• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدت میں نکاح کیس: بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے عدت میں نکاح کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، عدالت کی جانب سے محفوظ فیصلہ 27 جون کو دن 3 بجے سنایا جائے گا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے درخواستوں پر سماعت کی جس کے دوران بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلاء بیرسٹر سلمان صفدر، خالد یوسف چوہدری اور خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری پیش ہوئے۔

مرکزی اپیلوں پر سماعت آج ہونے کی وجہ سے جلد سماعت کی درخواست غیر مؤثر ہو چکی تھی اس لیے عدالت نے جلد سماعت کی درخواست نمٹا دی۔

بعد میں عدالت نے بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی اور مرکزی اپیلوں پر سماعت بھی کی۔

بیرسٹر سلمان صفدر کے دلائل

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہئیں، میری ذمے داری عدالت کو بتانا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کون ہیں، ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہو چکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسکیوشن نے کہا کہ کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، شکایت کنندہ کے وکیل نے تاخیری حربے استعمال کیے ہیں، کبھی کہا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں ہیں، کبھی کہا گیا کہ بیرونِ ملک ہیں، اگر میرے مؤکل یہاں نہیں ہوتے تو میں کبھی نہ کہتا کہ میرے ہوتے ہوئے وہ بولیں، اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے کہا کہ سلمان صفدر ایک قابل وکیل ہیں اور ہر جگہ ان کی تعریف کی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اپیل کنندہ بشریٰ بی بی سابق وزیرِ اعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل بانیٔ پی ٹی آئی کو سزا سنائی گئی، بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے، بانیٔ پی ٹی آئی کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیے، سائفر کیس، توشہ خانہ کیس پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی، مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت تھا تو عدالت نے کہا کہ مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی؟ میں نے کہا کہ مرکزی اپیل سنیں، ورنہ میرے لیے آسان تھا کہ سزا معطلی پر دلائل دیتا، سائفر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا مگر اپیل دائر کر دی گئی، ٹرائل میں ہمارے وکلاء کو باہر نکالا گیا، دیر تک سماعتیں چلیں، ہائی کورٹ کے لیے آسان تھا کہ کیس ریمانڈ بیک کرنا مگر نہیں ہوا، میرٹ پر فیصلہ ہوا۔

جج افضل مجوکا نے بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ میڈیکل گراؤنڈ پر بھی سزا معطلی کی درخواست کریں گے؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس میڈیکل گراؤنڈ سے متعلق میں آخر میں بات کروں گا، میری کلائنٹ بنی گالا کے اے سی بند کر کے جیل گئیں۔

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف نے کہا کہ پھر تو جیل ان کے لیے ٹھیک ہے، وہی رہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر سماعت ہوں تب بھی ہائی کورٹ کے پاس سزا معطلی کے اختیارات ہیں، میری کوشش تھی کہ بشریٰ بی بی عید سے پہلے گھر آجاتیں، سلمان اکرم راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ وہی جج فیصلہ کریں جنہوں نے کیس سنا، جب ہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں گئے تو ایک ایک چیز بتائی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ نیچے کیا چل رہا ہے، شکایت کنندہ بار بار تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10 روز میں سزا معطلی اور 30 دن میں مرکزی اپیلوں پر فیصلے کا کہا ہے، جب سزا دینی ہو تب فٹا فٹ اور اپیل پر دھیرے دھیرے سماعت ہوتی ہے، اب میں سزا معطلی کی درخواست کے لیگل معاملات پر آتا ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ کو علم تھا کہ نیچے کیا چل رہا ہے 15 دن اپیل سنی گئی، میری خواہش تھی کہ میری درخواست پر عید سے پہلے فیصلہ ہو 7 اور 3 منٹ کا معاملہ تھا۔

جج افضل مجوکا نے کہا کہ 12 جولائی تک وقت ہے، اس سے پہلے بھی فیصلہ ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سزا معطل ہو جائے کچھ دن اور ٹھہر جائیں گے، اپیل سیشن کورٹ میں ہو پھر بھی ہائی کورٹ کے پاس سزا معطلی کا اختیار ہے، میں جیل میں بے نظیر کیس، اجمل قصاب کیس کے لیے جاتا رہا، مگر اب عدت کیس میں جانا پڑا، کبھی لکھا تو اس کیس پر ضرور لکھوں گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شادی کیس میں آپ اپنا کام چھوڑ کر جیل میں ٹرائل کریں، میں بھی جیل میں ہوتا تھا، ایک کے بعد ایک کیس ہوتا تھا، کیا ضرورت تھی کہ ایک جج 8 بجے جیل ٹرائل کرے، یہ آدھی رات تک چلتا رہا،عثمان گِل نے عون چوہدری سے پوچھا آپ نے گھڑی کونسی پہنی تو لڑائی ہو گئی، جج صاحب نے بھی کہا کہ اس سوال کا اس کیس سے کیا تعلق، میں نے کہا کہ میں بتاتا ہوں سوال کا مقصد، یہ بتائیں گھڑی پر ٹائم کیا ہے تو 8 بجے تھے، اس وقت بھی ہماری جرح کا آغاز ہوا تھا، صرف 3 دن میں فیصلہ کیا گیا کہ ہمارے ساتھ ون ٹو تھری کیا گیا۔

وکلاء میں مزاحیہ جملوں کا تبادلہ، عدالت میں قہقہے

سلمان صفدر اور خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کے درمیان مزاحیہ جملوں کا تبادلہ ہوا جس پر عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ الزام ہے کہ جرم کا ایک حصہ اسلام آباد اور ایک لاہور میں ہوا۔

جج افضل مجوکا نے کہا ہے کہ میرے ذہن میں ایک بات ہے بعد میں بتاؤں گا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جب اسلام آباد میں لگنے والا الزام 496 بی ختم ہو گیا تو کیس لاہور کیوں نہیں گیا، جب اسلام آباد میں کسی جرم کا الزام ہی نہیں تو کیس لاہور جانا تھا۔

اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر نے ٹرائل کورٹ کے عدالتی دائر پر ایک مرتبہ پھر اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ شکایت کنندہ نے پہلے کہا کہ مرکزی اپیل، پھر کہا سزا معطلی پر دلائل دیں، ہمیں گواہان کو بلانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی، ہمارے گواہان کے طور پر بشریٰ بی بی کے بچوں نے پیش ہونا تھا، اگلے دن صبح کیس کا فیصلہ سنا دیا مگر ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔

اپیل کنندہ کے وکیل کی جانب سے اس موقع پر گواہان طلبی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ پڑھا گیا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدت کیس میں آدھی رات تک سماعت چلتی رہی۔

جج افضل مجوکا نے کہا ہے کہ عموماً عدالتیں 5 سال تک کی سزا کو مختصر سزا کہتی ہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 8 سال تک کی سزا کو معطل کروایا ہے۔

سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کے لیے مضبوط گراؤنڈ ہے کہ اپیل کنندہ خاتون ہے، اپیل کنندہ 5 بچوں کی ماں ہے۔

سلمان صفدر نے ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 496 بی میں کہیں بھی عدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔

جج افضل مجوکا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ججمنٹ سے متعلق میرے سوال ہیں، آپ نے جن نکات کی بات کی تھی وہ 5 رکنی بینچ کالعدم قرار دے چکا ہے، میں نے قانون کا مطابق فیصلہ کرنا ہے اور قانون کے مطابق ہو گا، دورانِ عدت اگر خاوند مر جاتا ہے تو کیا خاتون کو وراثت میں حصہ ملے گا؟ اس سوال سے متعلق مرکزی اپیل پر آپ نے مجھے مطمئن کرنا ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ شکایت کنندہ گواہان میں اس کے بچے بھی شامل نہیں ہیں، اس کیس میں ایک سیاسی پارٹی کا رہنما گواہ ہے، ہم نے سارے کیسز بہادری سے لڑے، دہشت گردی کے کیسز بناتے، کوئی اور بناتے مگر عدت میں شادی کا کیس بنا دیا گیا، عدت کیس میں انتہائی سزا 7 سال دی گئی، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دونوں اندر ہیں تو کس نے کس کے ساتھ فراڈ کیا، ایک شحص کہتا ہے کہ میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی لیکن 6 سال ہوش نہیں آیا، 2 ہزار دن بنتے ہیں جب جاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کیس تو ادھر ہی ختم ہو گیا، ایک شحص جو 6 سال بعد عدالت آتا ہے 5 بچوں میں سے ایک بھی اس کے ساتھ نہیں، عون چوہدری جیسے لوگ ساتھ آتے ہیں جو ایک دوسری پارٹی کے ممبر ہیں، یہ کیس بیلو دی بیلٹ کیس ہے، یہ پراسیکیوشن انتہائی قابلِ اعتراض ہے، جج کو اس شکایت میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا، اس کیس کی غلط تشریح ہوئی، یہ ایسا التواء ہے جس کی کوئی نظیر نہیں بنتی، جس طرح سے کیس سنا گیا وہ انتہائی قابلِ اعتراض ہے، ٹرائل میں آرٹیکل 10 اور حقائق کو نظر انداز کیا گیا، 16 جنوری کو بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فردِ جرم عائد کی گئی، آپ کے اوپر کیا پریشر تھا کہ غیر موجودگی میں فردِ جرم عائد کی گئی، عدالتی وقت کے بعد ٹرائل کیوں ہوا یہی کافی ہے کیس سزا معطلی کا ہے، سخت سردی میں رات کو یہ ٹرائل ہوا، جج صاحب کی ایک مہربانی ہے، چائے کا پوچھتے رہے، اس سے متعلق دیگر کیسز وہ ہوں گے جن میں درخواست بر وقت ہو گی، دوسرے کیسز میں گواہان کو پیش کرنے کا پورا موقع ملا ہو گا، اس کیس کے پورے تناظر کو بھی دیکھنا ہو گا، 2 سال سے ہم ضمانتیں مانگ مانگ کر اور ضمانتیں لے کر پاگل ہو گئے ہیں، سب سے اہم گراؤنڈ ہے کہ یہ 496 کا کیس بنتا کیسے ہے؟ فراڈ اور دھوکا کس کے ساتھ ہوا ہے؟ عدت کے دوران شادی کوئی جرم نہیں، 7 سال سزا تو دور کی بات ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بے ضابطگیاں کی گئیں، اگر پہلے ضمانت ہوئی ہو اور مس یوز نہ ہو تو سزا معطلی یقینی ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان شکایت کنندہ کی غیر موجودگی میں ملتے رہے، یہ فراڈ ہے، یہ جج صاحب نے کیا لکھ دیا اور اسے فراڈ قرار دیا، یہ بے ہودہ کیس ہے، وکیل ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے بہت مشکل تھا۔

بشریٰ بی بی کی فی الفور سزا معطلی کی استدعا

سلمان صفدر نے عدالت سے فی الفور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی استدعا کر دی۔

اس کے ساتھ ہی بشریٰ بی بی کے وکیل سلمان صفدر نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل مکمل کر لیے۔

سماعت میں مختصر وقفہ

عدالت نے عدت میں نکاح کیس میں سزا معطلی اور مرکزی اپیلوں پر سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔

خاور مانیکا کے وکیل کے دلائل

سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے سزا معطلی کی درخواست کی مخالفت کر دی اور کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ اپیل کنندگان کا کیس سزا معطلی کا ہے یا نہیں، اپیل کنندہ کے وکلاء نے خاور مانیکا کے لیے جھوٹے شخص کے الفاظ استعمال کیے، جھوٹا کون ہے؟ مفتی سعید، خاور مانیکا یا بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی؟ جو انٹرویو چلایا گیا ہے اس کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے، خاور مانیکا کے بیٹے نے اسی انٹرویو میں کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کا نکاح بشریٰ بی بی سے نہیں ہوا، یہ جھوٹا الزام ہے، یو ٹرن کا لفظ بانیٔ پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کروایا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جھوٹا کون اور سچا کون ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ اصل میں جھوٹا کون ہے، 7 جنوری کو پی ٹی آئی نے بیان دیا کہ بانیٔ پی ٹی آئی نے بشریٰ بی بی کو شادی کا پروپوزل بھیجا ہے، بیان میں کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کا جواب آنے پر بانیٔ پی ٹی آئی باقاعدہ اعلان کریں گے، یکم جنوری کے نکاح کو اپیل کنندگان کی جانب سے جھٹلایا گیا۔

خاور مانیکا کے وکیل نے عدالت میں گانا گنگنا دیا

اس موقع پر خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے عدالت میں نکاح قبول کرنے کی مناسبت سے گانا گنگنا دیا۔

وکیل زاہد آصف نے دورانِ دلائل بالی وڈ فلم خدا گواہ کا گانا ’تو مجھے قبول، میں تجھے قبول‘ گا کر سنایا۔

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ہونا ضروری ہے، ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

اس موقع پر زاہد آصف ایڈووکیٹ کی جانب سے متعدد قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام احادیث کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کون جھوٹا اور سچا ہے، قرآن و سنت کے مطابق گواہان کے بغیر نکاح جائز نہیں، خاتون کی پرائیویسی کے بارے میں بات کی گئی لیکن فیملی کی پرائیویسی کا ذکر نہیں کیا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ جھوٹا کون ہے، درخواست گزار کی بیوی کو ورغلانے والا، عدت میں نکاح کرنے والا جھوٹا ہے یا مفتی سعید اور دیگر، بڑا شور مچا رہے ہیں، خاتون کا بیان دکھائیں تو صحیح خاتون کا بیان ہے کہاں؟ کہتے ہیں کہ عورت کا کہہ دینا کافی ہے، یہ تو بتائیں عورت نے کہا کب؟ وہ بیان کدھر ہے؟ بشریٰ بی بی کا عدت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں ہے، مفتی سعید پہلے کور کمیٹی کا ممبر تھا تو اچھا تھا، جب مفتی سعید ان کا مخالف ہوا تو برا بن گیا، ہر کیس میں مختلف اسٹیج ہوتے ہیں، پہلا فردِ جرم، دوسرا 342 کا بیان ہونا، سلمان صفدر نے کہا کہ بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں فردِ جرم عائد کی گئی، جب فردِ جرم عائد کی گئی بشریٰ بی بی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں، دستخط کے وقت چلی گئیں، یہ کہتے ہیں کہ بچوں نے پیش ہونا تھا، کس کے بچوں نے پیش ہونا تھا؟اس سے متعلق عدالت کو نام نہیں فراہم کیے گئے تھے، فردِ جرم بشریٰ بی بی کی موجودگی میں عائد ہوئی، جب دستخط کا کہا گیا تو وہ عدالت سے چلی گئیں، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چارج بشریٰ بی بی کی غیر موجودگی میں ہوا، کہا گیا کہ بچوں کو پیش نہیں ہونے دیا، حق نہیں دیا گیا، کس کے بچوں نے پیش ہونا تھا یہ نہیں بتایا گیا۔

جج افضل مجوکا نے کہا کہ اپیل کنندگان کہتے ہیں کہ چلہ کروایا گیا جس کے بعد شکایت دائر ہوئی، اس پر بتائیں، بد نیتی کا تعلق حالات و واقعات سے ہوتا ہے، کیا گرفتاری کے بعد ایسے حالات نہیں تھے؟

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی نہیں ایسے حالات نہیں تھے، ایک تحقیقاتی ادارے کی جانب سے تفتیش کے لیے گرفتار کیا گیا۔

جج افضل مجوکا نے کہا کہ جب شکایت واپس لی گئی تو کیس بریت کا بنتا ہے، جج صاحب نے کیا لکھا؟

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں نے وہ فیصلہ نہیں پڑھا۔

جج افضل مجوکا نے سوال کیا کہ کیا جو پہلے والی شکایت واپس لی گئی تو چارج فریم ہوا تھا کہ نہیں؟ فراڈ کوئی ایسا ایکٹ نہیں ہے، 2006ء میں یو کے نے ایکٹ متعارف کروایا، اس کیس میں فراڈ کیا ہوا یہ بتائیں؟ کیا کوئی پریشر یا دھمکی تھی کہ خاور مانیکا اگر شکایت درج کریں گے تو نتائج ہوں گے؟

خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اس کی ضرورت نہیں تھی، دھرنا اور بانیٔ پی ٹی آئی کے وزیرِ اعظم بننے کے حالات سامنے ہیں، کیا ایک عام آدمی جو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہو وزیرِ اعظم سے ٹکر لے سکتا ہے؟ میں کچھ چیزوں پر ابھی دلائل نہیں دوں گا، اس حوالے سے سورۂ طلاق کی آیات بڑی واضح ہیں، جج صاحب کے حوالے سے کہا گیا، تو کیا ان کے خلاف کوئی درخواست دی گئی تھی؟

خاور مانیکا کے وکیل کے دلائل مکمل

اس کے ساتھ ہی شکایت کنندہ کے وکیل زاہد آصف نے سزا معطلی کی اپیل پر دلائل مکمل کر لے جس کے بعد سلمان صفدر نے جواب الجواب دلائل دیے۔

بیرسٹر سلمان صفدر کے جواب الجواب دلائل

بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ زاہد آصف ایڈووکیٹ کے دلائل میں صرف گانے کے سُر تھے، آج شکایت کنندہ کے وکیل نے کہا کہ دیگر سیکشن کا بھی اطلاق ہوتا ہے، سب چیزیں ایک طرف سزا معطلی کے لیے بشریٰ بی بی کا خاتون ہونا ہی کافی ہے۔

عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ مرکزی اپیل پر آپ کب میسر ہوں گے؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہم مکمل فری ہیں۔

جج افضل مجوکا نے کہا کہ ہم 2 جولائی کو کیس رکھ رہے ہیں۔

فیصلہ محفوظ، 27 جون کو سنایا جائے گا

اسلام آبادکی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے عدت میں نکاح کیس میں بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، یہ محفوظ فیصلہ 27 جون کو سنایا جائے گا۔

عدالت نے بشریٰ بی بی کی مرکزی اپیل، سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید