• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کابلی پلاؤ‘‘ سمیت متعدّد شاہ کار ڈراموں کے خالق، افسانہ نگار، صداکار، ظفر معراج کی اُجلی، خُوب صُورت گفتگو
’’کابلی پلاؤ‘‘ سمیت متعدّد شاہ کار ڈراموں کے خالق، افسانہ نگار، صداکار، ظفر معراج کی اُجلی، خُوب صُورت گفتگو

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

ظفر معراج کا شمار مُلک کے ممتاز اور منفرد ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ اب تک پانچ درجن سے زائد سیریز اور سیریلز لکھ چُکے ہیں۔ وہ اپنی اچھوتی کہانیوں کے سبب معروف ہیں۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ثقافتی پس منظر، عوامی کہانیوں اور کرداروں پر مبنی ڈراموں کے ذریعے بیرونِ مُلک بھی شہرت رکھتے ہیں۔ بھارتی ڈراما اور فلم انڈسٹری سے بھی عرصۂ دراز سے منسلک ہیں۔ 

ان کا اصل موضوع’’ انسان‘‘ ہے اور وہ انسانی مسائل کے حل اور امن و خوش حالی ہی کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں اُن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں( نجی اور عوامی) پر تفصیل سے بات چیت ہوئی، جو جنگ،’’ سنڈے میگزین ‘‘کے قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔

س: اپنے خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: ہمارا آبائی علاقہ پنج پائی ہے۔ دادا، سیّد محمّد مُراد زمین دار تھے۔ ہمارا مشوانی سیّد قبیلہ کاروبار، زمین داری اور رشتے داریوں کے سبب مستونگ آکر آباد ہوا۔ جس زمانے میں کسی کسی شخص کے پاس گاڑی ہوا کرتی تھی، اُن دنوں میرے والد، سیّد محمّد معراج کو گاڑی چلانے کا شوق ہوا اور وہ اِسی شوق کی خاطر مُلک بَھر میں گاڑی دوڑاتے پھرے۔ کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان ایک بس چلا کرتی تھی اور وہ اس کے ڈرائیور بننے پر بہت خوش تھے۔ دادا کے بھائی، صاحب خان برٹش آرمی میں رہے۔ وہ ایک سیاسی شخصیت تھے۔1971ء میں حُکم ران مخالف رہنمائوں کے صفوں میں شامل ہو کر بلوچستان کے حقوق اور سیاسی پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ 

دوسرے بھائی، صاحب داد دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ کانک میں رہے۔ دراصل، ہمارے خاندان میں الگ تھلک رہنے کا رجحان شروع سے رہا ہے۔ میرے نانا، حاجی نیک محمّد علیزئی قبائلی شخصیت ہونے کے ساتھ فارسی زبان کے عالم بھی تھے۔ وہ حافظ، رومی اور سعدی کو پڑھا کرتے تھے، جب کہ نانی کے بھائی، حاجی خوشی محمّد فارسی اور براہوی زبان کے شاعر تھے۔اُنھوں نے قصیدہ بردہ شریف کا براہوی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ مَیں اگست1968ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ مستونگ میں نانی نے پرورش کی۔ گرلز پرائمری اسکول کلی شیخان میں داخلہ ہوا۔

گو کہ لڑکوں کے لیے بھی اسکول تھے،مگر نانی نہیں چاہتی تھیں کہ اسکول میں اساتذہ سے مجھے مار پڑے، لیکن مَیں نے اُنہیں کبھی نہیں بتایا کہ لڑکیوں کی کتابیں، پینسلز چُھپانے پر مجھے روز مار پڑتی ہے۔مَیں چوتھی جماعت میں تھا، تو نانی کی ناسازیٔ طبع کے سبب ہمیں کوئٹہ شفٹ ہونا پڑا۔ وہاں سرکی کلاں پرائمری اسکول میں داخل ہوا، جو گھر سے دو، تین میل دُور تھا اور مجھے پیدل جانا پڑتا۔ 

وہاں بہت ہی شفیق، دیانت دار اور اپنے مضامین میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تھے۔ کاش! آج کے طلبہ کو بھی ویسے استاد نصیب ہوں۔بعدازاں، ہیلپرز پبلک اسکول، سیٹلائٹ ٹاؤن سے میٹرک کیا، جس کے پرنسپل کراچی سے تعلق رکھنے والے، رشید الحق تھے۔ 

میرے اساتذہ میں معروف شاعر سرور جاوید(جو بعدازاں سینئر بیوروکریٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے)، ترقّی پسند دانش وَر امیر الدّین اور میڈم مہرالنساء تعلیم و تربیت میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ انہی کی سرپرستی میں کوئز اور ڈیبیٹس کے مقابلے جیتتا رہا۔ فیڈرل گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کیا، جس کے دَوران کالج ہائوس فُٹ بال ٹیم کا کپتان بھی رہا۔بعدازاں، بلوچستان انجینئرنگ یونی ورسٹی سے ڈگری لی۔

س: بچپن میں کون سے کھیل پسند تھے؟

ج: ہمارے گھروں کے ارد گرد باغات تھے، تو درختوں پر چڑھنا، پَھل چُرانا معمول تھا، جب کہ چُھپن چُھپائی بھی کھیلتے۔اُس وقت کئی کئی گھروں کے دروازے ایک دوسرے کے گھر میں کُھلتے تھے، ہم ایک گھر سے دوسرے گھر میں داخل ہوتے ہوئے پانچ دس گھر عبور کرتے اور جہاں بھوک لگتی، اُسی گھر میں بیٹھ کر کھانا کھاتے یا نیند آجاتی تو سو جاتے۔ اُس زمانے میں بچّے اور بڑے ہر لحاظ سے محفوظ تھے۔ 

گھر والوں کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہوتی۔ ہر گھر میں کہانیاں سُنانے کا رواج تھا۔ سردیوں میں الائو کے ارد گرد بیٹھ کر بزرگ کہانیاں سُناتے، جنہیں ہم بچّے بڑی دل چسپی سے سُنتے۔ کبھی کبھار تو ہم بھی بزرگوں کی نقل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہانیاں سُناتے۔ والد مختلف شہروں، وہاں کی بولیوں اور وہاں بسنے والوں کے کلچر سے متعارف کرواتے اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات بھی سُناتے۔

س: کبھی تعلیمی اخراجات میں مشکلات پیش آئیں؟

ج: اُس زمانے میں بھاری فیسز نہیں ہوا کرتی تھیں۔ نیز، اچھے اور غریب طلبہ کی فیس معاف کر دی جاتی یا پھر اُنھیں وظیفہ ملتا تھا۔ میرا معاملہ بالکل الگ تھا۔ مَیں نے میٹرک ہی میں ریڈیو پروگرامز میں شرکت شروع کر دی تھی، جہاں سے جیب خرچ بھی ملتا تھا۔ خضدار میں پڑھائی کے دَوران ریڈیو پاکستان، خضدار میں پروگرام کیا کرتا،تو چُھٹیوں میں کوئٹہ میں کبھی اسکرپٹ لکھتا، کبھی نیوز پڑھتا اور ایک موقعے پر گیسٹ پروڈیوسر کے طور پر بھی ریڈیو سے وابستہ ہوا۔ 

انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد بولان میڈیکل کالج کے تعمیراتی کام میں بطور کنسلٹنٹ بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ پھر وہ کام چھوڑ کر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر بھرتی ہوگیا، مگر جانے کیوں یہ کام مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ کچھ عرصہ بے روزگار بھی رہا۔ مَیں اور اداکار، حسّام قاضی نوکری کی تلاش میں تھے۔ ایک دوست کو الاٹڈ ہاسٹل کا کمرا ہمارے زیرِ استعمال تھا، جب کہ ہماری وجہ سے اُس دوست کو کہیں اور رہنا پڑرہا تھا۔ 

ہم مجبور تھے اور وہ ہمیں نکالنے کی ہمّت نہیں کررہا تھا،تاہم اُس کے ماتھے کی شکنوں سے اُس کےدل کا حال ہم تک پہنچتا تھا۔ اِسی دوران پولی ٹیکنیک کالج میں اساتذہ کی بھرتیوں کا اعلان ہوا، تو حسّام نے کہا’’ موقع اچھا ہے، بے روزگاری ختم ہونے کے ساتھ کم از کم ٹیچرز ہاسٹل میں کمرا تو مل جائے گا۔‘‘ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے مَیں پولی ٹیکنیکل کالج میں استاد بھرتی ہوا، اس کے بعد بطور پرنسپل خانوزئی، تربت، گوادر، جی آئی ٹی اور اب پرنسپل، اوتھل پولی ٹیکنیک کالج خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔

س: آپ کتنے بہن، بھائی ہیں ؟

ج: ہم چار بھائی، تین بہنیں ہیں۔ چھوٹا بھائی منظور واپڈا آر او آفس میں ہے، جاوید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ لسبیلہ یونی ورسٹی ہیں،جب کہ طارق بھائی الیکٹرانکس انجینئر ہیں اور پولی ٹیکنیک کالج میں پڑھاتے ہیں۔

س: قلم کاروں کی شادیاں کافی دل چسپ ہوتی ہیں، کچھ اپنی شادی کا احوال بتائیں؟

ج: ہماری شادیاں دوسروں کے لیے دِل چسپ، لیکن خُود ہمارے لیے بعض اوقات کافی سنجیدگی و رنجیدگی کا سبب بن جاتی ہیں۔ابتداً تو مَیں نے بھی عشق کرنے کی کوشش کی، مگر وہ تعلق محبّت اور احترام ہی تک محدود رہا۔بعدازاں، میرے دوست اور اُن کی بہن نے میری شادی کا بندوبست کیا۔

مَیں اس بہن کی پسند کو ٹھکرا نہ سکا اور ہامی بَھر لی۔ ملیر، کراچی کی ایک لاشاری فیملی سے رشتہ جُڑا۔ اب آپ بچّوں کا پوچھیں گے، تو بتادوں، میرا ایک بیٹا مُراد معراج اور تین بیٹیاں دُعا معراج، مہروبیا اور آنسہ معراج ہیں۔

س: اِن میں سے کسی کو آپ کے شعبے سے دِل چسپی ہے؟

ج: میری طرف سے تو کوئی پابندی نہیں۔ مُراد کو گائیکی اور اداکاری سے دل چسپی ہے۔ آنسہ باقاعدہ لکھتی ہیں، دُعا پڑھتی زیادہ ہے اور مہروبیا اسٹوری ٹیلنگ میں مہارت رکھتی ہے، جب کہ اپنی ڈیجیٹل اینی میشن تخلیقات بھی پیش کرتی رہتی ہے۔

س: آپ ڈراما نگار کیسے بنے اور اب تک کتنے ڈرامے یا فلمز لکھ چُکے ہیں؟

ج: مَیں ریڈیو کے لیے اسکرپٹ لکھا کرتا تھا،جب کہ اُن دنوں روزنامہ جنگ، کوئٹہ میں میرے افسانے بھی چَھپتے تھے۔ بہرام غوری، ڈاکٹر تاج رئیسانی اور افضل مُراد وغیرہ کی رہنمائی نے ٹی وی اسٹیشن کا رستہ دَکھایا۔مجھے براہوی شاعری’’کونٹ‘‘ نے بہت متاثر کیا اور اسی کے پس منظر میں پہلا ڈراما لکھا، جسے قیوم بیدار نے پروڈیوس کیا۔پروڈیوسر عطاء اللہ بلوچ نے مجھ سے کمپیئرنگ اور لکھنے کا کام لیا۔ میرا پہلا اردو لانگ پلے، طارق معراج نے’’امربیل‘‘ کے نام سے پروڈیوس کیا۔ 

عطاء اللہ بلوچ نے’’ شانتل‘‘ بلوچی سیریل کیا، جسے بعد میں اُردو میں پیش کیا گیا اور اسے بے حد پذیرائی ملی۔ دوست محمّد گشکوری کے لیے’’سفر‘‘ کے نام سے سیریل لکھا، پھر زی-فور(انڈین چینل) کے لیے’’اجنبی‘‘ لکھا۔ طارق معراج کا ساتھ رہا اور مصروفیات بڑھتی گئیں۔ مَیں نے، حسّام قاضی، فاروق مینگل اور عطاء اللہ بلوچ نے کراچی کا رُخ کیا، جب کہ2000 کے بعد باقاعدہ کراچی شفٹ ہونا پڑا۔اب تک چالیس کے قریب ڈرامے اور دس سیریلز لکھ چُکا ہوں،جب کہ لانگ پلیز اور فلمز اِن کے علاوہ ہیں۔

س: پرائیویٹ پروڈکشنز اور پی ٹی وی کے ڈراموں میں کیا فرق ہے؟

ج: ڈراما پرائیویٹ ہونے کے بعد کمرشلائز ہوگیا ہے۔ مَیں دس سال تک پی ٹی وی کے کلچر کے ساتھ وابستہ رہا۔ ٹی وی ڈرامے کا میکنزم بہت طاقت وَر ہوا کرتا تھا اور ڈراما ایک مربوط نظام سے ہوتا ہوا نکلتا تھا۔ ڈائریکٹر سے لے کر بوم آپریٹر تک اس کا حصّہ ہوتے تھے۔ 

ڈراما لمحہ بہ لمحہ مانیٹر ہوا کرتا تھا۔ ایک اداکار، دوسرے اداکار کے لیے مطلوبہ کردار کی نشان دہی کرتا، کسی بھی سبجیکٹ کا مارکیٹنگ سے تعلق نہیں ہوتا تھا، ڈراما بنانے کے بعد بیچنے کے لیے پیش کیا جاتا، مگر اب پہلے سے بیچنے اور سرمایہ کاری کرنے والے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ 

فوری طور پر مارکیٹ میں اِن ہونے کی کوشش کی جاتی ہے، حالاں کہ پرائیویٹ پروڈکشنز کے طور پر بھی ڈرامے کا اعتبار اور مقصد بحال ہوسکتا ہے، اگر ایک مربوط نظام اپنالیا جائے۔ اس طرح اس کی اہمیت اور وقعت بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔

س: آپ نے پاکستان سے باہر کہاں کہاں کام کیا؟

ج: مَیں انڈین فلم انڈسٹری کے ساتھ بھی منسلک ہوں۔زی- فائیو کے لیے کام کیا اور زی ٹی وی کے لیے ڈراما’’ اجنبی‘‘ لکھا، جسے طاہر بخاری نے پروڈیوس کیا،جب کہ چینل فور کے لیے جمیل دہلوی کے ساتھ کام کیا۔مَیں نے ملائیشین یونی ورسٹی سے اسکرپٹ، کنسلٹینسی، ڈائیلاگز اور رائٹنگ کا تین ماہ کا کورس کیا۔ 

زیبا بختیار کے ساتھ مل کر ملائیشیا سے ڈراما سیریل’’مسوری‘‘ ڈیویلپ کیا۔ایک ڈراما’’ مقدس‘‘ کیا، جس کے لیے پاکستان اور ملائیشیا کے کلچر ڈیپارٹمنٹس سے معاونت حاصل کی۔ اس کے علاوہ مراکو میں بھی کام کیا، جب کہ امریکا میں ایک دوست، رزّاق بلوچ کے ساتھ شوز کیے اور کہانیاں ڈیویلپ کیں۔

س: کراچی میں آپ کے ساتھ کس کا تعاون زیادہ رہا؟

ج: کراچی میں ابتدائی کام تو’’ جیو‘‘ شروع ہونے کے بعد کیا۔’’روزی‘‘ کے رائٹر، عمران اسلم کا ساتھ رہا۔ایک سیریل’’دوزخ‘‘ کیا۔جیو نیٹ ورک نے لکھنے کے لیے بہت اچھا ماحول فراہم کیا، تو بہت سے ڈرامے لکھے۔ اِسی دوران دوسرے چینلز بھی آگئے، تو کام بڑھتا گیا، البتہ مَیں یہ بات بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’جیو‘‘نے میرے دوستوں کی تعداد میں بہت اضافہ کیا۔

س: شاعری بھی کرتے ہیں؟

ج: باقاعدہ شاعر تو نہیں ہوں، البتہ کبھی کبھار ڈراموں کے تھیم سانگز لفظ جوڑ توڑ کر لکھ ہی لیتا ہوں۔

س: آپ کے ڈراموں کے موضوعات کافی مختلف ہوتے ہیں، آپ کی یہی انفرادیت آپ کو دوسروں سے ممیّز کرتی ہے؟

ج: جی ہاں، مَیں’’ انسان‘‘ کو سوچتا اور اُسی کے لیے لکھتا ہوں۔جیسے ڈراما ’’شانتل‘‘ ایک خانہ بدوش کی کہانی تھی اور میرا اپنا تعلق خانہ بدوشوں کے قبیلے سے ہے۔ گوادر کے مسائل، مشکلات، مچھیروں کے شب وروز پر سیریل’’ دروازہ‘‘ لکھا۔’’ لیاری ایکسپریس‘‘ لکھا، تو گدھا گاڑی ریس کے کردار لے کر انسان کے دُکھ کو اُبھارا، کاروکاری پر لکھا، جس میں عورت کی بے بسی و بے کسی دِکھائی۔ 

کابلی پلائو، شکارا میں کہیں وزیرستان، تو کہیں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی گلیوں کی منظر کشی کی۔ انسانوں کی فطری خواہشات اور ان کی مجبوریوں کو موضوع بنایا۔ دراصل مَیں نے خُود کو کسی زبان یا کسی کلچر کا پابند نہیں رکھا۔مجھے کُھل کر لکھنے میں مزہ آتا ہے، جس میں تفریح بھی ہو، تعمیر بھی اور مقابلہ بھی۔

س: منفرد اور اچھا لکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

ج: سب سے پہلے تو اچھی نیّت چاہیے اور پھر مسلسل محنت کو زندگی کا حصّہ بنانا ہوگا۔ نیز، مشاہدہ تیز ہو، اپنے شعبے سے متعلق کتب اور فلمز کا ساتھ چاہیے۔ میری بنیادی تربیت میں روسی لٹریچر اور دیگر کلاسیک کتب نے اہم کردار کیا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں بزرگوں سے کہانیاں کہنے کا ہنر سیکھا۔

دوستوفیسکی، چیخوف، ہیمنگوئے، ٹالسٹائی، منٹو، کرشن چندر اور بیدی کو خُوب پڑھا۔ نوبیل انعام یافتہ فلمز دیکھیں۔ بنیادی طور پر ہر آدمی اسٹوری ٹیلر ہوتا ہے اور اچھا لکھنے کے لیے عام آدمی سے قربت بے حد ضروری ہے۔ خُود میں کسی کلچر کو محسوس کرنے کے لیے ہر کلچر کا احترام لازم ہے اور مثبت اقدار کا تقدّس ناگزیر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی :رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی :رابرٹ جیمس) 

س: پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی نے اکیڈمی کا کردار ادا کیا، ان کے زوال پر افسوس نہیں ہوتا؟

ج: صرف افسوس ہی نہیں، بہت دُکھ ہوتا ہے۔ اِن اداروں کو جس بھونڈے انداز میں ناکارہ کیا گیا، مَیں اسے قومی خیانت تصوّر کرتا ہوں۔ اِس طرح کے ادارے کسی بھی ریاست کے لیے اہم ٹُولز ہوتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ منصوبہ سازوں میں نالائق لوگ شامل ہوگئے ہیں۔

ایسے قومی اداروں کی تباہی عوام کے ساتھ دشمنی اور ریاست کو کم زور کرنے کے مترادف ہے اور یہ اپنی تہذیب، روایات، اقدار سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اِس حرکت سے مُلک کا بیانیہ کم زور ہوا کہ قومی ادارے کبھی بھی کاروباری نہیں ہوسکتے، وہ کمٹمنٹ اور اخلاقیات کے پابند ہوتے ہیں۔

ایسے اداروں کی پستی سے قومی یک جہتی کو نقصان پہنچتا ہے، تنگ نظری میں اضافہ ہوتا ہے اور علم و ادب کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ہم نے مختلف فورمز پر وزرائے اعظم سمیت دیگر اربابِ اختیار سے درخواست کی کہ اِس صُورتِ حال کا نوٹس لیں اور مُلکی وحدت پارہ پارہ کرنے والوں کے عزائم معلوم کریں۔ 

پی ٹی وی نے ایک زمانے میں ڈراموں، موسیقی، مذاکروں اور مشاعروں کے ذریعے عوام میں قربت پیدا کی،لوگ ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ رہتے تھے، ہر ایک کی شناخت، دوسرے کی شناخت بن رہی تھی۔ خبر تو خبر ہے، اس کا پس منظر کوئی نہیں جانتا، کیا کسی کو علم ہے کہ بلوچستان میں کسی پنجابی کے قتل کے محرّکات کیا ہیں، کہیں بھی کسی انسان کا قتل ہو، قابلِ مذمّت ہے، مگر حالات و واقعات کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ 

یہاں تو نہ کسی کو کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا علم ہے اور نہ کسی علاقے کی غربت وپستی کا، نہ ہی سازشوں کا، پوری قوم کو خبروں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ ہم نے ڈراموں کے ذریعے گوادر کا مسئلہ پیش کیا، تو اگر اُس کا نوٹس لے لیا جاتا، تو لوگ سڑکوں پر نہ نکلتے۔ 

پی ٹی وی کے خُوب صُورت پرائم ٹائم نے عوام کو وقت کا پابند کردیا تھا۔ محض ایک 14اگست یا کسی فیسٹیول میں تفریح مہیّا کرنے یا خُوش نُما تقاریر سے حالات بدلنے والے نہیں، نہ ہی اِس طرح نئی نسل کی رہنمائی ہوسکتی ہے اور نہ ہی آپ انہیں ہمیشہ کے لیے خوش رکھ سکتے ہیں۔ 

کیا کسی نے اِس بات کا نوٹس لیا کہ نوجوان روزگار کی تلاش میں مُلک سے باہر کیوں جارہے ہیں؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم سایہ مُلک کی ڈراما، فلم انڈسٹری کا اقتصادی، معاشی معاملات میں کتنا اہم کردار ہے؟ تُرکی کیوں اپنی فلم انڈسٹری بڑھا رہا ہے اور بعض ممالک میں کیوں نئے نئے سینما کھولے جارہے ہیں۔

س: ہمارے ہاں فلم اور سینما پر بھی زوال طاری ہے؟

ج: اس کا سبب وہی ذہنیت ہے، جو ایک سازش کے تحت، ایک خاص موقعے پر اسے غلط اور اخلاقیات کے خلاف قرار دیتی رہی۔ ہمارے ہاں سینما بند ہوئے اور ان کی جگہ کمرشل پلازے تعمیر ہوگئے، جن میں ایلیٹ کلاس کے لیے چھوٹی اسکرینز کا اہتمام کیا گیا۔ تحریر وتقریر پر پابندیوں سے اخبار، کتاب کلچر کو نقصان پہنچایا گیا اور کسی نے نہیں سوچا کہ اِس سے جہاں علمی نقصان ہوگا، وہاں بے روزگاری میں بھی کس قدر اضافہ ہوسکتا ہے۔ 

خصوصاً جہادِ افغانستان کے نام پر، جس کی اب قلعی کھُل گئی ہے، نوجوانوں کو گم راہ کیا گیا اور اداروں کو رکاوٹ خیال کرکے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرّف کے غلط فیصلوں سے مُلک کو بے حد نقصان پہنچا، جس کے نتائج آج سب بُھگت رہے ہیں۔ ایک ادیب، قلم کار ہی اِن مسائل کے اسباب کی نشان دہی کے ساتھ، ازالے کے راستے بتا سکتا ہے، بشرطیکہ علم و ادب کو قومی جذبے کے تحت قبول کیا جائے۔ 

حُکم رانی سے بالاتر ہوکر سوچنے اور عمل ہی سے مُلکی وقار میں اضافہ ممکن ہے۔ انسانی عظمت کے مضبوط پرچار کے ذرائع سے فرار نے ایک قوم کو، قوم بننے سے روک رکھا ہے۔ کوئٹہ میں منعقدہ حالیہ پاکستان لٹریری فیسٹیول میں وزیرِ اعلیٰ اور دیگر صاحبانِ اقتدار کو احمد شاہ، ایوب کھوسہ اور مجھ سمیت ہر عوام دوست نے مسائل کے حقیقی حل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ 

یہ بات تو طے ہے کہ وہ تنزّلی کے اسباب سے واقف ہیں، مگر کہاں جاکر پھنس جاتے ہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے، مگر اب ڈنگ ٹپاؤ والا سلسلہ نہیں چلے گا۔ جب تک آپ اپنا مائیک عوام کو استعمال کرنے نہیں دیں گے، اگلے اپنا مائیک اُنھیں پیش کرتے رہیں گے۔ 

عجیب بات ہے، ہم سے ہر فورم پر پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے، حالاں کہ سب کو پتا ہے کہ بے روزگاری، پانی، صحت، گیس، تعلیم کی سہولتوں کی عدم فراہمی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مقامی باشندوں کی بے اختیاری، سفارش اور اقربا پروری وغیرہ یہاں کے بڑے مسائل ہیں۔ 

بلکہ اب تو کہا جاسکتا ہے کہ باقی صوبے بھی اِسی طرح کی صُورتِ حال سے دوچار ہیں۔ فنونِ لطیفہ، مسائل کی سلیقے سے نشان دہی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ پوری دنیا میں ان شعبوں کا وقار تسلیم شدہ ہے اور ہمیں بھی ہر حال میں ان کا مقام و اہمیت تسلیم کرنی ہوگی۔

س: کیا کہانیوں کے ذریعے صحیح بیانیہ پیش کیا جاسکتا ہے؟

ج: کیوں نہیں، جب مالکِ کائنات نے انسان کو بہت سی باتیں قصّوں، کہانیوں سے سمجھائی ہیں، پیغمبروںؑ اور صوفیا نے ان کا سہارا لیا، تو آج ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ کیا ہیروشیما، ناگا ساکی سے، دنیا میں ہونے والی بڑی بڑی ہجرتوں سے کئی کہانیاں جُڑی ہوئی نہیں ہیں؟اور سچ اور جھوٹ کا نتیجہ ان کہانیوں کے اختتام ہی پر سامنے آتا ہے۔ کہانی دو سطر کی ہو یا طویل، اس کا مقصد انسان کی عظمت بیان کرنا ہی ہوتا ہے۔

کہانیاں کسی بھی تہذیب کی بنیاد ہوا کرتی ہیں اور کہانیوں ہی سے ہیروز نکلتے ہیں۔ یہی سائنسی، اخلاقی اور سماجی تخلیقات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ بس، لکھتے یا پیش کرتے وقت اُن کے دیکھنے، سُننے اور پڑھنے والوں کو انڈراسٹیمیٹ(کم تر جاننا) نہیں کرنا چاہیے۔ کہانیوں میں محبّت کے رویّے زیادہ اہم ہوتے ہیں اور محبّت کو بھونڈے انداز میں پیش کرنے سے بھی نفرت پیدا ہوتی ہے۔

س: کیا ہمارے ہاں اب بھی معیاری فلمز بن سکتی ہیں؟

ج: کیوں نہیں۔ اب بھی اچھے اور بڑے فلم میکر کام کررہے ہیں، لیکن ماحول نہیں بن رہا۔ ماحول، ریاستیں بناتی ہیں اور عوام جس روز وحشت و دہشت کے ماحول سے نکلیں گے، وہ ایک دوسرے سے پیار کریں گے، احترام کا جذبہ پیدا ہوگا، ہر شخص اپنے وجود سے مطمئن ہوگا، وگرنہ اِتنے بڑے طبقاتی فرق کے ساتھ جینا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔

ہمیں کرپشن کے ناسور سے جان چُھڑوانی ہوگی اور یہ سب کچھ آپ کو فلم اور ڈراما ہی بتائیں گے۔ کیا موجودہ بے راہ روی، ظلم، ناانصافی اور عریانیت، کتاب اور کہانیوں سے آئی ہے؟

س: آپ نے اداکاری بھی کی ہے؟

ج: فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہر شخص اداکار ہوتا ہے۔ ایک اچھے رائٹر، ڈائریکٹر یا کیمرا مین اپنے اندر چُھپے اداکار سے کام لیتا ہے،کیوں کہ اگر وہ خود اداکار نہیں، تو اُنہیں اداکاری سمجھ کیسے آسکتی ہے۔

س: سوشل میڈیا پر’’ ناشپاتی‘‘ کے عنوان سے آپ کی گفتگو بہت پسند کی گئی؟

ج: دراصل میرے دوست قیصر نے کوئٹہ والوں کے مخصوص انداز ولہجے میں کی گئی میری گفتگو کو ریکارڈ اور پھر ایڈٹ کرکے چلایا، جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ مَیں تو بزرگوں کی کہانیوں اور محاوروں کو کسی خاص فکر سے جوڑ کر پیش کرتا رہتا ہوں، چوں کہ لکھنے کا کام زیادہ ہے، اِس لیے کبھی کبھار ہی فراغت کی صُورت میں کسی افسانے پر کام کرتا ہوں یا پھر’’ ناشپاتی‘‘ کا کردار بن کر محبّتیں بانٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔

س: کتنی زبانیں بول یا سمجھ لیتے ہیں؟

ج: بلوچی، براہوی، پشتو، دہواری، سندھی، انگریزی اور اردو۔ اردو، غریبوں کی زبان ہے، جب کہ انگریزی، فارسی اور عربی مقتدرہ کی زبانیں رہی ہیں۔ میرے لیے باقی زبانوں کے ساتھ، اردو بھی محترم ہے۔مَیں نے شاہ لطیف اور سچّل سرمست کو شیخ ایاز کے تراجم ہی کے طفیل سمجھا۔

س: دَم پُخت، ماں اور مامتا اور معصوم جیسے آپ کے بعض ڈراموں کا بہت چرچا رہا اور اب’’ کابلی پلائو‘‘ نے دھوم مچا رکھی ہے، یہ کہانی کہاں سے آئی؟

ج: یہ کہانی32 سال پرانی ہے، جب مَیں کچھ دنوں کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ نکلا تھا اور ایک شخص نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اپنی بیوہ بہن کے لیے رشتے کا مطالبہ کیا تھا۔ بس، وہی کہانی ذہن میں پکتی رہی اور بعدازاں’’ کابلی پلائو‘‘ کی شکل میں سامنے آئی۔

س: پہاڑوں کے بیچ رہتے ہوئے ہائیکنگ کا شوق تو ہوگا؟

ج: سچّی بات یہ ہے کہ مجھے آوارگی کا شوق ہے، جس میں سفر کرنا، پہاڑوں پر چڑھنا، ریگستان اور سمندروں کے نظارے دیکھنا شامل ہیں، جب کہ بلوچستان میں چلتن اور ہزار گنجی کے پہاڑی سلسلوں کی ایک الگ ہی خُوب صُورتی ہے،جو مجھے ازبر ہے۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: آج کل سبزی پسند کرتا ہوں کہ اِتنا انسانی خون دیکھنے کے بعد اب جانوروں کا خون اعصاب پر گراں گزرتا ہے۔

س: پوشاک میں کیا پسند کرتے ہیں؟

ج: چند شرٹس اور دو، چار جینز۔

س: خوش بُو کون سی پسند ہے؟

ج: جو، جیسا گفٹ کرے، پسند کرتا ہوں۔

س: اب تک کتنے ممالک کا سفر کرچُکے ہیں؟

ج: امریکا، روس، تھائی لینڈ، مراکو، ملائیشیا، بھارت، سنگاپور، سعودی عرب اور چند دیگر ممالک جا چُکا ہوں۔

س: آپ کی کوئی کتاب بھی چَھپ رہی ہے؟

ج: ہاں، ڈراموں پر مبنی کتابیں تیار ہیں، جب کہ ایک ناول بھی لکھ رہا ہوں۔نیز، مَیں براہوی زبان میں تحریر کردہ افسانے بھی چھاپنا چاہتا ہوں۔

س: کوئی خاص بات، جو آپ کہنا چاہتے ہوں؟

ج: بہت کچھ کہہ چُکا ہوں اور اکثر بولتا بھی رہتا ہوں کہ اپنے نوجوانوں کو اپنی کہانیاں سُنائیں، وگرنہ وہ اِسی طرح دوسروں کی کہانیاں سُن سُن کر آپ سے بیگانے ہوتے جائیں گے۔ اپنی کہانیوں کے ساتھ اپنی شناخت کروائیں، مادری زبانوں کو اہمیت دیں کہ وہ بڑی زبانیں تعلیمی اداروں میں سیکھ لیں گے۔ مادری زبانوں سے آپ کی تاریخ، ثقافت جُڑی ہوتی ہے، جو آپ کا فخر ہے، وگرنہ آپ کے بیانیے، رابطوں اور رومانس میں تعطّل پیدا ہوتا رہے گا۔ 

آپ کے اپنے محاورے، ضرب الامثال، خُوب صُورت شاعری، لوک کہانیاں اور اقدار گم ہوجائیں گی، جو زندگی کی خُوب صُورتی کا تسلّسل ہیں۔ اپنے بزرگوں کے شعور، اخلاص، محبّت اور انسان دوستی کو ساتھ لے کر چلنے ہی میں ہماری بقا ہے کہ تصویر کو ہمیشہ صاف خدّوخال کے ساتھ ہی پیش کیا جاتا ہے، پُشت سے لی گئی تصویر، تصویر نہیں ہوتی۔

سنڈے میگزین سے مزید