حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی میں کمی لانا ہے جس نے غریب عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔ مہنگائی نے غریب طبقے کے ساتھ سفید پوش متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ دی ہے اور اب متوسط طبقہ بھی گوشت سمیت بہت سی کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ کچھ ماہ قبل جب مہنگائی عروج پر تھی، لوگوں کی قوت استطاعت میں واضح کمی نظر آئی۔ حال ہی میں مہنگائی پر ورلڈ بیورو آف اسٹیٹکس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں دنیا میں مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان ساتویں نمبر پر آتا ہے جبکہ وینزویلا 404فیصد مہنگائی (افراط زر) کے ساتھ پہلے اور لبنان 260فیصد مہنگائی کے ساتھ دوسرے پر ہے جہاں بڑھتے اخراجات پورے کرنے کیلئے پاکستان کی طرح اضافی کرنسی نوٹوں کی چھپائی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی میں شام 139فیصد کے ساتھ تیسرے، ارجنٹائن 40فیصد کیساتھ چوتھے، ترکی 38 فیصد کے ساتھ پانچویں، مصر 35فیصد کے ساتھ چھٹے اور پاکستان 29.4فیصد کیساتھ ساتویں نمبر پر تھا تاہم پاکستان میں مئی 2024 ءمیں مہنگائی کم ہوکر 12 فیصد پر آگئی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ دنیا میں چین میں مہنگائی کی شرح صفر اور افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی ایک فیصد ہے یعنی کئی دہائیوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان مہنگائی ختم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
پاکستان میں مئی 2023ءمیں( افراط زر) مہنگائی ریکارڈ بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس نے عوام کی کمر توڑ دی اور اسے کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ 22فیصد تک بڑھادیئے تھے جس سے بینکوں کی شرح سود 24 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس نے ملک میں نئی سرمایہ کاری کو متاثر کیا کیونکہ 24 سے 25 فیصد شرح سود پر کاروبار کرنا ممکن نہیں تھا نتیجتاً بینکوں سے نجی شعبے کے قرضوں میں بھی کمی آئی جس سے معاشی سرگرمیاں سست ہوئیں اور ملکی جی ڈی پی گروتھ نچلی ترین سطح 0.2 فیصد تک گرگئی۔ اس دوران آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی گئی جس سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا اور صنعتوں کی مقابلاتی سکت متاثر ہوئی۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کمرشل صارفین ،تنور اور کھاد کے کارخانوں پر بھی ہوا جس سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کو بنیادی ضروریات مثلاً بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات وغیرہ مہنگے داموں پر ملتی ہیں جس سے ان کے فی ایکڑ اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ زراعت میں مڈل مین یعنی آڑھتی بھی گٹھ جوڑ اور کارٹل بناکر زیادہ منافع حاصل کررہا ہے حالانکہ کارٹل توڑنے کیلئے مسابقتی کمیشن موجود ہے لیکن وہ کارٹل مافیا کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے بلوں میں اضافہ ملک میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ دنیا میں غربت میں کمی لانے کا سب سے کامیاب پروگرام چین نے 1994 میں مضافاتی علاقوں سے شروع کیا اور غربت میں کمی کے قومی پروگرام 2016-20 ءکے تحت 2020 ءتک 70 کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکالا۔ چین نے معاشی ترقی سے ملک میں نئی ملازمتوں اور آمدنی کے مواقع پیدا کئے۔ غریب طبقے کو سوشل ویلفیئر پروگرام، جس میں تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں، کے ذریعے سپورٹ کیا۔ مضافاتی علاقوں میں بجلی، پانی کی سپلائی اور سڑکوں کا جال بچھاکر وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری لائی گئی۔ چین نے اپنے شہریوں کیلئے کم از کم گارنٹی اجرت مقرر کرکے سوشل سیفٹی نیٹ فراہم کیا اور حیرت انگیز طور پر 1990ءسے 2020 ءتک 70کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکال کر غربت کو صرف ایک فیصد تک لے آیا جو دنیا کیلئے ایک کامیاب ماڈل ہے۔ ہمیں بھی مہنگائی اور غربت میں کمی لانے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے سوشل ویلفیئر پروگرام، جو کم آمدنی والے طبقے کو مالی امداد فراہم کرتا ہے، کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی طرح مائیکرو فنانس قرضوں کے ذریعے چھوٹے اور غریب طبقے کو بلاسود قرض فراہم کئے جائیں۔ پاکستان کی طاقت، زراعت اور صنعت ہیں۔ ہمیں زرعی اور صنعتی شعبوں میں اصلاحات کرکے ان شعبوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ غریب کاشتکار کو اس کا حق مل سکے، ملک میں اسکلڈ ڈویلپمنٹ کے تحت ہنرمند انسانی وسائل پیدا کرنا ہوں گے۔ اگر ہم پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا 1947 ءسے اب تک کے معاشی ترقی کے سفر کا مطالعہ کریں تو خطے کے ان ممالک میں پاکستان کی معاشی کارکردگی دیگر ممالک کے مقابلے میں مایوس کن نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی کرکے اصلاحات کے ذریعے چین کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے ایکسپورٹ میں اضافے کے ذریعے تیز جی ڈی پی گروتھ حاصل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا تاکہ غریب اور متوسط طبقہ بڑھتی مہنگائی اور غربت کا مقابلہ کرسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)