• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلی کے موڑ پہ بڑے لڑکوں کے ایک جھرمٹ میں ایک لڑکا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ ’’ٹیم بکائو ہے، ٹیم بکائو ہے، ہے کوئی خریدنے والا‘‘۔ میں نے گزرتے ہوئے پوچھ لیا ’’کونسی ٹیم بکائو ہے‘‘۔ کہنے لگا ’’ایسی ٹیم جس کی کوئی مثال ہی نہیں۔ ہر کھلاڑی رستم زماں ہے، وسیم اکرم اور شین وارن ان کے سامنے کیا ہیں، گنگولی تو ان کے آگے پائوں پائوں چلتا ہے۔ ٹیم میں ایسے ایسے بلے باز موجود ہیں جو ایک اوور میں چھ چھکے لگا سکتے ہیں اور بولر چاہیں تو ایک اوور میں آدھی ٹیم کو آوٹ کر دیں‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’ہے کہاں یہ ٹیم، کھلاڑیوں کی شکل تو دکھائو‘‘۔ کہنے لگا ’’بس ابھی امریکہ سے واپس آنے والی ہے اور میں ہنس پڑا، میں نے کہا۔ ’’اچھا تو تم یہاں بیٹھ کر قومی ٹیم فروخت کر رہے ہو، ناٹ گڈ‘‘۔ وہ بڑی سنجیدگی سے بولا ’’کہتے ہیں جو چیز خراب ہو جائے اسے بیچ دینا چاہئے، جیسے انتظامی خرابی کے سبب پی آئی اے بیچی جا رہی ہے، جیسے خسارے کی وجہ سے سٹیل مل کی بولی لگنے والی ہے۔ اپنی قومی ٹیم بھی انہی اداروں جیسی ہو چکی ہے، اسے بھی فروخت کر دینا چاہئے۔ بڑے اچھے پیسے دے جائے گی۔ بابر اور عامر کی بولی تو کروڑوں تک جا سکتی ہے۔ میں نے کہا ’’ینگ مین ٹیمیں نہیں بکا کرتیں۔ وہ ملک کی پہچان ہوتی ہیں‘‘۔ بولا، ’’حیرت کی بات ہے، دریا بک سکتے ہیں، پرندے اور ہوائیں فروخت ہو سکتی ہیں، ٹیم کیوں نہیں بک سکتی۔ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کونسا دریا‘‘۔ کہنے لگا ’’جنرل ایوب نے بھارت کو دریا نہیں بیچ دئیے تھے، ہماری ٹیم کو بھی بھارت بڑے شوق سے خریدے گا بلکہ بالی ووڈ کے اداکار ہی پوری ٹیم لے لیں گے‘‘۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھاکہ امریکہ میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ نوجوانوں سےبرداشت نہیں ہو پا رہا، میں نے انہیں بڑا سمجھانے کی کوشش کی کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر نئی نسل بڑی ہوشیار ہے۔ خیر میں چل پڑا۔ ایک ’’امن مشاعرہ‘‘ میں شریک ہونے جا رہے تھا۔ وہاں پہنچا تو بینر پر یہ شعر لکھا ہوا تھا

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

جب میری بار ی آئی تو صاحب ِ نظامت نے فرمایا کہ چونکہ آپ تقریب کے صدر ہیں اس لئے صدارتی خطبہ بھی دیں گے۔ پتہ نہیں میرے جی میں کیا آیا کہ میں نے کہا کہ یہ جس امن کی تلاش میں آپ پھرتے ہیں یہ ہماری شاعری سے نہیں آنے والا۔ اس وقت دنیا میں بارہ ہزار ایک سو اکیس ایٹم بم ہیں۔ جن میں صرف ایک سو ستر ہمارے پاس ہیں یعنی پاکستان کے پاس، انہیں ہم ڈبوں میں پیک کر کے کہیں دفنا بھی دیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، باقی گیارہ ہزار اکاون ایٹم بم موجود رہیں گے۔ پچھلے سال تک انڈیا کے پاس ایک سو چونسٹھ ایٹم بم تھے مگر اس وقت ان کی تعداد ایک سو بہتر ہو چکی ہے۔ یعنی تعداد میں ہم سےدو زیادہ ہو چکے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں سے کوئی ایک بھی ایٹم بم چلائے تو دونوں تباہ وبرباد ہو جائیں گے۔ ہم دہلی پہ ایٹم بم پھینکیں تو لاہور تک کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اور پھر ایک سو ستر اور ایک سو بہتر مل کرتین سو بیالیس ایٹم بم بنتے ہیں۔ یہ بر صغیر کو ہی نہیں آدھی سے زیادہ دنیا لقمہ ِ اجل بنا سکتے ہیں۔ اب اس بات پر غور کریں کہ باقی جو دس ہزار نو سو 78 ایٹم بم ہیں وہ چلیں گے تو کیا ہو گا۔ وہی قیامت کہ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑائیں گے۔ مطمئن ہو جائیے مجھے ایک بہت بڑے مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ ایک ہزار سال تک قیامت آنے کا کوئی امکان نہیں۔ یعنی یہ ایٹم بم پڑے پڑے سڑ جائیں گے۔ ایک اور بڑی کمال کی بات بتائوں کہ پچھلے سال ان ایٹم بموں کی تعداد بارہ ہزار پانچ سو بارہ تھی۔ تین سو اکانوے ایٹم بم اس سال ضائع کر دئیے گئے ہیں۔ وہ پرانے ہو گئےتھے، خدشہ تھا کہ کسی وقت پڑے پڑے چل نہ جائیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم امریکہ کے پاس ہیں۔ (امریکہ کے ذکر سے ٹیم برائے فروخت والے لڑکے یاد آ گئے اور میں نے کہا) ابھی تو شکر کرو کہ امریکہ کرکٹ کی طرف آ گیا ہے۔ امید ہے جلد امریکی بھی پوری طرح کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہو جائیں گے۔ کم از کم ایسے خطرناک بموں کی تیاری کی طرف دھیان تھوڑا کم ہو جائے گا۔ ویسے امریکی ہیں بڑے چالاک، انہوں نے اپنے ملک میں اس وقت تک کرکٹ کو نہیں داخل ہونے دیا جب تک وہ ٹوئنٹی اوور تک نہیں پہنچی۔ میں جوانی میں سوچا کرتا تھا کہ ستر اسی فیصد امریکیوں کا تعلق یورپ سے ہے اوری ورپ سارا کرکٹ کھیلتا ہے مگر امریکی نہیں کھیلتے۔ ایک بار ایک امریکی میرا مہمان ہوا تو میں نے اس سے یہ سوال پوچھ لیا۔ کہنے لگا ’’امریکیوں کے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں کہ پانچ دن ایک میچ کھیلتے رہیں اور وہ بھی ہار جیت کے بغیر ختم ہو جائے۔ بہر حال یہ طے ہے کرکٹ کھیلنا ایٹم بم بنانے سے ہزار گنا بہتر کام ہے۔ جو ہمیں بھارت کی وجہ سے مجبوراً بنانا پڑ گیا، وگرنہ ہم اس رقم سے یورپ، امریکہ اور دبئی میں کچھ جائیدادیں اور خرید لیتے۔ یقین کیجئے آدھا برطانیہ خریدا جا سکتا تھا۔ چلو ملک سے باہر نہ سہی اپنے ملک کے اند ہی خرید لیتے، شالامار ماغ خرید لیتے، باغ جناغ بھی خریدا جا سکتا تھا۔ میرا ایک دوست شاہی قلعہ خریدنا چاہتا تھا مگر اس کی قیمت اس کی استطاعت سے زیادہ تھی۔ ویسے جس طرح ہم نے ائیر پورٹ لیز پر دینے کا پروگرام بنایا ہے۔ اسی طرح مینار پاکستان بھی لیز پر دیا جا سکتا ہے۔ بہر حال اور کچھ فروخت کریں نہ کریں کرکٹ ٹیم کی فروخت ضروری ہے۔ پاکستانی کرکٹ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے بانی پی ٹی آئی جیسی عظیم شخصیت نصیب ہوئی وگرنہ دنیا بھر کی کرکٹ نے صرف کھلاڑی ہی پیدا کیے ہیں۔

تازہ ترین