• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ’’صبر و شُکر‘‘ لازم و ملزوم ہیں، یہ اعترافِ بندگی کے مظہر، اللہ کے قُرب کا بہترین ذریعہ، دین کا سرچشمہ اور ایمان کا لازمی تقاضا ہیں۔ یہ دو افضل ترین اعمال ایسے ہیں کہ پورا دِین ان کے اندر سموجاتا ہے۔ قرآنِ کریم اور تعلیماتِ نبویؐ میں ’’صبر و شُکر‘‘ کے بے شُمار فضائل بیان کرتے ہوئے انہیں اہلِ ایمان کی بنیادی صفت اور جنّت کی بشارت قرار دیا گیا ہے۔

حضورِ پُر نور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ’’ایمان کے دو حصّے ہیں، آدھا صبر اور آدھا شُکر۔‘‘ حضرت صُہیبؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ،’’مسلمان کے لیے تعجّب ہے کہ تمام بہتر شان اُس کے لیے ہے، اور یہ شان (مومن کے سِوا) کسی کے لیے نہیں، مگر صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اگر اسے کوئی خُوشی اور راحت نصیب ہوتی ہے، تو وہ شُکر ادا کرتا ہے، یہ شُکر اُس کے لیے باعثِ اجر ہوتا ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ صبر کرتا ہے، یہ صبر اُس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مُسلم)۔

درحقیقت، صبر و استقامت، بندگی کا مظہر اور شُکرِ خدا وندی، حاصلِ بندگی ہے، تمام انبیائے کرامؑ بالخصوص خاتم النبیّین، سیّدالمرسلین، حضورِ اکرم ﷺکی حیاتِ طیّبہ اور آپؐ کا اُسوۂ حسنہ ’’صبر و شُکر‘‘ کا بہترین نمونہ اور اسی سے عبارت ہے۔ جیسا کہ ’’کُفر‘‘ اسلام کی نگاہ میں بدترین خصلت ہے، تو اسی طرح شُکر سب سے بہتر اور اعلیٰ صفت ہے۔’’صبر‘‘ کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں۔

’’صبر علیٰ الطّاعۃ‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری اور دِین کی پیروی پر نفس کو آمادہ کیا جائے اور اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔(2)’’صبر عن المعصیہ‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گناہوں سے باز رہنے اور اس سے گریز کے لیے نفس، بالخصوص خواہشاتِ نفس کو قابو میںرکھ کر نفس کو گناہوں سے باز رکھا جائے۔(3)’’صبر فی المعصیہ‘‘ یہ ہے کہ مصائب اور ابتلاء کے وقت نفس کو قابو میں رکھا جائے،کوئی کام یا کلام شریعت کے خلاف سرزد نہ ہونے پائے۔

اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور بندگی کے ہر گوشے میں ’’صبر و شُکر‘‘ کا دامن تھامے رکھا جائےکہ انسان کی زندگی درحقیقت راحت و مصیبت، انعام و آزمائش، زندگی اور موت جیسی ابدی حقیقتوں سے عبارت ہے اور ہمارا دِین ابتلاء اور آزمائش کی ہر گھڑی میں صبر و استقامت اور انعام و اکرام کے ہر موقعے پر اللہ کی حمد و ثنا اور شُکر بجالانے کی تعلیم دیتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر صبر و شُکر کا دامن تھامے رہنا ہی اہلِ ایمان کا شِعار اور بندگی کی علامت ہے۔ 

قرآنِ کریم میں ایک موقعے پر ارشادِ ربّانی ہے۔’’اے ایمان والو! صبر (ثابت قدمی) اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بے شک، اللہ صبر کرنے والوں (ثابت قدم رہنے والوں) کے ساتھ ہے۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 153)۔ جب کہ آگے مزید فرمایا گیا۔’’اور ہم کسی قدر خوف، بُھوک، مال اور جانوں اور میووں (کھیت کھلیانوں) کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے، تو صبرکرنے والوں کو (اللہ کی رضا اور خُوش نودی کی) بشارت سُنا دو، اُن پر جب کوئی آزمائش اور مصیبت واقع ہوتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں، جن پر اُن کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 157-155)۔

ایک اورمقام پر فرمایا گیا۔ ’’یہ (اہلِ ایمان) وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے، تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) اُن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے، تو وہ صبرکرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے اُنہیں عطا فرمایا ہے،اُس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحج / 35)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندۂ مومن کی کوئی دُنیوی محبوب چیز لے لوں اور وہ اس پر صبر کرے، تو اُس کے لیے میرے پاس جنّت کے سِوا کوئی اور بدلہ نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔

’’شُکر‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوںکی قدر جان کر اُس کے احکام کی اطاعت اور فرماں برداری کی جائے۔ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی صبر و استقامت، تسلیم و رضا اور شُکرِ خدا وندی کے حوالے سے ایک خاص حوالہ رکھتی ہے۔ قرآنِ کریم میں حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت اس کی شہادت موجود ہے۔ 

ارشادِ ربّانی ہے۔ ’’بے شک، ابراہیم ؑ دِین کی راہ ڈالنے والے، اللہ کے فرماں بردار، اُسے ایک ماننے والے، اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے، اللہ کے احسانات اور نعمتوں کے شُکرگزار، اللہ نے اُنہیں چُن لیا اور سیدھی راہ دِکھائی۔‘‘ (سُورۃ النحل /121-120)۔

حضرت ابراہیم ؑ نے دِین پر قائم رہتے ہوئے صبر و استقامت، شُکرِ خداوندی اور تسلیم و رضا کا جو تاریخ ساز نمونہ پیش کیا، وہ ایمان کی اساس اور اُس کا معیار قرار پایا۔ اقبال نے کیا خُوب کہا ہے ؎ آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا.....آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا۔

’’شُکر‘‘ درحقیقت ایمان کی اساس، دین کی بنیاد اور اطاعتِ الٰہی کا سرچشمہ ہے۔ درحقیقت یہی وہ جذبہ ہے، جس کی بناء پر بندے کے دل میں اللہ کی قدر و عظمت اور اطاعت و محبّت کا جذبہ بے دار ہوتا ہے۔ اس قدر و عظمت اور اطاعت و محبّت کے قولی و عملی اظہار کا نام شُکر ہے۔امام رازی ؒ فرماتے ہیں۔’’ انعام دینے والے کی نعمتوں کا اعتراف کرنا، اُس کی قدر و تعظیم کرنا، خود کو ان اوصاف کا عادی بنانا، شُکر کہلاتا ہے۔‘‘ 

جب کہ امام غزالیؒ کے نزدیک، اللہ کے انعامات اور احسانات کے ذریعے دل میں اُس کی یاد کا پیدا ہونا، اُس کا بڑھنا، اُس کی طرف جُھکنا اور اعتراف کرنا شُکر کہلاتا ہے۔ اس حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے۔’’اگر تم شُکر کرو اور ایمان لائو تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اور اللہ تو قدر پہچاننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘ (سُورۃ النساء / 147)۔ایک اور ارشادِ ربّانی ہے۔ ’’پس خدا نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ رزق عطا کیا ہے، اُسے کھاؤ اور اللہ کا شُکر ادا کرو۔‘‘ (سُورۃ النحل / 114)۔اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا گیا۔ 

’’اگر ناشُکری کروگے تو خدا تم سے بے پروا ہے، وہ اپنے بندوں کے لیے ناشُکری پسند نہیں کرتا، اور شُکر کروگے، تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا۔‘‘ (سُورۃ الزّمر / 7)۔’واضح رہے، قرآنِ کریم میں ’شُکر‘‘ کا ذکر مختلف انداز میں تقریباً 54مقامات پر آیا ہے۔ بے شک، پوری کائنات انسان کے لیے مسخّر کردی گئی ہے، انسان پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات اور احسانات ہیں، جن کا احاطہ و شُمار بھی ممکن نہیں، تو بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ربّ العالمین کا ہر دم اور ہر لحظہ شُکر ادا کیا جائے،اُس کے فضل و کرم کا اعتراف کیا جائے۔

قرآنِ کریم میں ایک موقعے پر ارشادِ ربّانی ہے۔’’اور بے شک، ہم نے تمہیں زمین پر رہنے کی جگہ دی اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے، تم لوگ بہت ہی کم شُکر کرتے ہو۔‘‘ (سورۃالاعراف / 10)۔جب کہ ایک اور مقام پر فرمایا گیا۔’’پس، تم مجھے یاد کیا کرو، میں تمہیں یاد کیا کروں گا، اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشُکری نہ کرنا۔‘‘ (البقرہ / 153)۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ وہ ایک لقمہ کھانا کھائے اور اُس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے، یا ایک گُھونٹ پانی پیے، اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرے۔‘‘ (یعنی ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرے) (صحیح مُسلم)۔

صبر کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو جو انفرادی اور اجتماعی نیکیاں انسان میں مطلوب ہیں،اُن میں ایک اہم ترین صبر ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ ایک سو سے زیادہ مقامات پر آیا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں صبر کے معنیٰ اور اس کا مفہوم بہت وسیع اور عمیق ہیں، چناںچہ اپنی خواہشات کو حدود اللہ کا پابند بنانا، اللہ کی فرماں برداری اور دین کے اتّباع میں جو ابتلاء و آزمائشیں، مصائب و آلام پیش آئیں، اُنہیں صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا، ضبطِ نفس سے کام لیتے ہوئے شیطان کی ترغیب، وسوسوں اور نفس کی ہر خواہش کو رَد کرتے رہنا، ہر طمع اور خوف کے مقابلے میں حق پرستی پر قائم رہنا، دشمنانِ حق کے ہر ظلم و الم کو ثابت قدمی اور جرأت و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا، مخالفتوں کے طوفان اور مصائب و مشکلات میں حق کی حمایت پر جمے رہنا، صبر و استقامت اور دِین پر ثابت قدمی کی بہترین صورتیں ہیں۔

پھر رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیاتِ طیّبہ اورآپؐ کا اُسوۂ حسنہ صبر و استقامت اور شُکرِ خداوندی کا بے مثال نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی صبر و شُکر اور دین پر عزیمت و استقامت کی وہ تصویر ہے، جس کا پرَ تو صحابۂ کرام ؓ کی زندگیوں پر پڑا اور اُنہوں نے اس رنگ کو ایسا جذب کیا کہ وہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے روشن مثال اور مینارۂ نُور بن گئے۔ زندگی کا ہر لمحہ، آنے والی ہر ساعت، ہر نفس اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر قدم کائنات کے پالن ہار، اللہ ربّ العالمین کے بے پایاں احسانات اور انعامات کا زیر بار اور مرہونِ منّت ہے۔ 

پروردگارِ عالم نے بنی نوع آدم کو عزّت و تکریم کا تاج پہناکر اشرف المخلوقات بنایا اور زمین پر اپنا خلیفہ و نائب قرار دیا۔ارشادِ ربّانی ہے۔’’اور ہم نے بنی آدم کو عزّت بخشی اور ان کو خُشکی و تری (بحر و بر) میں سواریاں دیں اور پاک چیزوں سے رزق عطا کیا اور بہت سی مخلوق پر، جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے،انہیں فضیلت عطا کی ہے۔‘‘ (سُورۃ الاسراء / 70)۔

اللہ عزّوجل کی جانب سے عطا کردہ اس انعام و اکرام، عظمت و فضیلت، عزّت و تکریم اور شرف و منصب کے عطا کیے جانے پر بندگانِ خدا پر یہ بنیادی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی اس عارضی زندگی پر آخرت کی ابدی اور پائیدار زندگی کو ترجیح دیں، زندگی کے ہر موڑ پر صبر و شُکر کا دامن تھامے رکھیںکہ یہی درحقیقت ایمان کی اساس اور بندگی کا تقاضا ہے۔

واضح رہے، ’’صبر و شُکر‘‘ کے جذبات بندے کو دین کا پابند بناکر نہ صرف اعتدال و میانہ روی کی راہ پرگام زن کرتے ہیں، بلکہ افراط و تفریط سے دُور رہتے ہوئے قرآن و سنّت کے اتّباع پر آمادہ کرتے اور بندگی کی حقیقی رُوح بھی پیدا کرتے ہیں، جس سے انسان میں یہ شعور بے دار ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ اور اُس کے احکام کا پابند ہے، دین کا اتّباع اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکام کی پیروی ہی اُس کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ 

صبر و استقامت اور شُکر کا جذبہ اُس کا سب سے بڑا ہتھیار اور بندگی کا شِعار ہے، جب کہ ’’شُکر و سپاس‘‘ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ وہ تسلیم و رضا کا پیکر، اللہ کی عظمت و کبریائی کا معترف اور اُس کے انعام و اکرام پر جذبۂ شُکر سے لب ریز ہے۔ اور صبر و شُکر کے ذریعے بندہ اس امر کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ میرا مرنا اور جینا، سب اللہ کے لیے ہے، ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا، اللہ کی عظمت کا اظہار اور اُس کی بندگی کا اعتراف میری زندگی کا مقصد، حاصلِ بندگی ہے۔