• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال کی طرح شنید ہے کہ ملک میں گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی پروگرام گدھوں کیلئےبھی ہوتا تو شاید ملک میں گدھوں کیاس قدر نہ بڑھتی، لیکن مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ ملک میں ہم نے گدھوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تو گن لی مگر ہم بے روزگار نوجوانوں کو گننے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں گدھوں، مرغیوں، بھینسوں اور کٹوں پر ہی سارا دھیان رہا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی حکومت میں گدھوں اور کٹوں کو فوقیت حاصل تھی۔ اور یہی حال موجود حکومت کا بھی ہے۔ بے روزگارنوجوانوں میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ نوجوان بیرون ملک جانے کیلئے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں کیوں کہ مہنگائی آسمان تک پہنچ چکی ہے، غربت بڑھ رہی ہے، غربت کا تعلق ملک میں کرپشن سے ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان تباہ ہوگیا تھا مگر گڈ گورننس سے اب جاپان میں کوئی غریب نہیں ، وہاں غربت میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ وسائل سے مالا مال پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زائدحصہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہاہے۔ جہاں کرپشن ہوتی ہے وہاں ترقی ممکن نہیں، حکومتیں کرپٹ ہوں گی تو یقینی طور پر عوام غریب ہوںگے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں غریب امیروں کو کھانا کھلاتا ہے جو حقیقت کے قریب ہے۔ پوش علاقوں کے اطراف میں، ہمیں کچی بستیاں ملتی ہیں جن کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کچی بستیوں میں رہنے والے بچے اور خواتین امیروں کے طرز زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔وہ پوش علاقوں کے امیر گھرانوں میں نہایت کم اجرت پر نہ صرف اپنی خدمات پیش کرتے ہیں بلکہ دوران خدمات تشدد کا بھی سامنا کرتے ہیں۔درحقیقت، جب ترقی یافتہ ملکوںسے امیروں کے رشتہ دار ان سے ملنے آتے ہیں، تو وہ ان پر رشک کرتے ہیں کیونکہ ان کے گھر کے تمام کام کچی آبادیوں کے ملازم انتہائی کم اجرت پر انجام دیتے ہیں۔ بچوں کو ملازمت پر مجبور کرنا غیر انسانی اور غیر قانونی ہے، لیکن لوگوں کو اس بدعنوانی کیلئےشاذ و نادر ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیادہ ترپارلیمنٹرین دیکھ لیں، ان کے گھروں میں جب بھی آپ جائیں گے تو 5 سے 12 سال کا کوئی بچہ یا بچی آپ کو پانی پلائے گا یا گھر کے دیگر کام کرتا نظر آئیگا۔ اور یہ ہی پارلیمنٹرین آپ کو مزدوروں کے دن بھاشن دیتے نظر آئینگے۔ غریبوں کو منصفانہ سلوک اور غربت سے باہر نکلنے کیلئے برابری کے میدان کی دستیابی کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ شہروں کے آس پاس کچی آبادیوں میں بنیادی سہولتیں نہ ہوں اور وہ پھر بھی ترقی کریں۔ حکومتوں کو غریبوں کی سہولت کیلئے دانشمندانہ اقدامات کرنا ہونگے۔غریبوں کیلئے کچی آبادیوں کی جگہ جدید شہر بنانے ہونگے۔ ہمیں ان ممالک کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو دیکھنا چاہیے جو پاکستان کی جی ڈی پی کے برابر تھے مگر غربت کے خاتمے میں کامیاب ہوئے۔ جنوبی کوریا ایسی ہی ایک مثال ہے۔ دہائیوں پہلے، جنوبی کوریا میں فی کس آمدنی تقریباً وہی تھی جو پاکستان میں تھی۔ پینسٹھ سال بعد دونوں معیشتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کی فی کس آمدنی میں تین گنا جبکہ جنوبی کوریا کی آمدنی میں 32گنا اضافہ ہوا ہے۔کوریا کی تقلید کیلئےپاکستان کو ایسی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جو پوری آبادی کو اچھی صحت، معیاری تعلیم اور قدرتی آفات جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کیساتھ بااختیار بنا کر بہتر معاشی نتائج فراہم کریں۔ پاکستان کے نوجوانوں کو ہنر اور علم سے بااختیار بنانا ایک اور سرمایہ کاری ہے جو غربت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ نوجوانوں کو جدید ہنر سے آراستہ کر کے نہ صرف بھوک و افلاس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ مہنگائی کی کمر بھی توڑی جا سکتی ہے۔ان نوجوانوں کو نہ صرف ملک میں نوکریاں ملیں گی بلکہ انہیں بیرون ملک روزگار کے بہترمواقع بھی میسر ہوں گے۔ پاکستانی تارکین وطن کی آبادی ملک کے اندر اور باہر درکار مہارتیں فراہم کرنے کے محتاط اور منصوبہ بند طریقہ کار کے ذریعے پانچ سال میں دوگنا ہو سکتی ہے۔ترقی یافتہ معیشتوں میں عمر رسیدہ آبادی کو ایسے نوجوان ہنر مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے محروم معیشتوں کو فروغ دیں۔ مسلسل اقتصادی ترقی کے بغیر، یہ عمر رسیدہ معیشتیں اپنی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کیلئے وسائل پیدا نہیں کر پائیں گی اور یہ ہی حال پاکستان کا ہوسکتا ہے جس کی نوجوان آبادی سے ہم کوئی فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔پاکستان اگلے پانچ سال میں اپنے کارکنوں کی ترسیلات زر کو دوگنا کر کے 60 ارب ڈالر تک پہنچا سکتا ہے، اگر نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور جدید ہنر سے آراستہ کردیا جائے۔ پاکستان کا مزدور اگر ہنر مند ہوگا تو دنیا میں اس کی مانگ بڑھے گی۔ گدھے ایکسپورٹ کرنے کا پروگرام دینے والے ہنر مند نوجوان ایکسپورٹ کرنے کا پروگرام بنائیں اور اس حوالے سے آئی بی اے، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، قائد اعظم یونیورسٹی، ڈائو انجینئرنگ یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی، غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ جیسے اداروں سے خدمات لی جائیں۔

تازہ ترین