• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آئین نو‘‘ کے زیر بحث عنوان کی پہلی اشاعت (20جولائی) میں واضح کیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ابتر و ’’اشرف‘‘ کی کشمکش کا آغاز کس طرح؟ غیر ملکی طاقت کے پاکستان میں رجیم چینج کے دھمکی آمیز سفارتی اقدام (سائفر) اور متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) پر ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی خلاف جمہوریت، متروک و مکروہ سیاست کی بحالی کے حکومتی الزامات سے ہوا۔ آپ کو وہ جملہ تفصیلات بھی یاد کرائی گئیں کہ حکومتی الزامات عوام کو ناقابل قبول و ناپسندیدہ پارلیمانی کارروائی میں ڈھل گئے تو کیسے پارلیمانی طاقت کا عددی پانسا پلٹنے سے عمران رجیم ساڑھے تین سال کی مدت میں ہی دو سالہ عالمی وبا میں بھی بہترین کارکردگی کے باوجود باجواز مہنگائی کو حکومت اکھاڑ سیاسی حربہ بنانے سے حکومتی سیٹ اپ پر رہنے والے روایتی و ناگزیر ہوگئے،غیر آئینی دبائو سے جلد ہی اکھڑ گیا۔ ایسی ملکی سیاسی و حکومتی روایتی تبدیلیوں کے برعکس اس رجیم چینج پر پاکستانی عوامی ردعمل حیران کن حد تک فوری اور غیر معمولی تھا، جسے معزول و مایوس وزیراعظم نے جس سرعت سے اور جس طرح کیش کرایا اس سے بنتا پاکستانی سیاسی ماحول ملکی سرحدوں سے نکل کر پورے خطے پر اثر انداز ہوا۔قارئین کرام،غور فرمائیں، متذکرہ ملکی واقعے نے جس طرح خطے کی سیاست کو متاثر کیا اس کا اصل تجزیاتی نکتہ ہی ’’قوتِ اخوتِ عوام‘‘کا عود کر پورے سیاسی منظر پر واضح ہو جانا ہے۔ ایسے کہ اس خارج از امکان تبدیلی کی چمک دمک اتنی ہے کہ پاکستانی قومی ترانے کے مستقل اور تاریخی بیانیے (قوت اخوت عوام) کی صداقت کی گواہی ،سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں طویل حکومتی ادوار میں تبدیل ہوتے سیاسی رجحانات اور ان کے ابتدائی نتائج سے ملنا شروع ہوئی۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے یہاں اولیگارکی (کارپوریٹ مافیا) ہندو بنیاد پرستی کا سرپرست بن کر گودی میڈیا (مین اسٹریم اور سوشل دونوں)اور سیاسی دھرمی انتہا پسند ابلاغ عامہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کو پاکستان میں رجیم چینج کے انقلابی ردعمل سے قبل اُلو بناتے سیکولر جمہوری بھارت کو ، آئینی انتخابی عمل سے ہی ہندو بنیاد پرست ریاست بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ بنیاد پرست مودی حکومت کو دوسری ٹرم کے الیکشن ۔18میں جو بھاری مینڈیٹ ملا اس میں روایتی بھارتی اولیگارکی (مافیا راج) میں ہندو بنیاد پرستی کی آمیزش تو الیکشن ۔13میں ہی ہوگئی تھی۔ 18میں یہ انتخاب سے پہلے پاکستان دشمنی پر مبنی جنونی انتخابی مہم اور پہلے ہندو انتہا پسندانہ رجیم کے پس منظر کے ساتھ انتہا پر پہنچ گئی۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے نتیجے میں عوام کی تائید سے ہی ایک پرخطر عوامی سیاسی رجحان کو بے حد تقویت ملنے سے پورے دورِ حکومت اور (اگلے کیلئے بھی) بھارت کو سیاسی استحکام تو نصیب ہوا جسکے نتیجے میں اس کی میکرو (ریاستی) اکانومی شہرہ آفاق بھارتی غربت کے باوجود ملک کو نصیب ہوئی لیکن بھارت کے سیاسی استحکام اور اکنامک گروتھ کا امیج عالمی وبا کو مینج کرنے میں بھارتی ریاستی مینجمنٹ کی مس ہینڈلنگ سے اس کی بیڈ گورننس اور مایوس کن مائیکرو اکانومی کا پردہ چاک ہوگیا۔ ہلاکتوں کے عالمی ریکارڈ میں اولین درجے کے ممالک کی فہرست میں شمولیت اور سب سے بڑے آکسیجن پروڈیوسر ملک ہونے کے باوجود کرونا مریضوں اور ان کے لواحقین پر ٹوٹی قیامت، گنگا جمنا میں تیرتی لاشوں کی بھرمار نے دنیا میں بھارتی امیج کا گراف زمین سے لگا دیا تھا۔ ایسے میں پاکستانی حکومت عوام اور انسانی فلاحی تنظیموں کی فوری مدد کیلئے آمادگی اور سوشل میڈیا پر مسلسل ہمدردانہ ابلاغ نے بھارتی حکمران جماعت بھاجپا کے پاکستان مخالف انتخابی پروپیگنڈے کے بھارتی عوام پر زہریلے اثرات کو دنوں میں رفوچکر کردیا۔ دوسری جانب مغربی سرحد کے اس پار پاکستان کی حقیقت یہ تھی کہ عالمی وبا کے بڑے چیلنج سے 6ماہ قبل اور بھارتی الیکشن ۔18کے ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی پاکستانی ووٹر اسٹیٹس کو کی روایتی جماعت کو مسترد کرتے بڑی حکومتی تبدیلی اور سماجی انصاف کی علمبردار( اقتدارکے حوالے سے) تازہ دم تحریک انصاف کو اقتدار میں لے آئے تھے۔ ہماری روایتی سیاسی جماعتوں بشمول الزامات کے درست ہونے کے عوامی یقینی حد تک موجود ’’سراپا غیر آئینی‘‘ حکومت کا پی ٹی آئی پر یہ الزام بڑی حد تک غلط اور (محدود حد تک) درست ہےکہ عمران حکومت فقط اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار تھی۔ ایسا ہرگز نہیں۔ پاکستان میں سیاسی تاریخ سازی کے ایک اہم ترین نوٹس ایبل فیکٹ کی حقیقت ملکی موجودہ صورتحال میں بہت ہی دلچسپ اور عمیق مطالعے کی متقاضی ہے۔ اس گھڑی سائنس کا مطالعہ و تجزیہ تو بہت ہوا ا ور ہو رہا ہے اس پر کوئی سائنٹیفک تحقیق اب تک نہ ہوئی، یہ مشکل اور چیلنجنگ تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیںاب تو یہ بے بہا دستیاب ٹیکنالوجی کے باعث کافی آسان ہوگئی ہے۔ الیکشن۔18میں پی ٹی آئی محتاط تجزیوں اور جملہ زمینی حقائق کی بنیاد پر ن لیگ سے قریب ترین پارلیمانی حیثیت میں تھی جس پر اسے آزاد امیدواروں کی حمایت دلانے میں خلائی مخلوق کے سرگرم کردار کی ادائیگی سے ایم کیو ایم کا واضح رجحان بھی پی ٹی آئی سے حکومتی اتحاد میں شمولیت کا ہوگیا تھا۔ جب ووٹنگ مشین بند ہوئی پی ٹی آئی کے امیدوار ہی زیادہ جیتتے نظرآ رہے تھے اس پر بوکھلاتے مریم اورنگزیب صاحبہ نے روایتی سے الزامات لگانے کی پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ الیکشن۔13میں نتائج کی تکمیل سے پہلے ایک ٹی وی پروگرام سے انگیج ہوتے میاں نواز شریف کی فتح کی قبل از وقت تقریر متنازع ہوئی اور پی ٹی آئی بہت سٹپٹائی، اتحادی ایم کیو ایم کی ہاتھ لگے بیلٹ پیپرز پر مہریں لگانے کی ویڈیو وائرل ہونے ،پھر لاہور میں ایل ڈی اے کے ریکارڈ میں نتائج نکلتے ہی آتش زدگی پر فوری یہ پبلک ڈس کورس ڈویلپ ہوا تھا کہ ایسا پی ٹی آئی کی جیت کے خوف سے ہوا۔ لیکن یہ اور اس سے قبل الیکشن میں بے قاعدگیوں، جانبداری اور وسیع پیمانے پر دھاندلی کا موازنہ ہرگز 8فروری کو واضح اور موجود ٹھوس ثبوت کے حامل نتائج کو یکسر الٹ کردینے سے کسی طور نہیں بنتا اور یہ حقیقت ہمسایہ پڑوسی ممالک سے لے کر اب پوری دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان میں کیا ہوا؟۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ابتر عوام کی جو ’’قوت اخوت عوام‘‘ اور جمہوری جذبہ پاکستانی عوام کا الیکشن۔ 18میں برپا ہوا اس نے تو بھارت میں مودی رجیم کے ’’ہندوتوا‘‘ کے پیدا کئے باطل سحر اور ’’اب کی بار چار سو پار‘‘ کے بیانئے کو پاکستان الیکشن۔24کے اڑھائی ماہ بعد اس وقت ٹھکانے لگایا اور کافور کیا جب پس منظر میں پاکستانی ووٹرز کا بیلٹ ریولیشن صرف پاکستان میں ہی نہیں اس کا میلان و رجحان، سرگرمیاں اور عمران خان کا جرأت مندانہ اور حکیمانہ ساتھ اپریل ۔22دینے سے شروع ہوکر بلند درجے پر اثر انگیز ہو رہا تھا۔ اس نے بھارت سے لے کر سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال تک کے عوام کو حکومتوں کی تشکیل میں HAVESکے اب تک کے کردار کو ’’قوت اخوت عوام‘‘ سے چیلنج کرکے HAVE NOTS کی بیداری اور بیلٹ ریولیشن اور (بنگلہ دیش میں) اظہار احتجاج کے حق کے منظم عوامی استعمال سے پلٹ کر رکھ دیا ہے، لیکن جس طرح جنوبی ایشیائی ممالک میں فوری (جیسا پاکستان میں ہوا) اور تجربے کے بعد اولیگارکی (مافیا راج) کی نئی فن کاریاں حربے، ہتھکنڈے اور فسطایت ناکام و نامراد ہوگئی، اسی طرح اب اولیگارکی کی پروردہ جنوبی ایشیائی سیاسی وپارلیمانی نام نہاد اشرافیہ کا ہاضمہ، خطے کی نتیجہ خیر حد تک بیدار ابتر آبادی کے بڑھتے سیاسی کردار سے بری طرح بگڑ گیا ہے اور ہر دو کی کشمکش میں طوالت اور شدت سے اسٹیٹس کو ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔ پڑھو اور سمجھ سکو تو سمجھ لو، خطے اور ملک کا بھلا اسی میں ہے۔

تازہ ترین