تو یاد رہے آپ نےایک قدم بھی اندر رکھا تو چار گھنٹے تک واپس نہیں آسکیں گے۔ براہ کرم اگر آپ کسی ایسی جگہ جائیںجہاں بچوںکیلئے جھولے وغیرہ لگے ہوں تو بچوں کی حفاظت کے نام پر خود جھولے لینے سے گریز کریں۔ پچھلی دفعہ ایک بھاری بھرکم صاحب اسی شوق میں اپنے بچے کو اٹھائے آسمانی پنگھوڑے میں سوار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد پنگھوڑا گھومنے سے انکاری ہوگیا۔ ظاہری بات جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔پنگھوڑا بھی آخر انسان ہے۔
عیدکا دوسرا یا تیسرادن عموماً شوہر حضرات اپنے دوستوں میں گزارتے ہیں۔ دھیان رہے کہ اس بات کی بیگم کو بھنک نہ پڑے۔ میرے ایک جاننے والے اس فن میں مشاق ہیںوہ دوستوں میں جانے کا یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ بیگم کو غصہ دلاتے ہیں اور جب وہ غصے میں آجاتی ہیں تو یہ بھی غصے سے باہر نکل جاتے ہیں۔موصوف اس مقصد کیلئے زیادہ الفاظ کی فضول خرچی پر یقین نہیں رکھتے ، بس ایک ہی لفظ پر بھروسہ کرتے ہیں’جاہل‘۔ اس کے بعدخودبخود بمباری شروع ہوجاتی ہے۔ آپ ایسا کوئی لفظ بولنے کی بجائے مناسب طریقے سے لڑائی شروع کریں، مثلا بیگم سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’تمہارے بھائی کا فون آیا تھا میں نے کاٹ دیا‘۔ اتنا ہی کافی ہے۔ معاملہ بگڑے تو ہمیشہ کی طرح بیگم کو منانے کی کوشش کریں، نہ مانے تو مزید منائیں۔ پھر بھی نہ مانے توفوری طور پر زور سے دروازہ بند کرتے ہوئے غصے میں گھر سے باہر نکل جائیں تاہم دھیان رہے کہ اس دوران آپ کے چہرے کی خوشی ہرگزعیاں نہیں ہونی چاہئے۔