حج 2024 ءختم ہوا لیکن ان مصائب و مسائل کے قصے رفتہ رفتہ سامنے آرہے ہیں جن کا دنیا بھر کے تقریباً 18 لاکھ حاجیوں میں سے بیش تر کو سامنا کرنا پڑا۔ماضی میں شیاطین کو کنکریاں مارنے کے موقع پر بھگدڑ مچ جانے کی خبریں سامنے آیا کرتی تھیں جن میں بے شمار حجاج کرام کے جاں بحق ہونے کا ذکر بھیگے ہوئے لفظوں سے کیا گیا ہوتا تھا۔سعودی حکومت نے بھگدڑ مچنے کے واقعات پر غور و خوض کیا تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جانے اور آنے کے راستے الگ کر دیے۔جس راستے سے حجاج کرام جمرات پہنچتے ہیں،اب اسے واپسی کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔انھیں واپس دوسرے راستے سے آنا پڑتا ہے۔اس سے بھگدڑ مچنے کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن حجاج کرام کے لیے منیٰ تک کا فاصلہ بڑھ گیا۔جوانوں کے لیے یہ فاصلہ بے معنی سہی لیکن بزرگوں، ضعیفوں، بیماروں اور خواتین کے لیے بہت مشکل پیدا ہو گئی ہے۔یہ لوگ موسم کی شدت اور سورج کی حدت برداشت نہیں کر پاتے۔سو مضمحل ہو کر کسی نہ کسی جگہ گر جاتے ہیں۔سعودی شرطے انھیں بے رحمی سے اٹھاتے ہیں اور چلتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔شاید اسی عمل کا نتیجہ نکلا ہے کہ اس برس جمرات کی طرف جاتے اور ادھر سے واپس آتے ہوئے مختلف ملکوں کے تقریباً 577 حجاج کرام جاں بحق ہو گئے۔یہ تعداد میڈیا نے رپورٹ کی ہے۔ممکن ہے کہ یہ تعداد درست نہ ہو۔جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس سے کچھ کم ہو لیکن ہم نے سوشل میڈیا پر اس بار منیٰ اور جمرات کے درمیانی راستے کی جتنی وڈیوز دیکھی ہیں ان سے تو لگتا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد شاید اس سے کہیں زیادہ ہو جو رپورٹ کی جا رہی ہے۔سنا ہے کہ جاں بحق ہونے والے حاجیوں کی میتیں گھنٹوں دھوپ میں پڑی رہیں اور ان کے متعلقین بھی51 سینٹی گریڈ کی گرمی کے باوجود ان کے آس پاس بیٹھے رہے۔ ایسے سانحے کا کسی کو علم تو تھا نہیں لہٰذاسعودی حکومت نے کوئی ایسا بندوبست نہیں کر رکھا کہ جاں بحق ہونے والوں کی میتیں جلد از جلد ان کے ملکوں میں پہنچ سکیں۔ اس سال گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والے حاجیوں کا تعلق مصر، اردن، تیونس، انڈونیشیا، ایران اور سینیگال سے بتایا جاتا ہے۔ مصر کے 323، اردن 60، تیونس کے 35، انڈونیشیا کے 144، ایران کے11اور سینیگال کے3 حاجی جاں بحق ہوئے۔ گرمی ایک قدرتی امر ہے، سعودی حکومت گرمی کے توڑ کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کرتی بھی ہے لیکن جہاں ہر طرف کنکریٹ کا سمندر ہو وہاں یہ اقدامات حجاج کرام کو کوئی ریلیف نہیں دے پاتے۔ پچھلے سال بھی گرمی سے تقریباً 240حاجی جاں بحق ہوئے تھے۔ اس برس یہ تعداد بڑھی ہے۔ اگر اب بھی سعودی حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے تو اگلے برس یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
یہاں میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ حج دراصل ہے ہی مشقت کا نام اور یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مالی اور جسمانی استطاعت رکھتا ہے۔ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ ساری عمر حج کے لیے رقم جمع کرتے ہیں۔ جب رقم جمع ہوتی ہے تو ان کے قویٰ مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کمزوری اور ضعیفی ان کے ذوق و شوق کو کم نہیں ہونے دیتی۔ بعضے بزرگوں کو تو ان کی اولاد کا ساتھ میسر ہوتا ہے۔وہ اپنے ماں باپ کا ہر موقع پر خیال رکھتے ہیں لیکن جو بزرگ تن تنہا حج کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں ان میں سے بہت سوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو اس بار منیٰ اور جمرات کے راستے میں ہوا۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟ منیٰ سے جمرات کا سارا راستہ کنکریٹ کا بنا ہوا ہے۔درخت یہاں لگائے نہیں جا سکتے۔ سارے راستے میں سائبان لگائے جا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجو دزیادہ فاصلے کے سبب بزرگوں، ضعیفوں، عورتوں اور بچوں کے مصائب رک نہیں سکیں گے۔ منیٰ سے جمرات کا راستہ دو طرفہ ہے۔ خاصا کشادہ بھی ہے۔ سعودی حکومت اگر تین دن کے لیے اس دو طرفہ راستے پر ٹرام چلا دے تو یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہو سکتا ہے۔ ٹرام کے ذریعے سے فاصلہ کم وقت میں طے ہو گا۔ یوں موسم کی شدت اور حدت سے حجاج کرام متاثر ہونے سے بچ جائیں گے۔ سعودی حکومت کے لیے ٹرام چلانا کوئی مشکل کام نہیں۔ سعودی حکومت ویسے بھی اب سیاحت کی سرگرمیوں پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ یہ ٹرام حج کے بعد بھی چلتی رہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ دوسرے مسلم ملکوں سے آنے والے سیاح بھی مستفید ہو سکیں گے اور حکومت کو آمدن بھی ہوتی رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سعودی حکومت تمام ملکوں کی فضائی کمپنیوں سے ایک معاہدہ کرے جس کے تحت وہ جاں بحق ہونے والے حجاج کی میتیں بھی ان کے ملکوں میں واپس پہنچانے کی پابند ہوں۔