• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلطان محمد فاتح

قناعت پسندی اور سادہ طرز ِزندگی اسلامی معاشرت اور نظام ِ حیات کا امتیازی پہلو ہے۔ تعلیماتِ نبویؐ اور اُسوۂ رسولﷺ میںاس حوالےسے ہمارے لیے مثالی اورلائقِ تقلید نمونہ ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،’’اگر ابنِ آدم (آدمی) کے پاس مال و جائیداد سے بَھرے ہُوئے دو میدان اور دو جنگل ہوں، تو وہ تیسرا اور چاہے گا، اور آدمی کا پیٹ تو بس (قبر کی) مٹّی سے بَھرے گا، اور اللہ توبہ کرنے والے پر توجّہ اور عنایت فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)- سرورِکائنات ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی ایک ایسی صداقت اور ابدی حقیقت ہے، جسے روزِ حشر تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

انسان حِرص و ہَوس، بے جا خواہشات اور تمنّائوں کا ایک حصار اپنے اردگرد قائم کرلیتا ہے اور پھر اُس کی حِرص و طمع اور تمنّائیں لمحہ لمحہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ وہ کسی لمحے قناعت اور اکتفا نہیں کرتا، اللہ پر توکّل اور قناعت پسندی اُس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوتی، وہ تو حُبِّ جاہ اور حُبِّ مال کا پُتلا بن کر حرص و ہوس، بے جا تمنّائوں اور خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ انسانی زندگی سے ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

آج اگر ہم اپنے اِردگرد لوگوں کا اور بحیثیت مجموعی اپنے معاشرے اور ماحول کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ مال و متاع اور جاہ و حشم کے لالچ نے فرد اور معاشرے کو بے اطمینانی اور بے سکونی کے ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیا ہے، جس کے سبب کسی کو طمانیت، امن و عافیت، صبرو قرار اور سکون میسّر نہیں۔ 

خواہشات کی بڑھی ہوئی غلامی نے تمام آسائشوں اور مادّی وسائل کی دست یابی کے باوجود انسان سے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان چھین لیا ہے اور آج معاشرے میں اس قدر ڈپریشن، بے اطمینانی اور مسائل کا انبار بھی صرف اسی لیے ہے کہ ہماری تمنّائیں اور خواہشیں لامحدود ہوگئی ہیں۔ قناعت پسندی کا جذبہ مفقود ہے، عہدے، منصب اور مال و دولت کی طمع نے آدمی کو خواہشات کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے، تب ہی راحت و سکون ہم سے کوسوں دُور ہیں۔

رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے،’’دو بُھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دِیے گئے ہوں، وہ اُن بکریوں کو اتنا تباہ نہیں کرسکتے، جتنا مال و جاہ کی حِرص آدمی کے دِین کو تباہ کرتی ہے۔‘‘(ترمذی)۔ روزو شب کا مشاہدہ اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ایک مملکت کا حاکم اور بادشاہ بھی اپنی حکومت و مملکت پر قناعت نہیں کرتا۔ وہ ہوسِ اقتدار میں اپنی مملکت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنا چاہتا ہے۔ دولت و اقتدار سے اُس کی سیرابی نہیں ہوتی۔ وہ ’’استسقاء‘‘ کے اُس مریض کی طرح ہو جاتا ہے، جو کئی مشکیزے پانی پینے کے بعد بھی خود کو پیاسا محسوس کرتا ہے۔ 

شیخ سعدیؒ نے اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ؎ مُلک اقلیمے اربگیرد پادشاہ.....ہم چناں در بند اقلیمے دِگر۔بادشاہ ایک مُلک حاصل کرلیتا ہے تو دوسرے ملک کے حصول کی فکر میں لگا رہتا ہے، جب کہ بندۂ مومن کی قناعت پسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ؎ نیم نانے گر خُورد مردِ خدائی.....بذل درویشاں کُند نیمے دِگر۔کہ خدا کا بندہ اگر آدھی روٹی کھاتا ہے تو دوسری آدھی روٹی وہ فقیر کو دے دیتا ہے۔’’قناعت پسندی‘‘ اسلام کا امتیاز اور بندۂ مومن کی زندگی کا لازمی جزو ہے کہ ایک موقعے پر رسالتِ مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا،’’ایمان اور حرص ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘ (سُنن نسائی)۔ 

بندۂ مومن کے لیے ایمانِ کامل کا نتیجہ صبر، توکّل اور قناعت ہے، تو حِرص و ہوس کا نتیجہ بے اطمینانی، بے صبری اور خواہشات کی غلامی۔ دنیوی مال و متاع کی خواہش، مال و جائیداد میں روز بروز اضافے کی تمنّا اور سامانِ تعیش کی بہ کثرت فراہمی انسان کو خواہشات کا غلام بنا دیتی ہے۔ وہ لالچ و طمع میں اندھا ہوجاتا ہے اور یہی وہ مکروہ جذبہ ہے، جو پھر انسان کی طبیعت میں کینہ، حسد اور بُغض جیسی مکروہ صفات بھی پیدا کردیتا ہے۔ اسی بناء پر باہمی عداوتیں اور نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ اور یہی وہ اسباب ہیں، جو اجتماعی طور پر معاشرے میں بے اطمینانی، بے سکونی اور بڑی حد تک بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔ 

ایسی کیفیت میں آدمی دوسرے کے مال و جائیداد پر نگاہ رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ یا تو اُسے مل جائے یا جو کچھ دوسرے کے پاس ہے، وہ سب کچھ اُس سے چِھن جائے۔ اسلام نے ایسی خواہش اور تمنّا کی پُرزور مذمّت اور شدید ممانعت کی ہے، کیوں کہ اس میں دو بُری خصلتیں جمع ہیں۔ ایک بُغض اور دوسری حسد۔ قرآنِ کریم میں ایک مقام پر ارشادِ ربّانی ہے،’’اور اُس کی ہوس نہ کرو، جس میں اللہ نے تم میں باہم ایک دوسرے کو بڑائی اور فضیلت بخشی ہے۔‘‘(سُورۃ النّساء؍32)۔

حِرص و ہوس اور بے جا تمنّائوں کی تکمیل کا یہی وہ قابلِ مذمّت عمل ہے، جو معاشرے میں بے اطمینانی،اعلیٰ انسانی اقدار اور مثالی تہذیبی اور اَخلاقی روایات کے زوال کا باعث بنتا اور نفرت و عداوت کو پروان چڑھاتا ہے اور درحقیقت یہی وہ مکروہ جذبہ ہے، جو چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری اور معاشرے میں دیگر جرائم کا باعث بنتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک موقعے پر فرمایا کہ،’’حِرص و طمع سے بچو، کہ اِس نے تم سے پہلوں کو برباد کیا۔ اسی نے اُنہیں آمادہ کیا کہ اُنہوں نے خون بہایا (قتل و غارت گری کی) اور حلال کو حرام سمجھا۔‘‘(صحیح مسلم)۔

جب کہ ایک اور روایت کے مطابق آپؐ نے ارشاد فرمایا،’’حِرص سے بچو، کیوں کہ اس نے اگلوں کو اس پر آمادہ کیا کہ اُنہوں نے (بے گناہوں کا) خون بہایا۔ اِس نے اُنہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ اُنہوں نے حرام کو حلال جانا۔‘‘(حاکم۔ المستدرک)۔ شیطان جن راستوں سے انسان کو غلط راہ پر ڈالتا اورگم راہی کی طرف لے جاتا ہے، ان میں حرص و طمع اور بے جا خواہشات کی پیروی بھی شامل ہیں۔ 

قرآنِ کریم، فرقانِ حمید میں شیطان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے،’’ اور اس (شیطان) نے کہا تھا کہ مَیں تیرے بندوں سے ایک حصّہ لے کر رہوں گا اور مَیں انہیں آرزوؤں اور تمنّائوں میں اُلجھا کر رکھ دوں گا۔‘‘ (سُورۃ النّساء۔18۔19)۔

یہ بات شیطان نے اُس وقت کہی تھی کہ جب اسے اس کے تکبّر، غرور، نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کے سبب راندۂ درگاہ کر دیا گیا تھا، اور شیطان نے اُس وقت کہا تھا کہ میں اس کا بدلہ ابنِ آدم ؑسے لوں گا۔ راندۂ درگاہ ہونے پر شیطان نے کہا تھا کہ میں ابنِ آدم ؑ کو خواہشات کی پیروی، آرزوئوں اور بے جا تمنّائوں میں اُلجھا کر رکھ دوں گا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں انسانی تمنّائیں اور آرزوئیں وہی ہو سکتی ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے منافی، دینی اور اَخلاقی قدروں کے زوال کا باعث ہوں۔

شیطان، انسان کو بے جا آرزوئوں میں اُلجھا سکتا ہے اور بے جا آرزوئوں اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں اُلجھ کر ہی انسان گم راہی کی طرف گام زن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ آدم ؑ کو شیطان کے مکروفریب سے ان الفاظ میں متنبہ کیا ہے،’’یہ شیطان انہیں(بنی نوعِ آدم ؑکو) وعدوں کے سبز باغ دِکھائے گا، انہیں تمنّائوں اور آرزوئوں میں گرفتارکرے گا، مگر شیطان کے یہ تمام وعدے دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘( سُورۃ النّساء؍120)

دنیا کو ’’دارالمتاع‘‘ اور ’’دارالغرور‘‘ قراردیا گیا ہے۔ یہ تمنّائوں کا مرکز اور خواہشات کا گھر ہے۔ بندۂ مومن کے لیے دنیا درحقیقت درالعمل ہے، یہ آخرت کی کھیتی ہے، یہ مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ پیغمبرِ آخر و اعظم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیاتِ طیّبہ اور آپؐ کا مثالی اُسوۂ حسنہ اُمّتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ اور لائقِ تقلید نمونہ ہے۔ 

قناعت پسندی اور سادہ طرزِ زندگی کے حوالے سے آپؐ کا جو اُسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، اُٹھنے، بیٹھنے کسی چیز میں تکلّف نہ تھا۔ کھانے میں جو سامنے آتا، تناول فرماتے، پہننے کو جو سادہ لباس مل جاتا، پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر فرشِ زمیں پر جہاں جگہ ملتی، بیٹھ جاتے۔ (شمائلِ ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول اللہؐ)۔

رسولِ اکرم ﷺ یہ دُعا فرماتے تھے کہ ’’اے اللہ، مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اُٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘(ترمذی)۔ رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے،’’موٹا جھوٹا پہنو، آسائش تو نعمتوں کو زائل کردیتی ہے۔‘‘(کنزالعمّال)۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہؓ کا بیان ہے کہ آلِ محمدؐ، رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی دو دن متواتر پیٹ نہیں بَھرا، یہاں تک کہ حضورِ اکرمﷺ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔‘‘(صحیح بخاری و مسلم)۔

حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہﷺ کو نبوّت عطا ہوئی، اُس وقت سے وصال تک آپؐ نے کبھی میدے (چَھنے ہوئے آٹے) کو نہیں دیکھا، اُنؐ سے جب سوال کیا گیا کہ جَو کی بِن چھنی روٹی کس طرح کھائی جاتی تھی؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ’’ہم جَو کو پیستے اور پُھونک مار مارکر بُھوسی اُڑا دیتے تھے، پھر آٹے کو گُوندھ کر اس کی روٹی پکاتے اور کھالیتے تھے۔‘‘(صحیح بخاری)۔ 

سیّدِ عرب و عجم، امام الانبیاء اور سیّد المرسلین ﷺ مدینۂ طیّبہ میں جن حُجروں میں سکونت پزیر تھے، وہ نہایت سادگی سے بنے ہُوئے تھے،کچّی اینٹوں اورگارے سے بنے ہُوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے، جن پر کھجور کے پتّوں کا سائبان تھا۔ سادگی، قناعت پسندی اور سادہ طرزِ زندگی کے حوالے سے یہ اُسوۂ حسنہ اُس ذاتِ گرامی کا ہے، جن کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ،’’اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ میرے لیے مکّۂ مکرّمہ کے سنگ ریزوںکو سونا بنا دیا جائے، مَیں نے عرض کیا، پروردگار، میں یہ نہیں مانگتا، بلکہ یہ پسند کرتا ہُوں کہ ایک دن پیٹ بھرکر کھاؤں اور ایک دن بُھوکا رہوں، جب مجھے بُھوک لگے تو آپ کو یاد کروں، اور آپ کے سامنے گڑگڑائوں اور جب میرا پیٹ بھرے تو آپ کی حمد اور شُکر ادا کروں۔‘‘(ترمذی)۔

یہ کیفیت ایک ایسی ہستی کی ہے، جس کے سامنے تمام عرب، حدودِ شام سے لے کر عدن تک فتح ہوچکا تھا اور مدینے کی سرزمین زروسیم سے بھر رہی تھی۔ روایت کے مطابق آپؐ اور آپؐ کے اہل و عیال مسلسل کئی کئی رات بُھوکے رہ جاتے تھے، کیوںکہ رات کا کھانا میسّر نہیں ہوتا تھا۔ (ترمذی، باب معیشۃ النّبیؐ)۔

قناعت اور سادہ طرزِ زندگی درحقیقت اسلام کا وہ پیغام ہے، جو انسان کی فلاح اور کام رانی کا ضامن ہے۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ انسان کو زندہ رہنے اور اطمینان اور سکون سے زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ میسّر ہے، اُس پر قناعت کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ جب انسان قناعت پسندی کا راستہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ حِرص و ہوس اور خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ 

وہ بے جا تمنّائوں کے نتیجے میں مزید کی جستجو اور زیادہ کی طلب میں اپنے آپ کو ہلکان کرتا رہتا ہے۔ ’’سُورۂ التکاثر‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے اِسی حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ ’’دنیوی مال و اسباب کی کثرت کے فخر نے تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلّم کا ارشادِ گرامی ہے، ’’بخدا، میں تم پر فقر و ناداری کے آنے سے نہیں ڈرتا، لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف ضرور ہے کہ دنیا تم پر زیادہ کشادہ کردی جائے، جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھر تم اسے بہت زیادہ چاہنے لگو۔ 

جیسا کہ اُنہوں نے بہت زیادہ چاہا تھا، اور پھر وہ تمہیں برباد کردے، جیسا کہ اس نے اُنہیں برباد کیا۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہم ان اسلامی تعلیمات سے دُور ہوکر بے شمار مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ معاشرے میں بے چینی، بے سکونی، بے اطمینانی اور ڈیپریشن کی بڑی وجہ مزید کی طلب، بے جا تمنّائیں اور خواہشات ہیں، قناعت اور سادہ طرزِ زندگی ترک کرکے ہم اپنی دینی، اَخلاقی اور اعلیٰ تہذیبی اقدار سے دُور ہوچکے ہیں۔

اعتدال اور میانہ روی، خُود انحصاری اور قناعت پسندی دراصل اسلامی طرزِ زندگی کے وہ امتیازات ہیں، جو ہماری کام یابی کی ضمانت ہیں۔ دورِ حاضر کے اطبّاء اور جدید سائنس بھی اس کی معترف ہے کہ آج دنیا میں بے سکونی، بے اطمینانی، متعدد بیماریوں، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں اور روز افزوں بڑھتے امراض کا سبب دینوی مال و متاع، منصب و اقتدار، بے جا خواہشات اور مال و متاع میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی وہ دوڑ اور مقابلہ ہے، جس میں انسان مبتلا ہوکر درہم و دینار کا بندہ بن جاتا ہے۔ 

تہذیبی اقدار اور اَخلاقی قدروں کے زوال کی بڑی وجہ بھی قناعت پسندی اور سادہ طرزِ زندگی سے گُریز ہے۔ حالاں کہ جھوٹی آرزوئیں اور بے جا تمنّائیں انسان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ خواہشات اور تمنّائوں کی تکمیل میں مصروفِ عمل رہنا اور ہمہ وقت آسائشاتِ زندگی اور دنیوی مال و اسباب کی جدّوجہد ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مال و دولت کی کثرت، وسائلِ حیات کی فراوانی اور تمام تر مادّی آسائشوں کے باوجود امریکا اور یورپ کے دیگر ممالک کے عوام حقیقی سکون اور ذہنی اطمینان سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ بچّے ہوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا خواتین، اطمینان و سکون اور مسرّت کا سچّا احساس کسی کو بھی میسّر نہیں۔ بہ الفاظِ دیگر مشینی طرزِ زندگی، مادّی آسائشوں کے حصول اور دنیوی مال و متاع کی دوڑ دُھوپ میں مصروف وہاں کے انسان کے اندر کا سکون و قرار تو لُٹ ہی چکا ہے، باہر کی دنیا میں بھی اندھیروں کی یلغار بڑھ رہی ہے۔

خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد، مغربی دنیا کے آباد اور خوش حال ممالک سے ایک بے حد اُداس نسل نے جنم لیا ہے، جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش موجود ہے، لیکن عرفِ عام میں یہ ’’دُھتکاری ہُوئی، ٹھکرائی ہُوئی نسل‘‘ کہلاتی ہے۔ جس نے مادّیت اور دنیاوی آسائشوں کو اپنا فلسفۂ زندگی بنایا، تمام اَخلاقی اور تہذیبی اصولوں، اعلیٰ انسانی قدروں کا مذاق اُڑایا اور پھر اُن کی سوچ اور طور طریقے دنیاکے تمام بڑے شہروں میں پھیل گئے، خود کُشیوں کا تناسب اور نفسیاتی امراض کا گوشوارہ بھی اُس ثقافت و تمدّن کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ معیارِ زندگی بہتر سے بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں انسان کا اطمینانِ قلب مسلسل روبہ انحطاط ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے مختلف ممالک کی شرح خودکشی کے جو گوشوارے شائع کیے ہیں، ان کے مطابق مغربی جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، ہنگری، سوئیڈن اور سوئٹزر لینڈ اِن ممالک میں سرِفہرست ہیں۔ یاد رہے، ان آٹھ ممالک میں مَردوں کی موت کی تیسری بڑی وجہ ’’خود کُشی‘‘ ہے۔

اگر آج کا انسان مادّی آسائشوں اور دنیوی لحاظ سے ترقّی کی معراج پر ہونے کے باوجود بھی تہی دست، پریشان، بے اطمینانی، شدید ذہنی و نفسیاتی دبائو کا شکار اور بے سکون نظر آتا ہے، تو اس کی وجہ فطرت سے بغاوت، اللہ کے احکامات سے دُوری اور قرآن و سُنّت کی تعلیمات سے انحراف ہی ہے اور اس حوالے سے قناعت پسندی اور سادہ طرزِ زندگی پر عمل ہی درحقیقت فلاحِ انسانیت کی یقینی ضمانت اور دین و دنیا میں حقیقی کام یابی کا سرچشمہ ہے۔