• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: شبرا

ملبوسات: شاہ پوش (لبرٹی مارکیٹ، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک فوٹو گرافر نے اپنی دکان کے باہر ایک بورڈ لگا رکھا تھا، جس پر تین ترغیبات پر مشتمل ایک عبارت رقم تھی۔ ٭ 20 روپے میں، آپ جیسے ہیں، ویسی فوٹو بنوائیں۔٭ 30 روپے میں، آپ جیسا سوچتے ہیں، ویسی فوٹو بنوائیں اور ٭ 50 روپے میں آپ جیسے لوگوں کو نظر آنا چاہتےہیں، ویسی فوٹو بنوائیں۔ ایک عرصے بعد اُس فوٹوگرافر نے بتایا کہ ’’مجھ سے لوگوں نے ہمیشہ50 روپے والی فوٹو ہی بنوائی۔ مطلب، عموماً لوگ اپنی پوری زندگی ’’دنیا دکھاوے‘‘ ہی کی نذر کردیتے ہیں، حالاں کہ 20 روپے میں، ’’جیسے ہیں، ویسی ہی فوٹو‘‘ (نمود و نمائش، بناوٹ و تصنّع سے پاک) والی حقیقی زندگی کہیں زیادہ سُکھ شانتی، آرام و سُکون سے گزرسکتی ہے۔‘‘ 

دراصل ہم انسانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم نے خُود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھنے، جانچنے، سمجھنے، پرکھنے، بگاڑنے، سنوارنے، سراہنے کا عادی بنا لیا ہے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ہمارا ازل کا دیرینہ مسئلہ ہے اور اِن ’’خرافات‘‘ میں ہماری اپنی دلی خوشی، مَن مرضی تو کہیں مدغم ہی ہو کے رہ گئی ہے۔ وہ ایک مشہور قول ہے ناں کہ ’’جب کوئی آپ کا درد نہیں لے سکتا، تو کسی کو اپنی خوشیاں چھیننے کا حق بھی ہرگز نہ دیں۔‘‘ اور یہ کہ ’’آپ کے لیے کیا اچھا ہے، خُود آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کیوں کہ کوئی دوسرا کبھی آپ کے جوتوں میں اپنے پائوں نہیں ڈالے گا۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’درحقیقت آپ کا خُود اپنی ذات کے ساتھ سلوک ہی وہ پیمانہ ہے، جو آپ دوسروں کے لیے بھی مقرر کرتے ہیں۔‘‘ معروف امریکی موٹیویشنل اسپیکر، لوئس ہے (Louis Hay) نے ایک بار کہا تھا کہ ’’آپ برسوں سے خُود کو دوسروں کی نظر سے دیکھ کے لعن طعن کر رہے ہیں۔ ایک عرصے سے آپ کی ذات آپ کی اپنی ہی تنقید کی زد میں ہے۔ اب ذرا ایک بار خُود کو، آپ جیسے ہیں، ویسے ہی تسلیم کرکے دیکھیں، زندگی بدل نہ گئی، تو کہیے گا۔‘‘

’’ارے، یہ تم نے کیا پہن رکھا ہے؟ یہ ڈریس تو تم پر ذرا سُوٹ نہیں کر رہا۔‘‘، ’’یہ کلر تو بالکل اِن نہیں ہے اور سانولی رنگت کے ساتھ ایسا رنگ کون پہنتا ہے بھلا؟‘‘، ’’آج کل لانگ شرٹس فیشن میں اِن ہیں اور تم نے اتنی اونچی سی فراک پہن لی۔‘‘، ’’ایسی تقریبات میں ایسا ہیئر اسٹائل کون بناتا ہے؟‘‘، ’’گلاسی لپ شیڈز تو کب کے فیشن سے آئوٹ ہوچُکے ہیں!!‘‘، ’’ساڑی تو صرف لمبے قد کی لڑکیوں پر جچتی ہے۔‘‘، ’’غرارے، شرارے پہننے کی بھی ایک عُمر ہوتی ہے۔‘‘، ’’اتنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ بندہ بیڈ ہیلز پہنتا ہے، نہ کہ اتنی اونچی ہیلز۔‘‘، ’’گول فیس پر جُوڑا کہاں جچتا ہے؟‘‘، ’’ایک تو ڈریس اتنا ہی ہیوی، اُس پر اتنی بھاری جیولری؟‘‘، ’’پتا نہیں کہاں سے تیار ہو کے آئی ہے، چہرہ دس رنگ کا ہو رہا ہے۔‘‘ ’’اگر سر، منہ ہی لپیٹنا تھا، تو اس قدر تیار ہونے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ایسے بےشمار طنزیہ جملے، کٹیلے لہجے، درشت رویّے ہمیں روزانہ دائیں، بائیں، آگے پیچھے سنائی دیتے، محسوس ہوتے ہیں، جو محض چند سیکنڈ میں نہ صرف ہماری پوری شخصیت کا بُت پاش پاش کر کے رکھ دیتے ہیں، لمحوں میں ہمارا سارا کانفیڈنس بھی ملیامیٹ ہوجاتا ہے۔ 

دراصل لوگوں کو اِس قسم کی جملے بازی کی اجازت ہم نے خُود ہی دی ہے، اُنہیں غیرضروری طور پر اہمیت دے کر۔ اگر ہم نے اِتنی اہمیت و احترام اپنی پسند، ناپسند کو دیا ہوتا ناں، تو یقین کریں، آج ہماری زندگی قوسِ قزح کے رنگوں سی سَت رنگی، تاروں بَھری کہکشاں سی روشن و رخشاں، کسی پھولوں بَھری رہ گزر سی عطربیز و معطّر اور امن و آشتی، راحت ومسرّت، چاہت والفت کے اَن گنت لمحات سے لب ریز ہوتی۔

کم ازکم اپنے لیے ملبوسات اور سامانِ آرائش کے انتخاب کا حق تو سو فی صدی ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے۔ جو بھی پہننے اوڑھنے، جیسے بھی بننے سنورنے کو ہمارا دل کرے، اُس میں دنیا اور دنیاداری کوحائل ہونےکااختیار نہیں۔ اب لیجیے، ذرا ہماری آج کی بزم ملاحظہ فرمائیں۔ آسمانی رنگ پرنٹڈ فیبرک میں پیپلم کے ساتھ سفید کیولاٹ کا حسین امتزاج ہے، تو نیلے، سیاہ اور بیج رنگوں کےکامبی نیشن میں سادہ سا میچنگ سیپریٹس کا انداز بھی ہے۔ مسٹرڈ اور سیاہ کے تال میل میں پرنٹڈ ٹُوپیس پہناوے کا روایتی سا اسٹائل ہے، تو ڈارک گرے شیڈ میں پرنٹڈ ٹرائوزر کے ساتھ بہت خُوب صُورت سے پرنٹ سے آراستہ لانگ شرٹ کا جلوہ بھی ہے اور گہرے زرد رنگ میں پھول دار پرنٹ سے مزیّن میکسی نما فراک کے تو کیا ہی کہنے۔ 

بس، معین احسن جذبی کی نظم ’’گُل‘‘ سو فی صد صادق آتی محسوس ہورہی ہے کہ ؎ اے گُلِ رنگیں قبا، اے غازۂ روئے بہار.... تُو ہے خُود جمالِ حُسن کا آئینہ دار....ہائے وہ تیرے تبسّم کی ادا وقتِ سحر.... صُبح کے تارے نے اپنی جاں تک کردی نثار.... شرم کے مارے گلابی ہے اِدھر رُوئے شفق.... شبنم آگیں ہے، اُدھر پیشانیٔ صبح بہار.... گھیر لیں جیسے عروسِ نو کو ہم سِن لڑکیاں.... یوں تجھے گھیرے ہوئے ہیں نونہالانِ چمن.... وادیوں میں تُو، بیابانوں میں تُو، بستی میں تُو.... رونقِ ہر محفل و زینت دہِ ہر انجمن.... یہ ادائے سادگی، محبوبیت، معصومیت.... تُو رہِ ہستی میں ہے کس انداز سے گام زن.... تُو زمینِ رنگ و بُو، تُو آسمانِ رنگ و بُو.... مختصر یہ کہ تُو ہے اِک جہانِ رنگ و بُو۔