• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نایاب سوچ پائی جاتی ہے۔ سننے میں آیا ہےکہ حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے 65 تک لے جانا چاہتی ہے تاکہ آنے والےبرسوں میں لوگوں کو ریٹائرمنٹ پر گریجوئٹی وغیرہ کی مد میں فی کس لاکھوں، کروڑوں روپے نہ دینا پڑیں اور نہ ہی ماہانہ پنشن میں اضافہ ہو۔ یہ تو سیاسی سوچ ہےجیسے 70 سال کے ہمارے سیاست دان خود تو ریٹائر نہیں ہو رہے پر چاہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو 65کر دیا جائے تاکہ اگلے چند سال میں کوئی ریٹائر ہی نہ ہو۔ آج کل میڈیا اور ہرشعبہ زندگی کی طرف سے چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ کو بھی کچھ سال آگے لے کر جانے کی باتیں ہورہی ہیں اور ساتھ ہی میڈیا میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں پانچ سال کی توسیع کی تجویز بھی زیر بحث ہے، اور جواز یہ پیش کیا جا رہا کہ حکومت تجربہ کار ہاتھوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہےتاکہ تجربہ کار لوگ گھر پر فارغ نہ بیٹھیں اور قوم کی ترقی میں ہاتھ بٹاتے رہیں۔ اب کون ان پالیسی سازوں کو سمجھائے کہ انسان پاکستان میں 60سال تو کیا 50 کے بعد بھی کام کے لائق نہیں رہتا، کیوں کہ ہمارے ہاں جس طرح کی غذا اور پانی ملتا ہے اس سے ہمارے جسم میں بچپن سے ہی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کوپینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے بچے بیمار رہتے ہیں اور طرح طرح کی ویکسین لگوانے کے باوجود وہ بیماریوں کا شکار رہتے ہیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر بیماریوں کا تعلق ہمارے پینے کے پانی سے ہے۔ جس کی وجہ سے 40سال کا شخص بھی بوڑھا نظر آتا ہے اور ہم 60 سال سے اوپر والے کو چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کا کام کرے۔ سائنس دانوں، دانشوروں، مفکرین اور فلسفیوں نے طویل عرصے تک بہت زیادہ تحقیق کے بعد عمر سے وابستہ انسانی پیداوار کے پیرا میٹرز کے حوالے سے ایک طرح کا اتفاق رائے پیدا کیا۔ مثال کے طور پر، اسکول کی عمر چھ سال، جوانی18 سے 30سال کے درمیان، انحطاط 35سال سے شروع ہوتا ہے، اور پھر انسان کی ذہانت 60سال کی عمر میں کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مغرب میں، حالیہ برسوں میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال تک بڑھا دی گئی ہے، کیونکہ آبادی میں اضافہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اور بعض صورتوں میں، یہ منفی بھی ہے۔ ان ممالک کو عمر رسیدہ آبادی کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں، آبادی میں سالانہ اضافہ تقریباً 2 فیصد ہو رہا ہے۔ 18سے 35سال کے نوجوان کم و بیش 60سے 70فیصد ہیں۔ ہر سال نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جب ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ہو جائےگاتو نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ جب لوگ ریٹائر ہی نہیں ہوں گے تو نئی نوکریوں کے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے؟ درحقیقت، میرے جیسے بزرگ شہری، جو پہلے ہی اپنی اننگز کھیل چکے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کیلئے راستہ بنانا چاہیے۔ اس طرح فطرت نے ایک نظام بنایا ہے جس کے بیچ ہمیں حائل نہیں ہونا چاہیے کہ بڑھاپا ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہم اقتدار اور طاقت کی منتقلی میں تاخیر کیوں کریں؟ اسی طرح، متوقع عمر کے لحاظ سے بہتری کا مطلب یہ نہیں کہ نوجوانوں کیلئےگول پوسٹ کو ان کی پہنچ سے باہر لے جایا جائے، جبکہ پہلے سے مراعات یافتہ افراد کو ایکسٹینشن سروس کے ذریعے بونس ملتا رہے۔ جہاں تک تجربے کا تعلق ہے، مصنوعی ذہانت، ٹیکنالوجی اور تیز رفتار ڈیجیٹل تبدیلی کے اس دور میں، نوجوان ماہر زیادہ ہیں اور مسلسل اعلیٰ مہارت سے واقف ہو رہے ہیں، تجربہ بہرحال ایک ثانوی کردار ادا کرتا ہے۔ آج کے دور میں نوجوان جن بلندیوں کو چھو رہے وہاں ہم نہیں پہنچ سکتے، ہمیں ریٹائرمنٹ کی 60سالہ پابندی پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے کہ جب جس کا دل چاہے وہ ریٹائرمنٹ لے لے۔ اس سے نئے لوگوں کو موقع ملےگا۔ دوسری طرف ہمیں پنشن کا نظام بھی بہتر کرنا ہو گا۔ یہ قوم موجودہ پنشن نظام کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو پنشن فنڈ بنانا ہو گا جس میں ہر ماہ تنخواہ سے پیسہ منتقل ہوتا رہے اور ریٹائرمنٹ پر اس فنڈ سے یکمشت آپ کو تمام جمع کی گئی رقم بطور پنشن مل جائے۔ اسکے ساتھ ہمیں نوجوانوں کیلئے پارلیمان کو بھی خالی کرنا ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان ہی اس ملک کا مستقبل ہیں، دیگر جماعتوں کو بھی قیادت نوجوانوں کے حوالے کر دینی چاہئے۔

تازہ ترین