جب جنرل ضیاء الحق کے دَور میں پاکستان میں آزادیٔ اظہار کی سب سے بڑی جنگ لڑی جارہی تھی، تو معروف صحافی،احفاظ الرحمٰن اور ناصر زیدی اُس کی اگلی صفوں میں اپنے رہ نماؤں، منہاج برنا اور نثار عثمانی کے ساتھ کھڑے تھے۔ اپریل 2020ء میں جب کورونا وائرس کی وبا، کووِڈ- 19پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑ رہی تھی، تو اُنہی دنوں احفاظ الرحمٰن سرطان کے خلاف زندگی کی جنگ ہار گئے۔
اُن کی وفات پاکستان میں صحافتی حلقوں کے لیے ایک بہت بڑا، جب کہ اُن کے رفقائے کار اور دوستوں کے لیے ایک نا قابلِ تلافی نقصان تھا۔ بعد ازاں، احفاظ الرحمٰن کی اہلیہ، مہناز الرحمٰن اور بچّوں، رمیز اور تابندہ نے ’’احفاظ الرحمٰن ایوارڈ‘‘ کا اجرا کیا، جو صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیا جاتا ہے اور رواں برس یہ ایوارڈ معروف صحافی ناصر زیدی کو دیا گیا۔
جب بھی پاکستان میں صحافیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے، تو ایسے میں احفاظ الرحمٰن بہت یاد آتے ہیں۔ وہ ہم سب کے لیے ہمّت و حوصلے کی مثال ہونے کے علاوہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بھی طاق تھے۔ جب بھی اُنہیں یہ محسوس ہوتا کہ مُلک میں آزادیٔ اظہار کے دفاع کے لیے مہین آوازوں سے کام نہیں چل رہا، تو وہ بلند آہنگ انداز میں سڑکوں پر آجاتے۔ احفاظ الرحمٰن نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز 1960ء کے عشرے کے وسط میں کیا۔
اُس وقت پاکستان میں پہلے فوجی آمر، جنرل ایّوب خان کی حکومت تھی اور اُس نے پوری ریاستی مشینری کو اپنے قابو میں کر رکھا تھا، لیکن 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جب ایّوب خان نے دھاندلی کے ذریعے مادرِ ملّت، محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی، تو پاکستانی قوم اُن کے خلاف یک آواز ہو گئی۔اس موقعے پر ایّوب خان کی آمریت کو للکارنے والے جمہوریت پسندوں اور آزادیٔ اظہار کے حامی نوجوان صحافیوں میں احفاظ الرحمٰن پیش پیش تھے۔ نتیجتاً، ایّوب خان کی بہ ظاہر ناقابلِ تسخیر آمریت ڈگمگانے لگی۔ اُس زمانے میں چین میں ثقافتی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔
احفاظ الرحمٰن کو چین میں ملازمت کا موقع ملا، تو وہ بیجنگ منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے متعدد کُتب اور مضامین کے تراجم کیے۔ 1967ء سے 1969ء تک چین میں رہنے کے بعد جب وہ وطن لوٹے، تو ایّوب خان کی آمریت انہدام کے مراحل سے گزر رہی تھی، مگر ایک اور فوجی آمر، جنرل یحییٰ خان مُلک پر مسلّط ہو چُکا تھا۔ بہرکیف، 1970ء کے عشرے میں احفاظ الرحمٰن نے مختلف اخبارات و رسائل کے لیے خدمات انجام دیں، جن میں ’’الفتح ‘‘ اور ’’مساوات‘‘ وغیرہ شامل تھے۔
1977ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بُھٹّو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر غیر آئینی طریقے سے قبضہ کیا، تو اخبارات پرسخت پابندیاں عاید کی گئیں۔ اس موقعے پر منہاج برنا اور نثار عثمانی کے ساتھ مل کر احفاظ الرحمٰن اور دیگر ساتھیوں نے مُلک میں آزادیٔ صحافت کے لیے ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ لڑی۔
اس دوران احفاظ الرحمٰن کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں، جب کہ ناصر زیدی اُن چار بہادر صحافیوں میں شامل تھے، جنہیں سرسری سماعت کے بعد فوجی عدالت نے سرِ عام کوڑوں کی سزا سُنائی، پھر کئی دہائیوں بعد احفاظ الرحمٰن نے اس صحافتی جدوجہد کی داستان اپنی کتاب، ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ میں رقم کی، جو صحافیوں اور طلبہ کے لیے معلومات کا ایک اَن مول ذریعہ ہے۔ مذکورہ کتاب کا انگریزی زبان میں بھی ترجمہ ہو چُکا ہے، جب کہ اُن کی آخری جدوجہد جنرل پرویز مشرّف کی جانب سے عاید کردہ صحافتی پابندیوں کے خلاف تھی۔
2020ء میں اپنی آنکھیں بند ہونے تک احفاظ الرحمٰن درجن بھر سے زاید کُتب اور سیکڑوں مضامین و مقالات تحریر کر چُکے تھے۔ وہ نثر لکھنے کے علاوہ شاعری بھی کرتے تھے، جس میں وہ سیاسی و سماجی موضوعات پر کُھل کر اظہارِ خیال کرتے۔ وہ کشمیر سے فلسطین اور کمبوڈیا سے چلّی تک ہر جگہ مظلوموں کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوتے اور اُن سے اظہارِ یک جہتی کے لیے نظم و نثر دونوں سے کام لیتے۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کی رحلت کے بعد اُن کے خاندان نے ’’احفاظ الرحمٰن یادگاری ایوارڈ‘‘ کا اجرا کیا، جو آزادیٔ صحافت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے اور اب تک اس ایوارڈ سے امر جليل، عاصمہ شیرازی، حسین نقی اور ناصر زیدی کو نوازا جا چُکا ہے۔
ہر سال اس ایوارڈ کی تقریب میں، جو آرٹس کاؤنسل کراچی میں منعقد کی جاتی ہے، کسی اسکالر یا صحافی سے ’’احفاظ یادگاری خطاب (احفاظ میموریل لیکچر)‘‘ کی بھی درخواست کی جاتی ہے اور اب تک ڈاکٹر جعفر احمد، امر سندھو، مظفّر عباس اور ضرار کھوڑو یہ یادگاری خطاب کر چُکے ہیں۔
رواں برس غزہ میں جاری اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی مناسبت سے اس تقریب کو ’’فلسطین‘‘ سے منسوب کیا گیا اور ضرار کھوڑو سے اس ضمن میں خطاب کی گزارش کی گئی۔ انہوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے حوالے سے مغربی میڈیا کی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کا ’’قتلِ عام‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مغربی میڈیا کا دوغلا پَن سب کے سامنے ہے۔ مغربی میڈیا غزہ کے مظلوم افراد کے ضمن میں انتہائی جانب داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
یہ کوئی دو افواج کی جنگ نہیں ہے، بلکہ ایک طرف مظلوم فلسطینی خواتین، بچّے اور بوڑھے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مغربی میڈیا آزادیٔ اظہار کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، لیکن اسرائیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی ساری آزادیٔ اظہار کافور ہو جاتی ہے اور کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
یوں یہ کہنا بالکل دُرست نہیں کہ مغربی میڈیا اخلاقی طور پر ترقّی پذیر ممالک کے میڈیا سے افضل یا برتر ہے بلکہ وہ فلسطینیوں کے اس قتلِ عام میں برابر کا مجرم ہے، کیوں کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں ذہن سازی کرتا ہے اور فلسطین کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘