• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب ریاستیں، فلسطینیوں کی مدد کیوں نہیں کرتیں؟

جب بھی فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ چھڑتی ہے، تو پاکستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ عرب ریاستیں فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیوں نہیں کرتیں؟ خیال رہے کہ یہاں ’’مدد‘‘ سے مراد حماس کو عسکری امداد فراہم کرنا یا عرب افواج کا اسرائیل کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔ جب لوگوں کا اس سوال کا جواب نہیں ملتا، تو وہ شدّتِ جذبات سے مغلوب ہو کر عرب حکومتوں کو کوسنے لگتے ہیں۔

یاد رہے کہ عرب، اسرائیل جنگوں کے دو رُخ ہیں، مگر پاکستانی عوام صرف ایک ہی رُخ دیکھنے کے عادی ہیں، جب کہ عرب ممالک تصویر کا دوسرا اور بھیانک رُخ دیکھ چُکے ہیں۔ دراصل، عرب ریاستوں کو اپنی اور اسرائیل کی فوجی طاقت کا بہ خوبی اندازہ ہے اور وہ گزشتہ عرب، اسرائیل جنگوں میں ہونے والے اپنے نقصانات بھی نہیں بُھولیں۔ ذیل میں وہ وجوہ پیش کی جا رہی ہیں کہ جن کی بنا پر عرب ممالک فلسطینی مسلمانوں کی عسکری مدد سے کتراتے ہیں۔

1۔ سیاہ ستمبر:۔1970-71 ء میں لڑی گئی عرب، اسرائیل جنگ کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے اُردن میں پناہ لے لی اور جب ان پناہ گزینوں نے اُردن سے اسرائیل پر چھاپے مارکارروائیاں شروع کیں، تو اُردن کی حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اس کے ردِ عمل میں اسرائیل اس کی سرزمین پر حملہ کرسکتاہے۔ نتیجتاً، اُردن حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل پر حملے سے باز رہنے کا حکم دیا، مگر انہوں نے اسرائیل کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیاں جاری رکھیں۔ 

نیز، اُردن حکومت کے خلاف پورے مُلک میں مظاہرے بھی شروع کر دیے۔ تاہم، اُردن حکومت نے ان مظاہروں کو نظر انداز کر دیا اور جب فلسطینی باشندوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کے احتجاجی مظاہروں کا اُردنی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا، تو انہوں نے اُردن کی ایئر لائن کے چار طیّارے مسافروں سمیت اغوا کر لیے اور پھر ان طیّاروں سے مسافروں کو اُتار کر انہیں اُردن ہی کے ایک ایئرپورٹ پر نذرِ آتش کر دیا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے اس انتہائی اقدام پر اُردن کے بادشاہ نے فلسطینی چھاپہ ماروں کے خلاف فوجی کارروائی کا حُکم دیا، لیکن اُردن کی فوج فلسطینی گوریلوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہ کر سکی۔

اُس زمانے میں پاکستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر اُردنی افواج کو تربیت دینے کے سلسلے میں اُردن میں موجود تھے۔ اُردن کے شاہ نے مذکورہ پاکستانی بریگیڈیئر سے اُردنی فوج کی کمان سنبھالنے اور فلسطینی گوریلوں کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی، جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ پھر ان پاکستانی بریگیڈیئر کی زیرِ نگرانی اُردنی افواج نے فلسطینی چھاپہ ماروں کے خلاف ایک سخت فوجی آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں پچیس سے تیس ہزار فلسطینی باشندے مار ے گئے اور ان کی گوریلا کارروائیاں دَم توڑ گئیں۔ 

تاریخ میں اس واقعے کو ’’سیاہ ستمبر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ابتدا میں عرب ریاستوں کے دل میں فلسطینی مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ موجود تھا ، لیکن جب انہوں نے اُردن میں فلسطینی چھاپہ ماروں کی کارروائیاں دیکھیں، تو وہ فلسطینی باشندوں کی مدد سے ہچکچانے لگے۔ 

یہی وجہ ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ایک سال ہونے والا ہے، لیکن عرب ممالک تو کُجا، غیر عرب ریاستیں بھی فلسطینی مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کی پیش کش نہیں کرتیں۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ ایران اور تُرکیہ بھی، جو بہ ظاہر فلسطین کے بہت ہم درد ہیں، اپنی سرحدیں فلسطینی مسلمانوں کے لیے کھولنے پر آمادہ نہیں۔ قصّہ مختصر، ہر اسلامی مُلک ہی فلسطینیوں کے باغیانہ مزاج سے گھبراتا ہے۔

2۔ پچھلی جنگوں سے سبق:۔عربوں نے اسرائیل سے چار جنگیں لڑیں اور ہر جنگ ہی میں عربوں نے نہ صرف اسرائیل کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی بلکہ اپنے بہت سے علاقے بھی گنوا دیے۔ ان تلخ تجربات کے بعد عربوں کے دماغ میں اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے تصوّر راسخ ہو چُکا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے جنگ کی صورت اُن کے ہاتھ شکست و رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا۔

3۔ مُلکی معیشت ، پہلی ترجیح:۔بیش تر عرب ممالک کی آمدنی کا واحد ذریعہ تیل ہے۔ ان کے پاس امریکا و یورپ کی طرح جدید ترین ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی چین و جاپان کی مانند مضبوط صنعتی نیٹ ورک۔ نیز، کچھ عرصے سے عرب ممالک ایک دُہرے چیلنج سے گزر رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ چیلنج شدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے کہ ایک جانب پوری دُنیا میں قدرتی تیل و گیس کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف توانائی کے ان قدرتی ذرائع پر اقوامِ عالم کا انحصار بھی بہ تدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب ان ممالک کے پاس تیل و گیس کے ذخائر تو ہوں گے، لیکن ان کا کوئی خریدار نہیں ہوگا۔ اس سنگین صورتِ حال نے عرب حکومتوں کی توجّہ مسئلہ فلسطین سے ہٹا کر اپنی معیشت کی طرف موڑ دی ہے۔ آج عرب ریاستیں اپنا انحصار تیل و گیس پر کم کر کے آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کر رہی ہیں۔ سو، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ عرب حُکم رانوں کی تمام تر توجّہ اپنی معیشت کی مضبوطی پر مرکوز ہے۔

4۔ دشمن کون…؟ ایرا ن یا اسرائیل:۔ جب تک ایران میں اسلامی انقلاب نہیں آیا تھا، تو اس وقت تک عرب ممالک اسرائیل ہی کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصوّر کرتے تھے اور اسرائیل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی حربی تیاریاں کرتے تھے۔ جب 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا، تو اُس وقت عرب ممالک نے اس واقعے کو ایران کا اندرونی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ تاہم، کچھ عرصے بعد جب ایرانی کی نئی انقلابی حکومت نے اپنے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کو دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کرنا شروع کیا، تو عرب ممالک کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔

پھر جب ایران، عراق جنگ ہوئی، تو عرب ممالک کو لگا کہ ان کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔ واضح رہے کہ عرب دُنیا دو مسالک میں منقسم ہے۔ ایک جانب شیعہ عرب ممالک ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور یمن ، جب کہ دوسری جانب سُنی عرب ممالک ہیں، جن میں سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات اور کویت قابلِ ذکر ہیں۔

موخر الذّکر عرب ممالک ایران پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ عرب ریاستوں میں مقیم شیعہ برادری کو بغاوت پر اُکساتا ہے ، جب کہ حالیہ حماس، اسرائیل جنگ سے یہ بات واضح ہو چُکی ہے کہ حماس اب مکمل طور پر ایران نواز تنظیم بن چُکی ہے اور عرب ممالک کو بھی یہ یقین ہو چُکا ہے کہ اگر فلسطین ایک آزاد ریاست بن گئی، تو یہاں ایران نواز حکومت قائم ہو گی اور اُنہیں یہ کسی صُورت برداشت نہیں۔

مذکورہ بالا حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب حکومتوں کو بزدل، بے حمیت اور امریکا و اسرائیل کا ایجنٹ یا غلام کہنا کسی طور دُرست نہیں۔ درحقیقت، ہم صرف عرب ریاستوں کو کوستے ہی رہتے ہیں اور معروضی حقائق جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح ایران اور تُرکیہ کو عالمِ اسلام کا رہبر قرار دینے والوں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان ممالک نے کتنی مرتبہ فلسطین کی خاطر اسرائیل سے براہِ راست جنگ کی۔ 

نیز، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یورپی ممالک سمیت دیگر غیر مسلم ریاستیں فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے میں اسلامی ممالک سے بھی آگے نکل گئی ہیں، لیکن ایران اور تُرکیہ نے اب تک فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کیا؟