• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظلم بچے جنتا رہتا ہے مگر عدل کا بانجھ پن ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ارتکاب جرم کیلئے کسی قسم کی کوئی بندش نہیں مگر سزا سنانے کیلئے کئی قسم کی قانونی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ زیادتی اور ناانصافی کیلئے کوئی وقت متعین نہیں مگر زنجیر عدل ہلانے کیلئے عدالتیں کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ منصفوں کو بچوں کی طرح سالانہ تعطیلات بھی درکار ہوتی ہیں۔ جب یہاں تاج برطانیہ کی حکومت ہوا کرتی تھی تو موسم کی شدت کے پیش نظر جولائی اور اگست میں چھٹیوں کا اعلان کر دیا جاتا تھا تاکہ جج صاحبان سرد علاقوں میں جاکر سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہوسکیں۔ پاکستان بننے کے بعد بظاہر آزادی تو ملی مگر انگریزوں کی چھوڑی ہوئی روایات کو سینے سے لگا کر رکھا گیا۔ ایسی فرسودہ اور بیہودہ روایات کی فہرست بہت طویل ہے جیسا کہ جج صاحب کو مائی لارڈ کہہ کر مخاطب کرنا۔وکلاء صاحبان کا انگریزی میں مقدمہ لڑنا، دلائل دینا اور جج صاحبان کا اردو میں فیصلے تحریر کرنے سے گریز کرنا۔ بھلا ہو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ،جنہوں نے سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ مسند انصاف پر براجمان ہر شخص کے پیچھے ایک چاق چوبند خادم موجود رہتا ہے جسکا کام صرف یہ ہے کہ عدالت شروع اور برخاست ہوتے وقت کرسی کو آگے پیچھے کرے تاکہ کسی قسم کی دِقت نہ ہو۔آج کل بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چھٹیاں چل رہی ہیں اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے کیخلاف جو نظرثانی اپیلیں دائر کی گئی تھیں ان کی سماعت کیلئے بنچ اسلئے تشکیل نہیں دیا جاسکا کہ تعطیلات پر گئے جج صاحبان کی ذاتی مصروفیات اور آرام میں کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں کم ازکم 58ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک نہایت دلخراش انکشاف ہوا۔ 10جولائی کی سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے 45جیل پٹیشنز کی سماعت کرنا تھی ۔جیل پٹیشن سے مراد وہ قیدی ہیں جن کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے وکیل کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ جیل سے سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر بھجوائی جاتی ہے اور سرکاری وکیل مقرر کرکے ان اپیلوں کو سنا جاتا ہے۔سماعت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان اپیل کنندگان میں سے 10قیدی انصاف کا انتظار کرتے زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے ہیں اور اب انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ پہلے بھی اسی طرح کی 50درخواستیں سماعت کیلئےمقرر ہوئیں تو معلوم ہوا کہ 12درخواست گزار وفات پاچکے ہیںاور اب یہ درخواستیں بے اثر ہوچکی ہیں۔مثال کے طور پر راولپنڈی میں جنرل پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کی تفتیش کرنے والے پولیس انسپکٹر راجہ ثقلین جو 2004ء میں قتل ہوگئے تھے ۔اس مقدمہ میں چار افراد کو گرفتار کرکے سزائیں سنادی گئیں ۔انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔گزشتہ ماہ جب سپریم کورٹ نے کمزور شواہد کی بنیاد پر ان چاروں کو باعزت بری کرنے کا اعلان کیا تو معلوم ہوا کہ ارشد ستی ،طاہر عباسی اور قاری یونس تو طویل انتظارکے بعد انصاف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں مگر چوتھے قیدی عید محمد انتظار کی سولی پر لٹکتے ہوئے مرچکے ہیں ۔ایسی خبریں پڑھتے ہوئے ان خیالوں میں ڈوب جاتا کہ عالی مرتبت جج صاحبان کو نیند کیسے آتی ہوگی؟اس معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کیلئے ایڈہاک جج تعینات کرنے کی تجویز آئی تو محض اندیشہ ہائے دور دراز کی بنیاد پر مخالفت کا فیصلہ کرلیا گیا۔ معاملہ سیاست اور حکومت کا ہو تو جوڑ توڑ کے ذریعے بل منظور کروانے کا اہتمام کرلیا جاتا ہے تو کیوں نہ اس اہم ترین عوامی ایشو کیلئے آئینی ترمیم لائی جائے۔جس طرح شریعت کورٹ بنائی گئی ہے اسی طرح ایک آئینی عدالت کے قیام کا بل منظور کیا جائے۔چار یا پانچ رُکنی آئینی عدالت بنالیں اور سیاسی و دستوری جھگڑے نمٹانےکیلئے دائر درخواستیں اسکے حوالے کردیں ۔سپریم کورٹ کو 184کے جھمیلوں سے آزاد کردیں ۔ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کو اشرافیہ کی سیاسی لڑائیوں کے اکھاڑے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اسی وجہ سے ہی اپیلوں پر سماعت کیلئے وقت دستیاب نہیں ہوتا۔آپ اس پر کوئی باضابطہ تحقیق کروالیں کہ سپریم کورٹ کا کتنا وقت سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کیلئے وقف ہوتا ہے اور کتنی توجہ عام افراد کے مقدمات کو مل پاتی ہے۔اگر دستوری تنازعات اور آئینی موشگافیوںکیلئے الگ فورم ہواور اس کے فیصلے کو حتمی سمجھا جائے،سپریم کورٹ میں اپیل کا جھنجھٹ نہ ہوتو آئینی عدالت کے قیام سے ہی زیر التوا مقدمات کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائیگا۔ لیکن اگر اسکے بعد بھی انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے تو ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کے بجائے آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔بچوں کی طرح دو ماہ کی سالانہ تعطیلات کے بجائے جج صاحبان کو سال بھر میں 15دن کی چھٹیاں ہوں اور ایسا نہ ہو کہ سب جج صاحبان عدالتوں کو مقفل کرکے ایک ساتھ سیر و سیاحت کو نکل جائیں ۔

تازہ ترین