• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھرم بڑی چیز ہے، سابق وفاقی سیکرٹری احمد نواز سکھیرا نے پچھلے کالم پر خوب تبصرہ کیا، وہ کہتے ہیں’’میرے مرحوم والد کہا کرتے تھے، زندگی میں سب سے اہم چیز آدمی کا بھرم ہوتا ہے، اگر وہ ٹوٹ جائے تو بات ختم ہو جاتی ہے،بھرم قائم رہنا چاہئے۔مگر آج جب میں مرحوم والد کی باتوں کو سوچتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہماری آج کی زندگیوں میں نہ کوئی انسان ایسا ہے نہ کوئی ادارہ، جو متاثر نہ ہوا ہو۔ سب کا بھرم ٹوٹ گیا ہے، میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہماری واپسی صرف ایک ہی طریقے سے ہو سکتی ہے اور وہ ہے آئین۔ میں نے یہ باتیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران بھی کی ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہی متفقہ دستاویز ہے اور وہ ہے آئین پاکستان مگر اس کی پروا کون کرتا ہے۔ لوگوں کی ضدیں اور ذاتی مفادات، قومی مفاد سے بلند ہو چکے ہیں‘‘۔ اوورسیز پاکستانی ڈائسپورا کے چیئرمین افضل چوہدری کہتے ہیں کہ’’امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپ سمیت خلیجی ممالک میں بہت سے پاکستانی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان ملکوں میں پاکستانیوں کو یہ شکوہ نہیں کہ کوئی ان کے راستے کی رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ یہاں بسنے والے پاکستانی اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہے ہیں مگر ہم سب پاکستانی اپنے وطن کے حوالے سے ہر وقت متفکر رہتے ہیں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ریاست انسانی جتھوں کا نام تو نہیں بلکہ انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کرنے والے ادارے کا نام ریاست ہے، اگر ریاست رویہ اس کے برعکس ہو جائے تو اسے کیا کہا جائے؟ میں نے دو پاکستانیوں کے خیالات سے آپ کو اس لئے آگاہ کیا ہے کہ آج کل بنگلہ دیش میں حالات بہت خراب ہیں۔ بنگلہ دیش تو اچھا بھلا چل رہا تھا، ترقی کر رہا تھا، ایک مضبوط معیشت کے ساتھ بنگلہ دیش کی برآمدات بہت زیادہ تھیں، معیشت کے اعتبار سے سارک ملکوں میں بنگلہ دیش کا سب سے آگے جانا اس بات کی علامت تھا کہ وہاں نظام میں خرابیاں نہیں مگر اب ایسا کیا ہو گیا کہ بنگلہ دیش میں مظاہرے شروع ہو گئے، بے قابو مظاہروں میں شامل بنگالی نوجوانوں نے پولیس کی سرکاری گاڑیوں کو نہ صرف جلایا بلکہ گاڑیوں میں سوار اہلکاروں کو بھی دھو ڈالا۔ بنگلہ دیش میں یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ وہاں کوٹہ سسٹم قائم کیا گیا ہے، عوام نے کوٹہ سسٹم کو رد کر دیا ہے۔وہاں کرفیو لگانے کی کوشش کی گئی،فوج سے گولی چلانے کو کہا گیا مگر آرمی چیف نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ’’میں اپنے وطن کے بیٹے بیٹیوں پر گولی نہیں چلا سکتا ‘‘ اچھے بھلے چلتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت کو کیا سوجھی کہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا دے مارا۔ لوگ حیران ہوں گے کہ کون سا کوٹہ سسٹم؟ بنگلہ دیش کی حکومت نے 1971ء کی جنگ میں لڑنے والوں کے بچوں کیلئے سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ مقرر کیا، بنگلہ دیش کے طالب علموں نے اس کوٹے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کے خلاف سڑکوں پہ آ گئے ۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی مقبولیت چند دنوں میں ڈھیر ہوکر رہ گئی۔ بنگلہ دیش میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کا قصہ کئی ملکوں کے لئے پیغام ہے، صرف پیغام نہیں خطرے کی گھنٹی ہے کہ اب لوگ خاموش نہیں رہتے، لہٰذ ا جن جن ملکوں میں کوٹہ سسٹم ہے، ان ملکوں کو سوچنا چاہیے کہ اب انہیں نوکریوں سمیت دیگر معاملات میں کوٹہ سسٹم ختم کرنا پڑے گا۔ کوٹہ سسٹم جہاں کہیں بھی ہے وہاں نا انصافی ہے۔ لوگ نا انصافی قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نا انصافی کی وجہ سے ملک پیچھے رہ جاتے ہیں اور جن ملکوں میں انصاف ہوتا ہے وہاں ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا پورا موقع ملتا ہے اور جن ملکوں میں انصاف نہیں وہاں نا انصافی لوگوں کی صلاحیتوں کو نگل جاتی ہے، لوگوں کے حقوق کھا جاتی ہے، عزت دار لوگوں کو بے آبرو کر کے رکھ دیتی ہے، نا انصافی معیشت کو برباد کر دیتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ’’جس معاشرے میں کوئی بھوکا سویا تو سمجھ لو اس کے حصے کا کھانا کوئی اور کھا گیا‘‘۔ اسی لئے انہوں نے ایک اور جگہ فرمایا ’’کوئی حکومت یا معاشرہ کفر سےتو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور ناانصافی سے نہیں‘‘۔ آج پھر اسلم گورداسپوری یاد آ گئے کہ

یہ سانحے تو بہت جان لیوا ہوتے ہیں

یہ حادثے تو کوئی دل لگی نہیں ہوتی

شعور و فکر سے یہ کائنات روشن ہے

تعصبات سے تو آگہی نہیں ہوتی

تازہ ترین