• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

اگر کسی کے دل میں اپنے کسی بچھڑے عزیز، رشتے دار یا پرانے دوست سے ملنے کی سچّی لگن ہو، تو اللہ تعالیٰ اُس کی یہ آرزو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موڑ پر ضرور پوری کرتا ہے، اور پھر اگر یہ خواہش ’’حجازِ مقدّس‘‘ (خانہ کعبہ) میں پوری ہوجائے، تو کیاہی بات ہے۔ اسی تناظر میں یہ واقعہ، ہمارے ساتھ اُس وقت پیش آیا، جب ہم مارچ 1999ء میں اپنی والدہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے عرب گئے۔ 54 افراد پر مشتمل اس قافلے کے زیادہ تر افراد کا تعلق ہمارے آبائی شہر، جھنگ شاہی اور ضلع ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں سے تھا۔ 

مرکزی جامع مسجد جھنگ شاہی، ضلع ٹھٹھہ کے خطیب و پیش امام، الحاج مولانا فضل اللہ کے چھوٹے بھائی، حاجی حسیب اللہ، جنھیں ہم سب پیار سے ’’مانو بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے قافلے میں شامل تھے۔ رات 8 بجے ہم لوگ مکۃ المکرمہ کے علاقے ’’جروال‘‘ مکتب نمبر7پہنچ گئے۔ ہم نے3دن مکۃ المکرمہ میں قیام کیا اور دو عُمرے ادا کرنے کے بعد11مارچ کی رات بعد نمازِ عشاء مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ 

مدینے میں بارہ روز قیام کیا اور الحمدللہ، اس دوران متعدد بار روضۂ رسولﷺ پر حاضری کا شرف حاصل کیا، پھر مقدّس مقامات کی زیارت کے بعد نم ناک نگاہوں سے شہرِ مدینہ کی پُرنورفضاؤں کو الوداع کہہ کر مکۃ المکرمہ روانہ ہوگئے۔ پتا چلا کہ اس سال مانوبھائی کے چند قریبی رشتےدار بھارت کے شہر کیرالہ سے بھی حج کے لیے آنے والے ہیں۔ 

یاد رہے کہ مانو بھائی اکثر اپنی ایک پھوپھی اور کچھ رشتے داروں کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہوجایا کرتے تھے اور اُن سے ملنے کو بہت بے تاب نظر آتے تھے۔ مگر اللہ کے گھر میں لاکھوں کے اجتماع میں کسی دوسرے ملک سے آنے والے عازمین سے ملنا کسی طور ممکن نہ تھا،کیوں کہ25سال قبل موبائل فون کی سہولت عام تھی، نہ ہی میڈیا اتنا فاسٹ تھا۔

بہرحال،`22مارچ1999ء کو ہم رات گئے مکۃ المکرمہ پہنچ گئے۔ 26مارچ کو حج تھا اور اُس وقت تک کعبۃ اللہ میں عازمینِ حج کا رش بے پناہ بڑھ چکا تھا۔ ہم 23مارچ کی شام مانو بھائی کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کرنے کے لیے اپنی رہائش جروال سے حرم شریف کے لیے روانہ ہوئے، حالاں کہ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد سب کافی تھک چکے تھے، لیکن مانو بھائی کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اُس دن نہ چاہتے ہوئے بھی ہم حرم شریف پہنچ گئے۔ 

ابھی ہم مکّہ ہوٹل کے سامنے ہی تھے کہ مغرب کی نماز شروع ہوگئی۔ ہمیں بابِ عُمرہ کے باہر صحن میں مغرب کی نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد بابِ عُمرہ سے حرم شریف میں داخل ہوئے، تو بالکل سامنے سے ایک نوجوان آتا دکھائی دیا، جو چند ہی لمحوں میں ہمارے قریب سےگزر کر آگے بڑھ گیا،لیکن جوں ہی مانو بھائی کی نظر اُس پر پڑی، انھوں نے اچانک بَھرے مجمعے میں پیچھے مڑ کر زور سے آواز لگائی ’’عبدالغفار!!.... 

یہ سنتے ہی وہ نوجوان پہلے تو ٹھٹکا، پھر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا مانو بھائی کے قریب آگیا اور بولا ’’جی کیا بات ہے؟‘‘ مانو بھائی اس نوجوان سے مخاطب ہوکر فوراً بولے، ’’تمہارا نام عبدالغفار ہے؟‘‘ نوجوان نے حیرت سے مانو بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، تو انھوں نے پُرجوش لہجے میں اکٹھے کئی سوال پوچھ ڈالے کہ ’’تم بھارت کے شہر، کیرالہ کے فلاں علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ 

تمہارے والد اور والدہ، دادا، دادی، بہن بھائیوں کے یہ یہ نام ہیں؟‘‘ اپنے حوالے سے اتنی درست باتیں سن کر چند لمحوں کے لیے تو نوجوان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر مانو بھائی نے اُس سے پوچھا کہ ’’عبدالغفار! تم نے مجھے پہچانا؟‘‘ وہ نوجوان پہلے تو بڑی حیرت اور غور سے مانو بھائی کی طرف دیکھتا رہا، پھر یک دم چیخ کر بولا، ’’مانو بھائی! ‘‘ اور پھر اُن کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگا۔ اس دوران مانو بھائی بھی آب دیدہ ہوگئے۔ 

آس پاس موجود لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ نوجوان خاموش ہوا، تو مانو بھائی نے مجھ سے کہا، ’’اسحاق! مَیں نے تم سے ذکر کیا تھا ناں کہ میرے چچا کی فیملی بھی بھارت کے شہر، کیرالہ سے حج کی سعادت حاصل کرنے آرہی ہے۔ یہ میرا سگا چچازاد ہے۔ مَیں جب1980ء میں بھارت گیا تھا، تو اُس وقت یہ بہت چھوٹا تھا، لیکن آج 19سال گزر جانے کے باوجود مَیں نے لاکھوں کے مجمعے میں اِسے پہچان لیا۔‘‘ 

اُن دونوں کی اس مقدّس جگہ پر اس طرح اچانک غیر متوقع ملاقات پر مَیں بھی حیرت زدہ تھا۔ پھر عبدالغفارنے اُنھیں دوسری خوش خبری یہ دی کہ پھوپھو بھی اپنی فیملی کے ساتھ حج کے لیے آئی ہوئی ہیں، لیکن وہ اس وقت طائف میں ہیں اور 8ذی الحج کو منیٰ پہنچیں گی۔ 

مانو بھائی کی اُن سے بھی ملنے کی شدید خواہش تھی، لہٰذا وہ پہلے غفار کے ساتھ اُن کے ہوٹل گئے، اپنے تمام کزنز سے ملاقات کی اور اُن سب کو اپنے ہوٹل کا ایڈریس دے کر اُسی رات عبدالغفار کے ساتھ اپنے گروپ لیڈر، سیّد اکبر علی شاہ بخاری سے اجازت لے کر پھوپھی سے ملاقات کے لیے طائف روانہ ہوگئے۔ وہاں اُن سے ملاقات اور ایک دن قیام کے بعد حج سے ایک روز قبل مکہّ مکرّمہ واپس آگئے۔

برسوں بعد اپنے رشتے داروں سے لاکھوں کے مجمعے میں اس طرح ملاقات ہوجانے پر مانو بھائی کی خوشی دیدنی تھی۔ آج اس بات کو25سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کی دلی آرزو کی تکمیل کے وہ لمحات آج بھی یاد آتے ہیں، تو آنکھیں بَھر آتی ہیں۔ (محمد اسحاق قریشی، اورنگی ٹاؤن، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید