• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی وصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی بجائے تحریک انصاف کو دینے کے آٹھ ججوں کے اکثریتی فیصلے کے بعد ہرطرف ڈھول، ڈھولکیاں، طبلے،سارنگیاں بجنے لگی ہیں۔ اتحادی حکومت کے ہاں سوگ کا عالم ہے تو تحریک انصاف والے فیصلے پر حیران بھی ہیںاور مست ملنگ لوگ دھمال پر دھمال ڈالے جارہے ہیں کہ مرشد کی کرامات کی صورت انہیں وہ انصاف ملا جو پہلے کبھی کسی نے سوچا تھا نہ آئندہ کسی کی سوچ میں آئے گا۔ پانامہ سے اقامہ نکلا۔ اس بار قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے یا نہ دینے کے نقطے کو چھوڑ کر تحریک انصاف کو دینا انصاف کے نئے دور کا آغاز تصور کیا جارہا ہے۔ کاش! مرشد اپنی رہائی بھی مانگ لیتے تو آج اڈیالہ جیل سے نکل کر ڈی چوک میں کھڑے ہوتے لیکن مرشد کے چند مریدین ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی مگر مبہم فیصلے نے ایسے سوالات کو ادھورا چھوڑ دیا ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ فیصلہ مرشد کے حق میں سنانے والے جج صاحبان نے تحریک انصاف کو صرف پارلیمنٹ میں اپنا وجود برقرار رکھنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے اورساتھ ہی یہ نکتہ بھول گئے کہ اگر تحریک انصاف کے آزاد اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں باقاعدہ شرکت اختیار کرکے اپنا پارلیمانی وجود خود ہی کھو دیا تھا تو پھر یہ مخصوص نشستیں ان کا حق کیسے ہوئیں؟ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی اپیل کا واحد نکتہ یہ تھا کہ تحریک انصاف کے آزاد اراکین اسمبلی کی شمولیت کے بعد یہ سیٹیں اس کا حق ہیں۔ اس مقدمے میں کسی بھی مرحلے پر تحریک انصاف فریق تھی ہی نہیں تو پھر یہ در گزر کیوں کیا گیا؟ دوران سماعت معزز جج صاحبان بار بار یہ نکتہ اٹھاتے رہے ، وکلاءسے جواب مانگتے رہے۔ تحریک انصاف کے وکلاءپھر بھی خاموش رہے اور پریشان تھے کہ اس سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ آٹھ رکنی اکثریتی فیصلے نے ماضی کی غلطیوں کی طرح اس غلطی کو بھی درست کرکے تحریک انصاف کے کمزور جسم میں ایک نئی روح پھونک کر ملک میں سیاسی بھونچال پیدا کرکے ایک نئی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اکثریتی فیصلے میں جہاں سنی اتحاد کونسل کی پارلیمنٹ میں قبر کھود کر تدفین کی گئی وہاں تحریک انصاف کے مردہ جسم کو آکسیجن فراہم کرتے ہوئے اس بات کی بالکل وضاحت نہیں کی گئی کہ جب تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی جائیں گی تو الیکٹورل کالج کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا اس متنازع الیکٹورل کالج کے نتیجے میں صدر، چیئرمین سینیٹ اور دیگر آئینی عہدوں پرمنتخب ہونے والوں کی حیثیت برقرار رہے گی یا نہیں؟فیصلے پرنظرثانی کی حکومتی اپیل کی سماعت کے دوران اس پر بھی بحث ہونا ضروری ہے کہ ہم کہیں کوئی غلطی تو نہیں کررہے۔ اگر فیصلہ تحریک انصاف تک محدود ہے تو اسے لامحدود کیجئے۔ اس فیصلے نے یقیناً شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی وقتی طور پر چولیں تو ہلا کررکھ دی ہیں۔ اتحادی حکومت شدید بوکھلاہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ نظام دین کی بیٹھک میں بھی یہ موضوع زیر بحث ہے۔ سب سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اب آگے کرنا کیا ہے؟ اتحادیوں کا یہ نظام چلے گا یا انصافیوں کے ادھورے انصاف کو یوں ہی قبول کرلیا جائے گا، نظام دین کی بیٹھک کے شرکاءکی رائے کچھ تقسیم بھی ہے ۔ مرکزی سوچ یہ ہے کہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اپنے سیاسی مفادات کو داؤ پر لگایا۔ اسے بے سہارا ہرگز نہ چھوڑا جائے۔ ہم ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، فوجی جوانوں کی ملکی تحفظ کیلئے دن رات شہادتیں ہو رہی ہیں دوسری طرف آپریشن عزم استحکام میں سیاسی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ ایسے حالات میں سیاسی عدم استحکام دہشت گردی کے خلاف آپریشن اورملکی معاشی سرگرمیاں متاثر کرسکتا ہے۔ احتیاط کا دامن ہرگز ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ سیاست کو سیاست دانوں پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔ ایک گروپ کی رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے سے اس مثبت تاثر کو تقویت ملے گی کہ اب عدلیہ کے کام میں مداخلت نہیںہو رہی۔ فیصلے آزادانہ ہو رہے ہیں۔ دوسرا گروپ کہتا ہے ایسے تو ہماری گرفت کمزور ہو جائے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ اندرونی و بیرونی طور پر منفی تاثر ملے گا کہ ہم کمزور پڑ رہے ہیں ،ملکی سلامتی و مفاد میں فیصلے بُری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ سب سے مضبوط گروپ وزیراعظم کے معاشی بحالی بارے کٹھن فیصلوں کے مستقبل میں مثبت اثرات کو دیکھ رہا ہے لیکن ان کی سیاسی کار گزاری سے مایوس ہے۔ اس گروپ کی بڑی واضح سوچ یہ ہے کہ اتحادی حکومت کو ہر صورت ریسکیو کیا جائے گا اور کسی متبادل پرہرگزغور نہیں ہوگا۔ اس گروپ نے تحریک انصاف (مرشد گروپ) کے سامنے ایک سرخ لکیر کھینچ رکھی ہے، وہ 9 مئی کے واقعات کو کسی بھی صورت بھولنے اور معاف کرنے کو تیار نہیں کہ اگر آج ان واقعات میں ملوث عناصر کو معاف کردیا لئےگیا اوران کی حکمرانی قبول کرلی گئی توکل کوئی بھی سیاسی و غیر سیاسی، مسلح و غیر مسلح گروہ دوبارہ اداروں پر حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ نظام دین کی بیٹھک میں اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ عدالتی جنگ لڑنا حکومت وقت کا آئینی و قانونی حق ہے۔ نظرثانی اپیل یا تحریک انصاف پر پابندی، نظام دین کی بیٹھک میں دو ہی آپریشن زیر غور ہیں تیسری صورت ،ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔

تازہ ترین