• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو مُلک بَھر میں گندم کی فصل کی کٹائی اپریل کے مہینے سے شروع ہو جاتی ہے، مگر ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر میں موسم سَرد ہونے کی وجہ سے مُلک کے دیگر حصّوں کی نسبت یہاں گندم کی فصل کافی تاخیر سے تیار ہوتی ہے۔ 

ان دنوں ہزارہ ڈویژن میں گندم کی فصل کی کٹائی کا عمل شروع ہو چُکا ہے اور گندم کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر کسان ایک جانب خوش دکھائی دیتے ہیں، تو دوسری طرف موسمی تغیّرات کے باعث خاصے پریشان بھی ہیں۔ بہر کیف، ہمارا موضوع آج سے دو دہائیاں قبل گندم کی کٹائی اور گہائی (گندم کی بالیوں سے اناج الگ کرنا) سمیت اسے ذخیرہ کرنے کے مراحل اور ان سے جُڑی روایات ہیں۔ 

ان دنوں تو تھریشر کی مدد سے گندم کی کٹائی کی ہوتی ہے، جب کہ آج سے تقريباً 20برس قبل تھریشر کا تصوّر بھی موجود نہیں تھا، اسی لیے جب گندم کی فصل تیار ہو جاتی، تو کاشت کاروں اور اُن کے اہلِ خانہ کو اس کی کٹائی کی فکر لاحق ہو جاتی۔ اس دوران اگر آسمان پر بادل کے چند ٹکڑے بھی نظر آ جاتے، تو لوگ تشویش میں مبتلا ہو جاتے اور بارش نہ ہونے کی دُعائیں مانگنے لگتے، لیکن دوسری جانب فصل کی کٹائی سے فارغ ہونے والے افراد ابرِ رحمت برسنے کی تمنّا کرتے، تاکہ انہیں اگلی فصل کاشت کرنے میں آسانی ہو۔ 

اُس زمانے میں کھیتی باڑی کا کام مویشیوں سے لیا جاتا تھا اور گہائی کے لیے بھی بیل استعمال کیے جاتے تھے۔ گندم پکتے ہی سب لوگ لوہاروں کے پاس اپنی درانتیاں تیز کروانے پہنچ جاتے یا پھر گھر میں ’’ہوائی‘‘ نامی اوزار سے اُنہیں تیز کرتے۔ ہر گھر میں درانتیاں تیز کرنے کا ایک ’’اسپیشلسٹ‘‘ ہوتا تھا، جس کے اطراف درانتیوں کا انبار لگ جاتا۔ اُس زمانے میں بڑھئی اور لوہار کھیتی باڑی کے اوزاروں کی تیاری اور اُن کی مرمّت کے عوض رقم کی بہ جائے گندم کی ایک مخصوص مقدار وصول کرتے تھے۔ نیز، لوگ بھٹّی گرم کرنے کے لیے لوہار کے پاس کوئلے بھی ساتھ لے کر جاتے تھے۔

گندم کی کٹائی شروع ہوتے ہی گھر کے تمام مَرد صبح سویرے کھیتوں کی جانب روانہ ہو جاتے اور خواتین بھی گھر کے ضروری کام نمٹا کرتقریبا ً دس بجے چائے کے ساتھ کھیتوں کا رُخ کرتیں۔ گھر کے تمام افراد گندم کاٹتے، جب کہ ایک فرد کی ذمّے داری گندم کے گٹھّے باندھنا ہوتی تھی، جس کے لیے گھر کے سربراہ کی طرف سے بار بارایک ہی تاکید آتی کہ ’’بیٹا! گٹھّے مضبوطی سے باندھنا۔‘‘ مختلف مقامات سے گندم کی فصل اُٹھا کر ’’ڈوگے‘‘ یعنی کھیت میں ایک جگہ جمع کرنا بھی ایک دُشوار مرحلہ ہوا کرتا تھا ، جب کہ اُس گندم کو بارش سے بچانے کے لیے بھی بڑے جتن کیے جاتے تھے۔

تین سے چار روز تک دُھوپ میں رکھے رہنے کے بعد جب گندم مکمل طور پر خُشک ہو جاتی، تو پھر اُس کی گہائی یا گندم کی بالیوں سے اناج جھاڑنے کا مرحلہ شروع ہوتا۔ چوں کہ اُس دَور میں تھریشر نہیں ہوتا تھا، لہٰذا گہائی بیلوں اور گدھوں کی مدد سے کی جاتی۔ پہلے یہ جانور گندم کی بالیوں کو اپنے پیروں سے روندتے اور پھر ان سے اناج جھاڑ کر الگ کیا جاتا۔ گہائی کے لیے اتوار کا دن مخصوص تھا، کیوں کہ اُس روز اسکولز کی چھوٹی ہوتی تھی اور یہ سرگرمی بچّوں کے لیے بھی کسی تفریح سے کم نہیں ہوتی تھی ، جو سال بَھر گندم کی گہائی کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔

گہائی کے لیے کھیت کے ایک صاف اور ہم وار حصّے میں، جسے مقامی زبان میں ’’کھلاڑا‘‘ کہا جاتا ہے، گندم کی ڈھیریاں لگا دی جاتیں ۔یاد رہے، گہائی شروع ہونے قبل گندم کی بالیوں سے نکلنے والی مخصوص قسم کی تیلیوںکی مدد سے خواتین چنگیریں، جائے نمازیں اور دستی پنکھوں سمیت دیگر کئی روز مرّہ استعمال کی اشیا بھی تیار کرتیں۔ گہائی کے لیے ’’کھلاڑے‘‘ کے عین وسط میں ایک بہت بڑی اور مضبوط لکڑی کو، جسے مقامی زبان میں ’’کہلا‘‘ کہا جاتا ہے، نصب کر دیا جاتا اور اس کے چاروں اطراف چکنی مٹی سے لپائی کر دی جاتی۔ 

مٹّی خُشک ہو جانے کے بعد ایک مخصوص مقام پر گندم کے گٹّھے کھول کر رکھ دیے جاتے۔ اور پھر بیل اور گدھے انہیں اپنے پیروں تلے اس انداز سے روندتے کہ گندم کی بالیوں سےاناج الگ ہو جاتا۔اس دوران جانوروں کو رسّیوں کی مدد سے کھلاڑے کے عین وسط میں نصب کردہ مضبوط لکڑی سے باندھ دیا جاتا اور یہ دائرے کی شکل میں چکر لگاتے رہتے۔ گہائی کے دوران جانوروں کے پیشاب یا گوبر سے گندی ہو جانے والی گندم کو الگ کر لیا جاتا، جسے بعد ازاں مرغیوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ اس دوران ایک شخص ہاتھ میں ڈنڈا لیے تقریباً پانچ فٹ کی دُوری سے زمین پر بکھرنے والی گندم کی بالیوں کو ڈھیریوں پر جمع کرتا رہتا، تاکہ اُن کی بھی گہائی ہو سکے۔

اس دوران بچّوں کو تفریح کے بھرپور مواقع ملتے۔ وہ کاشت کاروں کی طرح اپنے سَروں پر رومال باندھ کر خُوب شور شرابا کرتے اورگندم کی ڈھیریوں پر قلابازیاں کھاتے۔ رات تک گندم کی بالیوں سےاناج الگ ہو جاتا۔ گندم کے سِٹّوں سے اناج اور بُھوسے کو الگ کرنے کے لیے انہیں ہوا میں اُچھالا جاتا، تو دانے زمین پر گر جاتے، جب کہ بھوسا ہوا کے دبائو سے الگ ہو جاتا۔ دوسری طرف خواتین بھی’’ چھَج‘‘ (چھاج) میں گندم ڈال کر اس سے بھوسے کو الگ کرتی رہتیں۔ گندم سے بھوسے کو الگ کرنا خاصا محنت طلب کام تھا۔ 

بعد ازاں، لکڑی سے بنے ایک مخصوص تھال نما پیمانے سے، جسے مقامی زبان میں ’’اوڈی‘‘ کہا جاتا ہے، گندم کا وزن کیا جاتا، جب کہ دوسری جانب بُھوسے کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک الگ مقام مختص کیا جاتا، جسے ’’پساڑھے‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر بُھوسا کھیتوں ہی میں ذخیرہ کیا جاتا، بالخصوص موسمِ سرما میں، جب مویشیوں کے کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا، تو انہیں یہی بُھوسا کھلایا جاتا۔ 

صاف کی گئی گندم کو محفوظ کرنے سے قبل غُربا کو اُن کا حصّہ دیا جاتا اور اگلے سال بیج بونے کے لیے گندم کی الگ بوریاں بنائی جاتیں، جب کہ بچ جانے والی گندم کو ایک مرتبہ پھر تین سے چار روز تک دُھوپ میں خُشک کیا جاتا اور پھر بوریوں میں ڈال کر گھروں میں ذخیرہ کر لیا جاتا ، تاکہ بہ وقتِ ضرورت استعمال کیا جاسکے۔

گندم کی کٹائی سے لے کر اسے محفوظ کرنے تک کے تمام مراحل میں سب لوگ ایک دوسرے کی خلوصِ دل سےمدد کیا کرتے۔ اور پھر …وقت نے کروٹ بدلی اور مشینوں کی مدد سے گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہونے لگا اور لوگوں نے اپنی خدمات کے عوض رقم وصول کرنا شروع کر دی۔ 

اب گندم کی کٹائی سے لے کر گہائی تک اور دانے صاف کرنے سے لے کر بُھوسا ذخیرہ کرنے تک ہر کام پیسوں کے عوض کیا جاتا ہے اور پھر سب روتے دھوتے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اب زمین داری کے کام میں بچت کوئی نہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب پہلے جیسا اتحاد و اتفاق اور برکت نہیں رہی۔

سنڈے میگزین سے مزید