تحریر: نرجس ملک
ملبوسات: شاہ پوش
(لبرٹی مارکیٹ، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
یہ بھی عجیب فطرتِ انسانی ہے کہ ’’چاند میسّر آجائے، دسترس میں ہو، تو پھر اُس کے داغ نظر آنے لگتے ہیں۔‘‘ کیوں کہ یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ جو شئے پہنچ میں ہو، وہ خواہ کتنی ہی بیش قیمت کیوں نہ ہو، اُس قدر اہم، خاص اور پُرکشش نہیں رہتی، جتنی کہ کوئی دسترس، اختیارسے باہر، رسائی سے دُور شئے۔ تب ہی تو کہتے ہیں، اگر اپنی اہمیت و قابلیت منوانے کی خواہش ہے، تو اپنی آسان اور ہمہ وقت دست یابی غیریقینی بنائیں۔
خصوصاً اُن لوگوں کو تو کبھی دست یاب نہ ہوں، جو آپ کو محض ایک ’’آپشن‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جو خُود آپ کو صرف اپنے فارغ اوقات یا اپنی سہولت کے مطابق ہی میسّر آتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کی اصل اہمیت تب ہی جان پاتے ہیں، جب آپ اُنہیں بہت اچھے طریقے سے سمجھا دیں کہ آپ بھی زندگی کا ’’لازمی‘‘ مضمون ہیں، نہ کہ اختیاری۔ کیوں کہ جب آپ ’’ناگزیر‘‘ نہیں رہتے، تو پھر لوگ ناحق ہی آپ کو Underestimate کرنے لگتے ہیں۔ اُنہیں آپ کی خُوبیاں بھی، خامیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اِسی طرح زندگی میں پرفیکٹ، آئیڈیل کا کوئی وجود نہیں۔
پتا نہیں، ہم کیوں سو فی صد ڈھونڈتے، مکمل، کامل کی تلاش میں بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں، حالاں کہ اِس کا انحصار بھی بہت حد تک ہمارے تصوّرات و خیالات، جذبات و احساسات ہی پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم اکثر معلوم اور کبھی کبھی نامعلوم اسباب کے تحت بھی، کبھی بظاہر اورکبھی مَن اندراچانک بہت خُوشی و راحت سی محسوس کرتے ہیں، تو ہم پر بہت عام سی چیزوں کے بھی کئی روشن پہلو، مثبت رُخ، خواص اور خوبیاں عیاں ہونے لگتی ہیں، چہار سُو سب اچھا اچھا، ہرا ہرا ہی سا دکھائی دیتا ہےاورتب آدھا ادھورا، نامکمل، غیرمعیاری بھی ایک دَم پرفیکٹ ہوجاتا ہے۔
بعینہ اِسی طور جب ہم اکثر معلوم اور کبھی کبھی نامعلوم وجوہ کے تحت بھی، کبھی ظاہراً تو کبی اندرخانے کسی دُکھ، رنج، تکلیف، حزن و ملال کا شکار ہوتے ہیں، تو ہمیں اچھی بھلی چیزوں کے بھی سارے تاریک پہلو، منفی رُخ اور خامیاں، برائیاں ہی نظر آرہی ہوتی ہیں، تو سارا معاملہ نظر، دل و دماغ، مثبت و منفی طرزِ فکر کا ہے۔ محبوب کی بدترین خامیاں بھی اُس کی کمال خوبیاں بن جاتی ہیں۔ جو لوگ ہمیں اچھے لگتے ہیں، اُن پر سو خون معاف ہوتے ہیں۔ جن سے دل کے تار ملتے ہیں، ہم اُن کے لیے بلاوجہ ہی ڈٹ کے کھڑے ہونے، لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
وہ مستنصرحسین تارڑ نے کہیں لکھا تھا ناں کہ ’’محبّت کتنی خوف ناک چیز ہے کہ ہم اِس میں مبتلا ہو کر ایک اجنبی کو اپنا مالک بنا کےتمام تر طاقت اُس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔
دُکھ دینے، خوش رکھنے، اُداس کردینے کی طاقت۔‘‘ قصّہ مختصر، یہ کندن، خام، کامل، نامکمل، بےعیب، عیب دار، پختہ، ناقص کی ساری کھکھیڑ کسی طے شدہ کُلیے سے قطعاً مشروط نہیں، بہت حد تک ہمارے حُسنِ نظر، ذوقِ انتخاب اور Mood Swings ہی کی محتاج ہے۔
گرچہ مُلک بھر میں شدید گرمی کی لہر نے عمومی رویّوں، مزاجوں، مُوڈز پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگ کسی بھلی بات پہ بھی بلاوجہ ہی کاٹ کھانےکودوڑ پڑتے ہیں۔
اُس پر طُرفہ تماشا یہ کہ روزافزوں بڑھتی منہگائی، بھاری بھرکم یوٹیلٹی بِلز نے بھی عام آدمی کی تو گویا کمر ہی توڑ کے رکھ دی ہے، مگر موسم، ماحول، حالات و واقعات جیسے بھی ہوں، یہ تو طے ہے کہ دُکھ، سُکھ، غم، خوشیاں سب متوازی، ساتھ ساتھ ہی چلتے رہیں گے۔
جیسا کہ ابھی عیدِ قرباں کا ہنگام ختم نہیں ہوا کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے ساتھ دیگر ہلکی پُھلکی محافل کا انعقاد پھر جوبن پر آگیا ہے۔
جب کہ ملازمت پیشہ خواتین اور مختلف جامعات کی طالبات کو تو ہمہ وقت نت نئے رنگ و انداز کی تلاش وجستجو رہتی ہی ہے کہ یہ اُن کے لیے آسائش سے زیادہ ضرورت کا معاملہ ہے۔ اور بات جب ضرورت کی ہو تو پھر ترجیحی کی تلاش میں وقت برباد نہیں کیا جاتا، دست یاب ہی ترجیحی ہوجاتا ہے۔
وہ کیا مثال ہے کہ ’’بھوکے کو تو گول روٹی ہی چاند لگتی ہے۔‘‘ اور وہ چاند خواہ جلا ہوا ہی ہو، اُس کا کوئی داغ، عیب دکھائی نہیں دیتا، بس بھوک مٹائی جاتی ہے۔ چلیں خیر، ہماری آج کی بزم ملاحظہ فرمائیں۔
ٹرکوائز رنگ کے پلین کاٹن ڈریس کی گول دامن شرٹ کے ساتھ لُوز سا ٹرائوزر ہے، تو ڈارک گرین، ہلکے عنّابی اور جامنی کے کنٹراسٹ میں ایک خُوب صُورت پرنٹڈ پہناوا ہے۔ بلیو کے حسین سے شیڈ میں سیاہ رنگ کے ساتھ ایپلک ورک اسٹائل سلیوز کی پیاری سی ڈھیلی ڈھالی کُرتی اور اِسی انداز کا ٹرائوزر ہے، تو بلیو ہی کے ایک اور شیڈ میں پرنٹڈ شرٹ کےساتھ حسین کیولاٹ ٹرائوزر کی ہم آہنگی کا بھی جواب نہیں۔ اور پھر کِھلتے ہوئے زرد رنگ میں قمیص کی سلیوز کے سفید ایمبرائڈرڈ بنچز، ہم رنگ جوائننگ، آرائشی لیسز کی نُدرت کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے پلین ٹرائوزر کے انتخاب کے تو کیا ہی کہنے۔
مُوڈ اچھا ہے یا ہمارا ذوقِ انتخاب دیکھ کر اچھا ہوگیاہے، صوفیہ انجم کی نظم ’’دھنک‘‘ خود بخود لبوں پر آجائے گی کہ ؎ پھر آج میرے تصوّر میں موتیا جاگا.....پھر آج سبز پری اُتری چھمچھماتی ہوئی.....پھر آج ڈالیاں پھولوں کی رقص کرنے لگیں.....پھر آج خوشبوئوں سے بام و دَر مہکنے لگے..... پھر آج پھیل گیا رُوح و دل میں سیلِ جمال..... اثر نہ درد کا باقی رہا، نہ غم کا خیال..... پھر اُٹھا چڑیوں کا ایک جُھنڈ چہچہاتا ہوا..... ہوا ہَرے بھرے کھیتوں سے اُٹھی گاتی ہوئی..... مَیں دیکھنے لگی، سُننے لگی، نکھرنے لگی..... چہکنے لگی، سجنے لگی، سنورنے لگی۔