• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

1973 ء میں میری عُمرمحض 7برس تھی۔ اُس سال کے رمضان المبارک کی17تاریخ مَیں تازیست فراموش نہیں کرسکتا جب کہ ظہر اور عصر کے درمیان ابّا ہم سب کو روتا چھوڑ کر اِس دنیا سے رخصت ہوگئے اور بعد نمازِ عشاء سابق مشرقی پاکستان کے شہر سیدپور کے مستری پاڑہ قبرستان میں اُن کی تدفین ہوئی۔ پھر سقوطِ ڈھاکا کے بعد ہجرت کی صعوبت جھیل کر ہم کراچی پہنچے اور 11ستمبر2019ء کو، جب محرم کی بھی گیارہ ہی تاریخ تھی، ہماری والدہ نے بھی داعئ اجل کو لبّیک کہا۔ ہماری والدہ، ہمارے والد محمد سلیمان انصاری سے متعلق بتایا کرتی تھیں کہ وہ بہت حسّاس طبیعت کے مالک تھے۔ 

جب تقسیمِ ہند کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان معرض وجود میں آئے، تو اُس وقت ان کے ننھیال اور ددھیال میں سے کوئی بھی اپنی جدّی پشتی زمین، مکان اور اپنے آبائو اجداد کی قبریں چھوڑ کر پاکستان جانے پر آمادہ نہ تھا، لیکن ابّا بضد تھے کہ مَیں اپنی نسلوں کو ایک آزاداسلامی ریاست کی پاک فضائوں میں پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔ سب نے بہت روکا، امّاں خود بھی بہت خوف زدہ تھیں کہ ہمارے سب سے بڑے بھائی، جو اُس وقت محض چند ماہ کے تھے، تو امّاں کا خوف بجا تھا۔ یاد رہے، ابّا، دادا کی سب سے چھوٹی اولاد تھے۔ 

دادا نے ان کا تعلیم کی طرف میلان دیکھا، تو فرمان جاری کردیا تھا کہ کوئی بھی سلیمان سے زمینوں پر کام کرنے کا تقاضا نہ کرے، اُسے پڑھنے دو۔ بہرکیف، ابّا کے میٹرک پاس کرتے ہی دادا بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اُس زمانے میں بابو بننے کے لیے میٹرک تک کی تعلیم بھی کافی تھی۔ بھارت سے مشرقی پاکستان ہجرت کے بعد ابّا نے ریلوے میں ملازمت اختیار کرکے پاربتی پور کو اپنا مسکن بنالیا۔ 

ہم سات بھائی اور ایک بہن ہی ابّا، امّاں کی کُل کائنات تھے۔ کوئی قریبی عزیز مشرقی پاکستان میں نہیں تھا، ہم بھائیوں کو ہمیشہ یہ قلق رہا کہ کوئی چاچا، ماما، تایا، خالہ، خالو جیسے رشتے دار ہمارے بھی ہوتے، لیکن ہمارے سب رشتے دار بھارت ہی میں تھے اور وہاں ہمارا کبھی جانا ہی نہ ہوا۔

پاربتی پور میں ریلوے کی چھوٹی سی ملازمت اور قلیل آمدنی میں ابّا کے لیے ممکن نہ تھا کہ اپنے آٹھ بچّوں کو بہتر تعلیم و تربیت فراہم کرسکیں، حالاں کہ بچّوں کی تعلیم اُن کا دیرینہ خواب تھا، لہٰذا اضافی آمدنی کے لیے گھر کے اندر ہی کھڈّی لگا کر کام شروع کردیا۔ اس کام میں امّاں بھی ان کی مدد کرتیں۔ پھر ایک ہفتے میں جتنا مال تیار ہوتا، وہ بازار میں بیچ آتے۔ غرض یہ کہ ابّا دن رات محنت و مشقّت میں لگے رہتے۔ گویا انھوں نے خود کو مشین بنالیا تھا۔ وہ اپنی ساری امیدیں، خواب اور خوشیاں اپنی اولاد میں دیکھتے تھے۔ ابھی ان کی محنت و مشقّت اور جدوجہد کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ سقوطِ ڈھاکا کے سانحے نے ان کے خواب کرچی کرچی کردئیے۔

اس الَم ناک سانحے کے بعد تو ابّا گویا اپنا سب کچھ ہارگئے۔ اپنے خواب، غرورو مان، جو وہ پورے خاندان پر جتا کر آئے تھے کہ ”تم سب لکیر کے فقیر ہو۔“ لیکن آج ابّا کو اپنی اوربچّوں کی زندگی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ تاریکی کے مہیب سائے نے ہر سمت پنجے گاڑ رکھے تھے۔ سید پور میں پاربتی پوروالوں کو ٹارگٹ کیا جارہا تھا، اِسی لیے کئی گھر بدلنے، دَربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد بڑے پیمانے پر مَردوں خصوصاً نوجوانوں کو پکڑ کر کسی نامعلوم مقام پر لے جاکر بے دردی سے ہلاک کیا جارہا تھا۔ 

ایسے میں ابّا اور دونوں بڑےبھائیوں کو ا کثر گھر سے غائب رہنا پڑتا کہ پولیس اور مکتی باہنی جگہ جگہ چھاپے مار کر نوجوانوں کو اٹھا لے جاتے۔ پھر عارضی کیمپ میں محصور ہوجانے کے بعد ابّا روزانہ کلیئرنس (وطن بھیجنے کا پروانہ) کا معلوم کرنے، ریڈ کراس کے دفتر کے چکّر لگاتے۔ بالآخر سید پور ٹیکنیکل کالج میں قائم ریڈکراس کے دفتر کے نوٹس بورڈ پر ابّا کے نام کی کلیئرنس آگئی، مگر اُس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔ 

میرے ابّا، جو مشرقی پاکستان کو اپنا خواب سمجھ کر آئے تھے، اپنے اس خواب کے چکناچُور ہونے کے بعد پھر اپنے خوابوں کی حقیقی سرزمین مغربی پاکستان جانے کو بے تاب تھے، مگر وائے افسوس، پاکستان جانے کا پروانہ ملنے سے دس روز قبل17 رمضان المبارک1973 ء کو داعئ اجل کو لبّیک کہہ گئے۔ پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ نچھاور کردینے والے میرے ابّا کے بارے میں امّاں کہتی تھیں کہ ’’تمہارے ابّا نے بہت محنت کی، بے پناہ جدوجہد کی، مگر وہ ہارگئے۔‘‘ اور ہم امّاں کو ہمیشہ یہی یقین دلاتے رہے کہ ’’ابّا ہارے نہیں، جیت گئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ میرے ابّا کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے، آمین۔ (ممتازحسین انصاری، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید