• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭پوش علاقے میں رہائش پذیر ایک خاندان کی نوجوان لڑکی کے لیے رشتوں کی کمی نہیں تھی۔وہ لڑکی ایک معروف یونی ورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ اِس بار اُس کے لیے چوتھا رشتہ آیا تھا، لیکن لڑکی والوں نے معذرت کرلی۔ اصل میں تمام رشتے اچھے اور کھاتے پیتے خاندانوں کے لڑکوں ہی کے تھے، لیکن اُن کی تعلیم لڑکی کے مقابلے میں کم تھی۔ کسی نے بزنس میں بی ایس آنرز کر رکھا تھا اور والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹا رہا تھا، تو کوئی محض ایم اے تھا۔ 

ایک لڑکا برطانیہ میں ایک کمپنی میں اکائونٹنٹ تھا، لیکن لڑکی کے والدین کو زعم تھا کہ اُن کی بیٹی کو ڈاکٹریٹ کے بعد مُلک یا بیرونِ مُلک ڈالرز میں ملازمت مل جائے گی۔ بہرکیف، اُس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو حاصل کرلی، مگر پھر رشتے آنا بند ہوگئے۔ والدین نے ایک، دو جگہ بات چلائی، تو لڑکے والے اِس احساس میں مبتلا پائے گئے کہ لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، جس کے سبب لڑکا اُس کے سامنے دَب کر رہے گا۔ 

ایک، دوسال مزید گزر گئے، اِس دوران لڑکی کو لاکھوں روپے ماہانہ کی ایک اچھی جاب مل گئی اور اس کے اندر مالی طور پر خود مختاری، سوچ کی آزادی اور برتری کا ایسا احساس پیدا ہوگیا کہ پھر وہ کسی کو بھی خاطر میں لانے پر آمادہ نہ تھی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے شادی کی عُمر کی لائن کچھ اس طور کراس ہوئی کہ وہ تنہا رہ گئی اور وقت اُس سے بہت آگے نکل گیا۔

٭لاہور کا ایک اور خاندان بھی کچھ اِسی قسم کے مسئلے سے دوچار تھا۔ ایک معروف برادری سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان اپنی خُوب صُورتی، صحت و تن درستی کے سبب جانا جاتا اور ذات برادری سسٹم پر یقین رکھتا تھا۔ اس خاندان کی ایک لڑکی نے بی اے کر رکھا تھا۔ والدین اُسے’’ کشمیر کا گلاب‘‘ کہتے تھے۔ اُس کے لیے رشتوں کی کمی نہ تھی، لیکن اتفاق سے آنے والے تمام رشتے غیر برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ 

اکثر لڑکے خوش حال گھرانوں سے تھے، لیکن لڑکی کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ اُن کے’’خالص خاندانی‘‘ خون میں کسی اور ذات برادری کے خون کی آمیزش ہو۔ کئی رشتے ان کی اپنی برادری سے بھی آئے، لیکن ایک لڑکے کا رنگ سانولا تھا، تو دوسرے کا قد بہت چھوٹا۔ ایک لڑکے کی چال ڈھال اور ہنسنے کا انداز پسند نہ آیا۔ یوں خُوب سے خُوب تر کی تلاش میں کئی سال گزر گئے۔ اِسی دوران لڑکی نے ایک جگہ بطور ٹیچر ملازمت کرلی۔ وہ ذرا’’ خود مختار‘‘ ہوئی، تو اُسے لگا کہ اب وہ والدین پر بوجھ نہیں رہی۔ جب بھی کوئی اچھا رشتہ آیا، شادی ہو جائے گی۔ لیکن وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ تین سال بیت گئے، اِس دوران یہ خوش خوراک لڑکی خاصی فربہ بھی ہوگئی اور رشتوں کا دروازہ تقریباً بند ہوگیا۔

٭اندرونِ لاہور شہر، لوہاری گیٹ میں مقیم ایک خاندان کا سربراہ اردو بازار میں کتابوں کا تاجر تھا۔ اس خاندان کی سب سے بڑی بیٹی بہت سگھڑ، سلیقہ شعار اور خُوب صُورت ہونے کے ساتھ گریجویٹ بھی تھی۔ اُن کا کئی منزلہ آبائی مکان تھا۔ کاروبار میں مندے کے باوجود یہ خاندان بظاہر ٹھیک ٹھاک زندگی بسر کر رہا تھا، لیکن لڑکی کے لیے جہیز تیار کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔گو کہ والدین نے کچھ چیزیں تیار کر رکھی تھیں، لیکن سونے کے زیورات سمیت پورا جہیز تیار کرنا ممکن نہ تھا۔ 

سربراہِ خانہ کثیر العیال تھا اور گھر کے اخراجات بھی بمشکل پورے ہوتے۔ کافی رشتے آئے، لیکن لڑکوں کے والدین کو جب پتا چلتا کہ شادی میں واجبی سا جہیز ملنے والا ہے، تو وہ دوبارہ رجوع نہ کرتے۔ لڑکی کے والد نے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر’’ لکی کمیٹی‘‘ ڈالی ہوئی تھی،جس سے اُنہیں15لاکھ ملنے تھے، لیکن جب اُن کی باری آئی، تو کمیٹی جمع کرنے والا فرار ہوگیا اور یوں اسے ایسا مالی دھچکا لگا کہ وہ بستر سے جالگا اور جب ایک، ڈیڑھ سال میں ٹھیک ہوا، اُس وقت تک لڑکی نے اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ وہ جہیز کے بھوکے لڑکوں کو کبھی اپنی زندگی کا ساتھی نہیں بنائے گی۔ اس نے دوسری بہنوں کا جہیز تیار کرنے کے لیے ایک اچھے اسکول میں ٹیچنگ کی جاب کرلی۔

٭اور یہ ایک ایسے گھر کی کہانی ہے، جو کسی شمار ہی میں نہیں آتا۔ ایک پوش علاقے میں کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی 16 سال کی ہوئی، تو اس کے لیے آبائی گائوں سے رشتے آنے لگے، لیکن ماں، لڑکی کو گائوں واپس بھیجنے کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کا لاہور ہی میں کسی سے رشتہ ہو تاکہ وہ بدستور اُس کے لیے کماؤ پوت بنی رہی۔ لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور اس کی لڑکی، خاتونِ خانہ کی بجائے پوری زندگی کے لیے ملازمہ بن کر رہ گئی۔

٭ایک خوش حال خاندان کی لڑکی کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد جب ڈھنگ کا کوئی رشتہ نہ آیا، تو والد نے اُسے یونی ورسٹی میں داخلہ دِلوا دیا۔ اُس نے سُنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے دَوران بھی اچھے رشتے مل جاتے ہیں، لیکن یہاں بات نہ بن سکی۔ ایم۔ اے کے بعد لڑکی نے ملازمت کرلی کہ جہیز بھی تیار ہو جائے گا اور ممکن ہے، کوئی رشتہ بھی مل جائے۔ ملازمت کے دَوران کئی کولیگز نے اُسے آس دِلائی۔ 

آخرکار، لڑکی جاگیردار خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے کے ساتھ انتہائی سنجیدہ ہوگئی اور یہ تعلق ایک سال تک برقرار رہا۔ لڑکے نے وعدہ کیا کہ وہ والدین کو قائل کرلے گا اور جلد ہی اُنہیں اُس کے گھر بھیجے گا، لیکن لڑکی انتظار ہی کرتی رہ گئی۔کچھ دنوں بعد لڑکے کا فون بند ملنے لگا اور اُس کا پتا چلانے کی کوششیں بھی ناکام ہوگئیں۔ پھر محبّت میں ناکامی کا صدمہ اُٹھانے والی اس لڑکی نے عہد کرلیا کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گی، کیوں کہ اُس کے نزدیک تمام مرد دھوکے باز ہوتے ہیں۔

کہانی گھر گھر کی…

بظاہر یہ ہمارے معاشرے کے تین، چار گھرانوں کی کہانیاں ہیں، لیکن درحقیقت ایسی داستانیں ہمیں قدم قدم پر بکھری ملتی ہیں۔ ایسا گھرانہ آپ کے پڑوس میں بھی ہوسکتا ہے، آپ کے خاندان یا برادری میں بھی اس کا وجود ممکن ہے اور یہ خود آپ کے گھر کی کہانی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ آج کا نہیں، مدّتوں سے چلا آر ہا ہے اور جوڑے بے شک آسمانوں پر بنتے ہیں، لیکن اُن کے زمین پر ملاپ کے لیے والدین کو ایک کوہِ گراں سَر کرنا پڑتا ہے۔

آج اگر اِس مسئلے کی حدّت زیادہ شدّت سے محسوس کی جارہی ہے، تو اِس کی ایک وجہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ وہ رپورٹ بھی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں35 برس سے زاید عُمر کی غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں، جو اپنے جیون ساتھی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ایسی خواتین کی بڑھتی تعداد نے نہ صرف اُن کے والدین کے لیے ایک سنگین مسئلہ پیدا کردیا ہے، بلکہ خود یہ خواتین بھی نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ماہرینِ نفسیات و سماجیات کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔

مقدّس بندھن یا کاروبار…!!

شادی، مرد اور عورت کے درمیان ایک ایسا سماجی معاہدہ ہے، جس میں وہ دونوں گواہوں کے سامنے ایک ساتھ زندگی نبھانے کا عہد کرتے ہیں اور پھر اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں، بعد میں یہ رشتہ خاندان، برادری، قبیلے یا قوم کی صُورت اختیار کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے شادی ایک خاندان کی بنیادی اکائی ہے۔ یہ سلسلہ برس ہا برس سے چلا آرہا ہے اور کرّۂ ارض کا شاید ہی کوئی کونا ایسا ہو، جہاں لوگ ازدواجی بندھن میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ 

البتہ، مختلف اقوام میں شادی کی رسوم اور عُمر کا فرق ضرور ہوسکتا ہے۔ نوجوانی کی عُمر کو شادی کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا ہے کہ جب توانائیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 88فی صد لوگ49 سال کی عُمر سے پہلے پہلے شادی کرلیتے ہیں۔ بعض ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں100 فی صد لوگ50،49 سال کی عُمر سے پہلے پہلے رفیقِ حیات ڈھونڈ لیتے ہیں۔

دنیا کے اکثر ممالک میں، جہاں مخلوط معاشرہ ہے اور جہیز کا رواج نہیں، امارت اور غربت کی خلیج کم ہے، شادی کوئی سنگین مسئلہ نہیں۔ یہ اور بات کہ بعد ازاں اس سے کئی سنگین مسائل جنم لیتے ہیں، لیکن شادی کا یہ مقدّس بندھن برّصغیر میں بالعموم ایک مسئلہ بنا ہوا ہے کہ جہیز، حرص و ہوس، لالچ، بے پناہ اخراجات اور غلط رسم و رواج نے اسے ایک ایسا کڑا امتحان بنا دیا ہے، جس سے گزرنے کے لیے والدین کو درجنوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

حالاں کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جب آبادی کم تھی، خاندانی نظام مستحکم تھا، رشتے داریاں، ذات برادریوں میں میل جول عام تھا، لوگ حرص و ہوس اور طمع و لالچ کے شکار نہیں تھے، شادیوں کے اخراجات کم اور رسوم و رواج کی بھرمار نہیں تھی، کزن میرج سے متعلق بھی شکوک و شبہات عام نہیں ہوئے تھے، تو لڑکیوں کے رشتوں میں دشواری کم ہی ہوا کرتی تھی۔ 

جو پہلا رشتہ آتا، والدین اُسے اللہ کی رحمت سمجھ کر قبول کر لیتے اور اگر لڑکا کوئی عام سی ملازمت بھی کرتا ہوتا یا درمیانے درجے کا خوش حال ہوتا، تو یہ سمجھ کر قبول کر لیتے کہ لڑکی اپنا نصیب لے کر جارہی ہے۔ لیکن جب خُوب سے خُوب تر کی تلاش، جہیز کا جنون، والدین کی مالی استطاعت، خُوب صُورت ترین، دراز قد لڑکیوں کی جستجو ، نمائش، شان و شوکت اور اسی طرح کے دوسرے معیارات شادی کا پیمانہ بنے، تو شادی گویا مائونٹ ایوریسٹ کی چوٹی بن گئی، جسے سَر کرنے کے لیے والدین کو طرح طرح کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم…فائدہ یا نقصان

اگرچہ پاکستان میں اِس موضوع پر کوئی باقاعدہ سروے یا ریسرچ تو نہیں ہوئی کہ شادی ضروری ہے یا ہائر ایجوکیشن، لیکن امریکا میں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ کالج میں تعلیم کے دَوران جن لڑکیوں کی شادی ہو گئی، اُن میں سے 78فی صد کی شادی 20سال تک چلی، جب کہ یونی ورسٹی تعلیم کے دَوران یا بعد میں ہونے والی شادیوں کے اِسی دورانیے کی شرح صرف 40فی صد تھی۔ 

بلاشبہ، امریکا کا اخلاقی معیار اور طرزِ زندگی ہم سے مختلف ہے، لیکن ماہرِ سماجیات کا عمومی طور پر یہی خیال ہے کہ یونی ورسٹی، تعلیم کے بعد لڑکیوں کی شادیوں کی شرح میں کمی آجاتی ہے۔ پاکستان میں عمومی مشاہدہ بھی اِس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد رشتوں کی آمد محدود ہو جاتی ہے، خاص طور پر لڑکے والے جب ابتدائی گفتگو میں یہ سُنتے ہیں کہ لڑکی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رہی ہے یا کر چُکی ہے، تو عُمر کے حوالے سے اُن کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، کیوں کہ اکثر لڑکوں کی عُمریں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔ 

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دَوران لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بڑھا ہے اور ان کے طرزِ فکر میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ مثلاً پہلے شادی کو اوّلیت اور اعلیٰ تعلیم کو ثانوی حیثیت حاصل تھی، اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اکثر لڑکیاں یہ بھی سوچتی ہیں کہ دیر سے شادی کرنا، جَلد بازی میں شادی سے بہتر ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد اگر کوئی رشتہ نہ آئے، تو لڑکی اوراس کے والدین انتظار میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کسی یونی ورسٹی میں داخلے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ 

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2018ء میں پاکستان کے ڈگری گرانٹنگ پروگرامز میں پبلک سیکٹر کی یونی ورسٹیز میں داخلہ لینے والی دو لاکھ 96ہزار 832خواتین کی شرح 45فی صد، جب کہ لڑکوں کی شرح 38فی صد تھی ۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق لڑکیوں کی یہ شرح بڑھ کر 58فی صد ہو چُکی ہے۔ اب پنجاب کے ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر اور مُلک کے دوسرے حصّوں میں دھڑا دھڑ سرکاری اور نجی یونی ورسٹیز کُھلنے سے دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والی لڑکیوں کی بھی بڑی تعداد یونی ورسٹیز کا رُخ کر رہی ہے۔ 

اکثر والدین کا خیال ہوتا ہے کہ گھر میں فارغ رہنے سے یونی ورسٹی میں داخلہ لے کر اچھے رشتے کا انتظار بہتر ہے۔ لیکن اس رجحان کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ چند لڑکیوں کو واقعی جیون ساتھی مل جاتا ہے، لیکن کلاس فیلوز کے دھوکے، محبّت میں ناکامی، خود مختارانہ سوچ اور آزادانہ ماحول کی زخم خوردہ لڑکیوں کی تعداد بھی کم نہیں، جو دل برداشتہ ہو کر تمام عُمر کنواری رہنے کا عہد کرلیتی ہیں، خصوصاً ہاسٹل میں مقیم لڑکیاں اِن المیوں کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

کزن میرج… شکوک و شبہات کی زَد میں

اسلام میں اگرچہ کزن میرج کی کہیں ممانعت نہیں کی گئی اور ہمارے ہاں برس ہا برس سے خاندانوں کے قریبی لڑکے، لڑکیاں اور کزنز شادی بیاہ کرتے چلے آرہے ہیں، لیکن جدید ریسرچ کے حوالے سے اب اکثر خاندان اسے معیوب سمجھنے لگے ہیں، جن کا خیال ہے کہ کزن میرج سے دو خاندانوں کی موروثی بیماریاں نو شادی شدہ جوڑے کے بچّوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ اِس ضمن میں سائنسی طور پر آج بھی کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ 

دنیا کے اکثر ممالک میں کزن میرج کی کوئی ممانعت نہیں، جب کہ بعض ممالک میں یہ اخلاقاً اور قانوناً ممنوع ہے، جیسے چین، کوریا، فلپائن اور بھارت کی بعض ریاستوں میں۔ امریکا کی 50میں سے 30ریاستوں میں اس کی ممانعت ہے، جب کہ 8ریاستوں میں تو اسے ایک مجرمانہ فعل کی حیثیت حاصل ہے۔ 

تاہم، عمومی طور پر دنیا میں اس کا رواج کم ہے اور ایک عالمی سروے کے مطابق دنیا بَھر میں صرف 10فی صد شادیاں فرسٹ اور سیکنڈ کزنز کے درمیان ہوتی ہیں۔ 17اگست 2023ء کے ایک گیلپ اینڈ گیلانی پول کے مطابق، پاکستان میں 65فی صد گھرانے اپنے خاندانوں میں شادی کرتے ہیں، جب کہ 34فی صد، خاندان سے باہر شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان میں بھی کزن میرج کے خلاف سوچ نے جیون ساتھی کے انتخاب کو محدود کر دیا ہے۔ جب لڑکیاں اپنے کزنز کو زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکتیں، تو والدین لا محالہ دوسرے ذرائع مثلاً شادی دفاتر، وچولنوں اور غیروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔

اِس طرح ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہونے کے باعث دھوکا دہی، فریب، لالچ اور دروغ گوئی کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق، پاکستان کے شہری علاقوں میں کزن میرج کی شرح 53فی صد اور دیہات میں 70فی صد ہے۔ زمینی حقائق کہتے ہیں کہ کزن میرج کی حوصلہ شکنی کے سبب لڑکوں کی شادی تو کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتی ہے، خسارے میں صرف لڑکیاں اور اُن کے والدین ہی رہتے ہیں۔

شادی، ایک ملٹی ملین پراجیکٹ

برّصغیر پاک و ہند میں شادی دنیا کا منہگا ترین ایونٹ تصوّر ہوتا ہے، جس کا تخمینہ 50-60 لاکھ کی ایک اوسط درجے کی شادی سے لے کر 50-60کروڑ روپے تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کے ارب پتی صنعت کار، مکیش امبانی نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے، اننت امبانی کی شادی پر 40ارب روپے خرچ کر دئیے۔ لاہور میں ایک فوڈ چین کے مالک نے اپنی بیٹی کی شادی پر کروڑوں خرچ کیے، تو کراچی میں انوش عمار اور منیب کی شادی کے تمام براتیوں کو جہاز میں تُرکی لے جایا گیا۔ 

بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کے پوتے ضوریز کی زینب کے ساتھ شادی پر کروڑوں روپے خرچ کر دئیے گئے۔ یہاں تک کہ شادی پر ہونے والی آتش بازی کا سامان امریکا سے منگوایا گیا تھا۔ اِسی طرح شرمیلا فاروقی کی شادی کو بھی million dollar wedding قرار دیا گیا تھا۔ بہرحال، یہ تو انتہا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج ایک اوسط اور درمیانے درجے کی شادی بھی لاکھوں میں پڑتی ہے۔ لڑکی کے والدین کے اخراجات ذرا ملاحظہ کیجیے۔ منگنی کی رسم، 5لاکھ بشمول منگنی کی انگوٹھی اور دعوت۔

نکاح کا دن رکھنے کی تقریب، کم از کم ایک لاکھ روپے۔ زیورات، جہیز کم از کم 20لاکھ روپے۔ لڑکی کے ملبوسات، میک اپ، فوٹو شوٹ وغیرہ 6لاکھ روپے، بارات کے لیے کھانا، ہال کی بکنگ 5لاکھ روپے، ٹرانسپورٹ 2سے 5لاکھ، یعنی مجموی طور پر اپنی لڑکی کو رخصت کرتے وقت اوسط درجے کے خاندان کے والدین کو بھی کم از کم 35سے 40لاکھ روپے صَرف کرنے پڑتے ہیں۔ 

پاکستانی معاشرے میں جہاں 10کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 5-6 کروڑ متوسّط درجے کے لوگ (جو بمشکل اپنے روز مرّہ اخراجات پورے کر رہے ہوں) اپنی بیٹیوں کی رخصتی صرف خواب ہی میں کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مُلک میں کروڑوں لڑکیاں جہیز، زیورات اور شادی کے دیگر اخراجات کی استطاعت نہ رکھنے کے سبب گھروں کی دہلیز پر کسی جیون ساتھی کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ 

کسی زمانے میں پاکستان میں غریب لڑکیوں کے لیے اجتماعی شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، لیکن سیاسی و اقتصادی بد حالی، حُکم رانوں کی نا اہلی، افراتفری اور ہوش رُبا منہگائی میں یہ سلسلہ بھی تقریباً بند ہو چُکا ہے، البتہ کراچی میں چند سال قبل ایک میرج بیورو نے کئی خاندانوں کو ان کے بیٹوں اور بیٹیوں سمیت ایک شان دار تقریب میں بُلا کر یہ موقع فراہم کیا تھا کہ مختلف خاندانوں کے والدین بالمشافہ مل کر اپنی لڑکی یا لڑکے کے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے اجتماعات تسلسل سے ہونے چاہئیں۔

خوف، خدشات، تحفّظات

اِس فیچر کی تیاری کے دوران جن غیر شادی شدہ لڑکیوں کے والدین سے بات کرنے کا موقع ملا، اُن کے خیالات، خدشات، تحفّظات اور اُن پر بیتے واقعات معاشرے میں شادی کے حوالے سے کئی فکر انگیز اور تشویش ناک پہلوئوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ملازم، عبدالحمید پراچہ نے اِس ضمن میں کہا کہ’’میری تین تعلیم یافتہ بیٹیاں جوان اور دو چھوٹے بیٹے ہیں۔ ہمارا آبائی 7مرلے کا مکان ہے۔ بیوی نے بچت کر کے اور کمیٹیاں ڈال کر تھوڑا بہت جہیز تیار کیا ہے۔ 

سب سے بڑی لڑکی گریجویٹ، دوسری تھرڈ ائیر اور تیسری میٹرک میں ہے۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب لوگ شادی کے نام سے خوف زَدہ ہیں، کیوں کہ طلاق اور ناکام شادیوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ آئے روز لڑکی والوں سے فراڈ کی باتیں ہمیں پریشان کر دیتی ہیں۔ خود ہم پر بھی بہت کچھ بیت چکا ہے۔ بڑی بیٹی کے لیے تین رشتے آئے، ایک کے بارے میں معلوم ہوا کہ اُن کا کام شادی کر کے جہیز پر قبضہ کرنا ہے۔ 

دوسرا لڑکا جہیز میں 15لاکھ کیش کا طلب گار تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ ایک واقف کار کے ذریعے تیسرا رشتہ بیرونِ مُلک لڑکے کا تھا۔ ہم نے تحقیق کروائی، تو پتا چلا کہ اُس کا چال چلن ٹھیک نہیں اور نشہ کرتا ہے۔ اِس سے پہلے وہ دو شادیاں کر چُکا تھا اور بیوی کو نوکرانی کے طور پر خدمت کے لیے رکھتا تھا۔بد قسمتی سے اکثر والدین نے اپنے لڑکوں کو ایک جنس (Commodity) کی حیثیت دے دی ہے، جسے وہ’’میرج مارکیٹ‘‘ میں کیش کروانا چاہتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے کئی واقعات ہوئے۔ ایک خاندان نے عارضی طو پر پوش علاقے میں کرائے پر کوٹھی لے کر اُسے اپنا مکان بتایا۔ 

شادی کے بعد دو ماہ تک لڑکا وہیں رہتا رہا اور ظاہر کرتا کہ اُس کا آن لائن بزنس ہے۔ دو ماہ بعد بیوی کو میکے بھیج دیا اور ایک ماہ تک وہاں رہنے کو کہا۔ پھر اُس کا فون اچانک بند ہو گیا۔ بیوی فکر مند ہو کر واپس پہنچی، تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ تو گھر چھوڑ کر جہیز کے سامان کے ساتھ غائب ہو چُکے ہیں۔ 

اُنہوں نے جب تھانے میں رپورٹ درج کروائی، تو معلوم ہوا کہ اس گروہ کا کام ہی یہ ہے۔ اُن کے شناختی کارڈ بھی جعلی نکلے، جب کہ اہم محکموں میں اُن کے ایجنٹ اُن کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ 

عبد الحمید کا مزید کہنا تھا کہ’’ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ چھوٹی بڑی سب عدالتیں سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہیں۔ فراڈ کے ایسے واقعات سے ہمارا معاشرہ بَھرا پڑا ہے اور دھوکا دہی کی ان وارداتوں کے شکار لڑکیوں کے والدین اور خود بچیاں مایوسی میں گیلی لکڑیوں کی طرح سُلگ رہی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں شادی دفاتر، جدید میرج بیوروز، گھروں میں آنے والی ’’وچولنوں‘‘ یوٹیوب چینلز، موبائلز اور اخبارات میں اشتہارات کی صُورت میں ظالم لوگوں نے لڑکیوں کے والدین کے لیے قدم قدم پر سنہرے جال بچھائے ہوئے ہیں، جن میں سادہ لوح اور مجبور والدین پھنس کر عُمر بَھر کا رُوگ لگا لیتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر لڑکیاں اِسی خوف سے والدین کی حفاظت میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ کہیں اُن کے ساتھ کوئی واردات نہ ہو جائے۔ بلاشبہ، اچھے لوگ بھی ہیں، لیکن اکثریت گویا انسانوں کے رُوپ میں بھیڑیے ہیں۔ بھیڑیے کو انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ مار ڈالے گا، لیکن انسانوں کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوتا، اُن کی شرافت کا لبادہ اُس وقت اُترتا ہے، جب وہ اچانک بھیڑیے کے رُوپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سچ کہوں تو آج جوان لڑکیوں کے والدین ایسی آزمائش سے گزر رہے ہیں، جو اِس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔‘‘

شادی دفاتر

پاکستان میں60 ء کی دہائی میں شادی دفاتر کُھلنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب آبادی بڑھنے لگی، روزگار کے چکر میں رشتے دار ایک دوسرے سے دُور آباد ہونے لگے، خاندانی نظام زوال پذیر ہونے لگا، تو والدین نے مجبوراً خاندان سے باہر لڑکیوں کے لیے رشتے تلاش کرنے شروع کر دیئے۔ ابتدا میں یہ کام گھروں میں چکر لگانے والی وچولنیں کرتی تھیں(جو اب بھی کرتی ہیں)، لیکن اب اُن کا زیادہ کام شادی دفاتر نے سنبھال لیا ہے۔ 

کسی زمانے میں یہ دفاتر، کسی بازار یا گلی میں ایک مرلے کی شٹر والی دُکان میں ایک میز، چند کرسیوں اور گاہکوں کی رجسٹریشن کے لیے ایک خستہ حال رجسٹر پر مشتمل تھے۔ پھر جب رشتوں کا بزنس چل نکلا، تو ان کی ہیئت تبدیل ہوگئی۔ اب یہ دفاتر، میرج بیوروز، ویڈنگ پلانرز، میچ میکرز اور کئی دوسرے ناموں سے موسوم پوش علاقوں میں کئی منزلہ عمارات میں جدید ترین فرنیچر، ریشمی پردوں، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، قیمتی موبائلز سے آراستہ کام کر رہے ہیں، جہاں خُوب صُورت لیڈی سیکرٹری نہ صرف کسٹمرز کا ڈیٹا کمپیوٹر میں محفوظ کرتی ہے بلکہ والدین سے انتہائی شستہ لہجے میں انگریزی اور اردو میں گفتگو بھی کرتی ہے۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے شادی بیاہ کا یہ کاروبار آن لائن اِتنا پھیل گیا کہ سات سمندر پار اوورسیز پاکستانیوں تک جا پہنچا۔ یوں ان کی انکم ڈالرز، درہم، پاؤنڈز اور ریالوں میں ہونے لگی۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے شادی دفاتر سے متعلق عمومی تاثر کوئی زیادہ خوش گوار نہیں۔ 

اس میں شک نہیں کہ معیاری اور اچھے دفاتر بھی مووجد ہیں، لیکن اکثر دفاتر ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے نام پر مجبور والدین کو لُوٹتے اور لڑکیوں کو اُن کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل ہی کرتے ہیں۔

’’10/10نمبرز والا رشتہ تو آسمان ہی سے اُتر سکتا ہے۔ ‘‘ مسز روبا ہمایوں 

ایک سماجی تنظیم کی چئیرپرسن اور ایک میرج بیورو کی مالک، روبا ہمایوں اپنے برسوں کے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر کہتی ہیں کہ’’میرے نزدیک غیر شادی شدہ خواتین کی بڑھتی تعداد کی بنیادی وجہ خُوب سے خُوب تر کی تلاش ہے، جو لڑکی اور لڑکے والوں دونوں پر عاید ہوتی ہے۔ اکثر والدین چاہتے ہیں کہ اُن کو ہر اعتبار سے پرفیکٹ لڑکا ملے، جو خُوب صُورت، مال دار ہو، جس کا اپنا مکان ہو۔ 

وہ ابتداً اوسط درجے کے مناسب رشتوں کو انکار کرتے چلے جاتے ہیں اور جب کچھ وقت گزرنے کے بعد درمیانے درجے کے رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ’’ اِس سے اچھے رشتے تو ہم ٹھکرا چُکے ہیں۔اب ان سے کیوں کریں۔‘‘اُنہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ اچھے رشتوں کا بھی ایک وقت ہوتا ہے، جب عُمر ڈھلنے لگتی ہے، تو پھر اچھے رشتے بہت کم ملتے ہیں۔ اکثر لڑکی والے ہر چیز میں پرفیکشن چاہتے ہیں، حالاں کہ رشتوں میں کسی نہ کسی جگہ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔

یہاں تک کہ اکثر والدین کو خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ اُنہیں کیسا رشتہ چاہیے۔ بلا شبہ شرافت، تعلیم یا خاندان وغیرہ پر تو سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، مگر دیگر کئی باتوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ 10/10 نمبرز والا رشتہ تو آسمان ہی سے اُتر سکتا ہے، تو جن باتوں پر آپ نے سمجھوتا نہیں کرنا، اُن کا پہلے فیصلہ کرلیں اور جو رشتہ آپ کو اپیل نہیں کرتا، اُس پر وقت ضائع نہ کریں، لیکن دوسروں کا وقت اور اپنی انرجی ضائع کرنا ہمارا کلچر بن چکا ہے۔ ایسے لوگوں (بشمول لڑکوں کے والدین ) کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اُنہیں درحقیقت کیسی بہو کی تلاش ہے اور اِسی چکر میں وہ درجنوں بار لڑکیوں کی رُونمائیاں کرواتے، چائے، مٹھائیاں کھاتے ہیں۔‘‘

شادی دفاتر کے ضمن میں مسز روبا کا کہنا ہے کہ’’ بلا شبہ چند دفاتر میں دو نمبری ہوتی ہے، لیکن میرے نزدیک اکثریت ٹھیک کام کر رہی ہے۔دو نمبر دفاتر میں عموماً لوگوں کو صرف دِلاسے دیئے جاتے ہیں۔ جب کہ اُن کے پاس میچنگ رشتے نہیں ہوتے۔ 

پھر وہ ڈمی والدین، ڈمی لڑکیاں اور لڑکے پیش کر کے مجبور والدین سے رقم بٹورتے ہیں اور اچھی خاصی رقم لینے کے بعد اپنے فونز بند کر دیتے ہیں۔میرا تو مشورہ ہے کہ رضا کار اور ریٹائرڈ لوگ اِس فیلڈ میں آکر اور اسے ایک نیکی کا کام سمجھ کر کریں، کیوں کہ ایک صالح خاندان کے لیے دو افراد کا بندھن بہت بڑی نیکی ہے۔

جیسے کہ 60رضا کاروں پر مشتمل میرا ادارہ مفت رشتے کروانے پر یقین رکھتا ہے۔ ہم اس کارِ خیر کو فیس کے ساتھ جوڑنا ہی نہیں چاہتے، کیوں کہ دو خاندانوں کو آباد کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نہایت پسندیدہ فعل ہے اور اگر ہم صرف اللہ کی رضا سمجھ کر یہ کام کریں، تو ہمارے معاشرے کا یہ سنگین مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘

’’رسوم و رواج اور نمائش پسندی نے ’’سنّتِ رسولؐ ‘‘پر عمل مشکل تر کردیا‘‘ڈاکٹر مفتی ماہر جمیل

جامعہ اشرفیہ، لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف عالمِ دین، مولانا ڈاکٹر مفتی ماہر جمیل کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’ اسلام میں نکاح کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سورۃ النور، آیت 32 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح ہوں، اُن کا نکاح کر دو‘‘۔ اِسی طرح مختلف احادیثِ مبارکہؐ میں بھی نکاح کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اِسے نبی کریمﷺ کی سُنّت قرار دیا گیا ہے۔

آپﷺ نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا’’جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے(یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘ (مجمع الزوائد،ج4،ص327) بدقسمتی سے آج ہم اسلامی تعلیمات سے دُور ہو چُکے ہیں اور ہمارا معاشرہ شادی بیاہ کی غیر اسلامی رسموں میں بُری طرح جکڑا گیا ہے۔ 

ہمارے یہاں منگنی کی رسم سے لے کر مایوں، منہدی، سلامی، فوٹو شوٹ، دودھ پلائی جیسی رسوم پر بے دریغ پیسا خرچ کیا جا رہا ہے، حالاں کہ شرعاً منگنی کی حیثیت صرف اِتنی ہے کہ یہ نکاح کا وعدہ ہے۔جب کہ اسلام میں شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں سادگی سے(مسجد میں اور جمعے کے دن نکاح کرنا مستحب ہے) شرعی طریقے سے نکاح ہو اور اگر گنجائش ہو، تو نکاح کے بعد مسجد کے تقدّس کا لحاظ رکھتے ہوئے چھوہارے تقسیم کیے جائیں، پھر انتہائی سادگی سے لڑکی کو دُولھا اور اس کے ساتھ موجود گھر کے چند افراد کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔ جہیز میں گھریلو استعمال کی بنیادی ضرورت کی چند چیزیں اپنی گنجائش کے مطابق دوسروں کو دِکھائے بغیر لڑکے کے گھر بھیجی جاسکتی ہیں۔ 

البتہ، لڑکے والوں کے لیے ولیمے کا اہتمام سنّت ہے اور اِس کی کوئی شرعی حد مقرّر نہیں، بلکہ ہر آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اعتدال کے ساتھ ولیمہ کرسکتا ہے۔ نیز اِس موقعے پر اگر کوئی اپنی خوشی سے کوئی ہدیہ دے، تو اُس کا لینا بھی جائز ہے، تاہم مروّجہ نیوتا بہرحال ناجائز ہے۔ 

لڑکی والے رخصتی پر صرف دِکھاوے کے لیے بہت پیسا خرچ کردیتے ہیں، حالاں کہ لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا، جناب نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں، بلکہ آپؐ نے اپنی ایک شادی میں دُلہن کو لانے کے لیے ایک آدمی بھیجا، خود دُلہن کے گھر نہیں گئے۔ لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کے انتظام و اہتمام کا ثبوت کسی حدیث سے نہیں ملتا۔‘‘

مفتی ڈاکٹر ماہر جمیل نے مزید کہا کہ’’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں لڑکیوں کی شادی مناسب وقت پر ہو جائے، تو ہمیں اِس قسم کی رسوم و رواج (خصوصاً جہیز اور دیگر درجنوں تقریبات) کو خیر باد کہنا ہوگا۔ ہمیں شادی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانا چاہیے، جب کہ فی الوقت اسے اِتنا مشکل، پیچیدہ اور لاکھوں کا ایونٹ بنا دیا گیا ہے کہ جو والدین صاحبِ حیثیت نہیں اور مالی اعتبار سے کم زور ہیں، اُن کے لیے اِس فریضے کی ادائی پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہوچُکی ہے۔‘‘

اُنہوں نے کزن میرج سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ’’ اسلامی اعتبار سے قریبی رشتے دار یعنی خالہ زاد، پھوپھی زاد یا ماموں زاد وغیرہ سے شادی جائز ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ تاہم، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کزن میرج بیماریوں کا باعث ہے، تو اگر کوئی شخص تجربے یا کسی میڈیکل ٹیسٹ کی وجہ سے مصلحتاً کزن میرج سے بچے، تو یہ قابلِ ملامت بھی نہیں۔‘‘