وزیر اعظم شہباز شریف نے صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کی قیمت میں کمی کی ہے جبکہ دوسری طرف گھریلو بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت میں 5 روپے 72پیسے اضافہ کرکے غریب عوام پر بجلی گرا دی ہے۔ لگتا ہے کہ پی ڈی ایم ٹو کی حکومت سرمایہ دار طبقے کو نوازنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحادی حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئےعوام کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ 25 کروڑ عوام کیلئے پہلے ہی 2وقت کی روٹی کاحصول مشکل بنا دیا گیا ہے، ایسے محسوس ہوتا ہےکہ بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کرکے حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے غریب عوام کو اب زندہ درگور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ بھی آئی ایم ایف اور اشرافیہ کا بجٹ ہے جس کو عوام دوست تو نہیں البتہ غریب دشمن بجٹ ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے 39ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دیکر یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ یہ بجٹ اشرافیہ کا بجٹ ہے جس کا مقصد انکے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت نے ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عوام کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ اس سے ملک میں بے روزگاری اور جرائم میں اضافہ ہو گا۔ کاغذ پر 10فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنا اخباری صنعت کو دفن کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس اقدام سے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد بے روزگار ہونگے۔ اگر ملک میں ٹیکسز پر ٹیکسز لگائے جائیں تو ملک کسی صورت بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ 18 ہزار ارب کے بجٹ میں آدھی رقم سود اور قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔ کرپشن کے تمام میگا اسکینڈلز کو بھی منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے۔ جب تک کرپٹ افراد کا مکمل قلع قمع نہیں ہو جاتا اس وقت تک پاکستان کی معیشت ٹھیک اور عوام کی زندگیوں میں خوشحالی نہیں آ سکتی۔
آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر ہمارے حکمرانوں نے وفاقی کے بعد صوبائی بجٹ بھی مایوس کن دیئے ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں سال حکومتی اخراجات میں 36.6فیصد اضافے کے ساتھ 13ہزار 682ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک و قوم اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ ایسے ایشوز پرمرکوز ہو کر رہ گئی ہے کہ جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ارباب اقتدار نے تو بے حسی کی تمام حدود کو عبور کر لیا ہے۔ اس وقت عوام اپنی گھریلو اشیاء فروخت کرکے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مخدوش ملکی حالات اور بہتر مستقبل کی خاطرہر سال دس لاکھ افراد ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں۔ رواں سال 4لاکھ سے زائد افراد پاکستان کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ داخلی انتشار، افراتفری، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مسلسل باریوں نے عوام کا ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ 188کھرب 87ارب کے وفاقی بجٹ کا پچاس فیصد سود کی ادائیگی پر چلا جائے گا۔ زراعت جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کیلئے صرف 5ارب مختص کرنا ظلم ہے۔ کاشت کارپہلے بھی گندم کی فصل کی وجہ سے بڑے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کیلئے جی ڈی پی کا بالترتیب ڈیڑھ فیصد اور ایک فیصد مختص کرنا موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات کا واضح پتہ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنایا جانے والا بجٹ عوامی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتا اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا بجٹ دیا جائے جس میں 98فیصد عوام کے مفادات کو تحفظ ملے۔ مہنگائی کم کی جائے اور اشیاء خور ونوش کی قیمتوں میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا یہ کہنا بھی حیران کن ہے کہ ”ٹیکس ٹو جی ڈی پی 13.5فیصد تک لے کر جانا پڑے گا۔ ملک کو ترقی دینی ہے تو سب کچھ نجی شعبے کے حوالے کرنا ہو گا“ سوال یہ ہے کہ حکومت بھی ہرشعبہ میں ناکام دکھائی دیتی ہے، کیا وزیر خزانہ اپنی حکومت کوبھی نجی شعبے کے حوالے کر دیں گے؟ حکومت کی اس عاقبت نا اندیش پالیسی سے ملک میں خوشحالی کی بجائے اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گی۔ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارےحکمران اپنی نا اہلی کا سارا ملبہ سرکاری اداروں کی اونے پونے نجکاری کر کے چھپانا چاہتے ہیں، منافع بخش ادارے کرپشن اور کرپٹ افراد کی تعینایتوں کے باعث بدترین خسارے کا شکار ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیاں اور کرپٹ افراد کو فراہم کیا جانے والا تحفظ اصل خرابی ہے جس کو کوئی بھی حکومت ٹھیک کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا دی گئی ہے وفاقی و صوبائی بجٹ میں مراعات یافتہ طبقہ پر نوازشات ختم کرنے کی بجائے، پاکستان کے 98فیصد غریب طبقے پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں قوم کو حقیقی معنوں میں ریلیف ملتا نظر آتا ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موجودہ اتحادی پی ڈی ایم ٹو کی حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ سرکاری پروٹوکول اور مراعات کا خاتمہ کیا جائے اور بیرونی امداد کی بجائے قومی وسائل سے استفادہ کیا جائے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے کو واپس لیا جائے وگرنہ اتحادی حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستانی عوام اپنے مطالبات کے حصول کیلئے سڑکوں پر نکل چکے ہیں اس لیے اتحادی حکومت کو عوامی غیظ و غضب سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔