• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

دل شکستہ ،آزردہ ،قلم لرزاں، آنکھوں سے آنسو رواں ،کیا سپردِ قلم کروں، اُس ہنستی مُسکراتی ہستی پر، جو ہم بہن بھائیوں کے دلوں میں تین عشرے بیت جانے کے بعد بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ اہلِ خانہ کے ایک ایک فرد کے دلوں میں زندہ جاوید رہیں گی۔ میری سب سے بڑی باجی، خالدہ ناز صدیقی (مرحومہ) جو اپنی شخصیت میں ایک انجمن ،رونقِ محفل،حصول ِعلم کی شائق، گھریلو امور، سلائی کڑھائی، بُنائی اور انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانے میں طاق، والدہ مرحومہ کا دایاں بازو، بہن بھائیوں کی ہم درد و غم گساراور سب کے لیے قربانی و ایثار کا پیکر تھیں۔ 

کون سی خوبی ہے، جو ان کے حوالے سے بیان کے قابل نہ ہو۔ ذہین و فطین، تعلیم کی اس قدر دل دادہ کہ میٹرک کا پرائیویٹ امتحان بہت لگن اور محنت سے دیا۔ اور پھر جب سنجھورو (ضلع سانگھڑ )میں اُن کی اوّل پوزیشن آئی، تو پورے ضلعے میں اُن کی کام یابی کی دھوم مچ گئی، یہاں تک کہ سانگھڑ کالج کی پرنسپل نے بطورِخاص ہمارے گھر آکر انھیں اپنے کالج میں داخلے کی پیش کش کی اور والد صاحب کو کافی بحث مباحثے کے بعد قائل کیا۔یوں اُن کا داخلہ سانگھڑ کالج میں ہوگیا۔

کالج جانے لگیں، تو روز مرّہ امورکے حوالے سے والدہ نے خاص تلقین کہ امورِ خانہ داری کی ذمّے داریاں پوری کروگی، تو کالج جانے کی اجازت ہوگی، ورنہ گھر بٹھالوں گی۔ والدہ کی تلقین پر صدق دل سے عمل کیا اور ہماری معصوم سی باجی جان نے تمام گھریلو امور بخوبی سنبھالنے کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ گویا وہ تعلیم کی خاطر پہاڑ بھی سر کرنے کو تیار تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ امورِ خانہ داری میں ہم بہنوں میں کوئی اُن کا ہم پلّا نہ ہوسکا۔

بازار میں کوئی ڈیزائن دیکھتیں، تو بالکل ویسا ہی سی لیتیں۔ شب و روز محنت اور لگن ان کا خاصّہ تھا، لیکن افسوس، صد افسوس، ازدواجی زندگی پائیدار نہ ہوئی اور اپنے گلشن کو اپنے سلیقے سے سجا، سنوار نہ سکیں۔ اُن کی شادی ہوئی، تو ہم سب بہنوں نےدل کے خُوب ارمان نکالے، وہ بھی ہم سب کو چھوڑ کر یوں اکیلے پیا دیس سدھارنے پر غم زدہ اور ملول تھیں، مگر دوسری طرف نئے گھر جانے پر سرشار بھی تھیں۔ مگر آہ! اِدھر شادی ہوئی، اُدھر وقتِ موعود آپہنچا۔ شادی کے چند روز بعد ہی راہئ ملک ِ عدم ہوگئیں۔

بلاشبہ، اعلیٰ ظرف اور بااخلاق انسان عطیۂ خداوندی ہیں۔ہمارے اِرد گرد کےیہ لوگ گویا ہماری تقدیر کا آدھا حصّہ ہوتے ہیں۔ہماری باجی بھی ہماری تقدیر کا نصف حصّہ تھیں، اُن کا شگفتہ چہرہ، نرم مزاجی ،عاجزی پسندی یاد آتی ہے، تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں، اُن کے ساتھ بیتے لمحے بے دار ہوجاتے ہیں۔ سچ ہے کہ محبّت و صداقت، خلوص و ہم دردی کے پیکر لوگ پھولوں کے موافق ہوتے ہیں، جن کی مہک یادوں میں ہمیشہ تازہ رہتی ہے؎ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را ۔ (بنتِ صدیقی کاندھلوی )