• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات،بجلی کے بلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ، بنوں کے واقعات اور جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کے علاوہ بعض لوگوں کی طرف سے ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں انتہائی تشویشناک صورتحال کے اشارے ہیں۔ اگر اب بھی اس تمام صورتحال پرفوری توجہ نہ دی گئی جیسی کہ دینی چاہئے تو خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہے۔ صرف مذمتی اور دفاعی بیانات سے اب کام نہیں چلے گا۔ آپریشن عزم استحکام بھی حکومتی لیت ولعل اور خاموشی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ اگر چند ایک سوشل میڈیا ورکرز کو تحویل میں لینے سے حالات میں بہتری آسکتی ہے تو پھر ملک بھر میںایسے تمام ورکرز کو فوری گرفتار کرناچاہئے۔

ملک میں عدم استحکام کی کوششیں کون لوگ کرتے ہیں یہ کوئی خفیہ راز نہیں ہے۔ بنوں کے واقعات کے پیچھے کون ہے سب کچھ واضح ہے۔ بنوں کینٹ پر حملہ اور پھر امن مارچ میں فائرنگ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔ امن مارچ میں شرکا مارچ کے اندر سے فائرنگ اور اس کا الزام پاک فوج پرلگانا بالکل اسی طرح کی کارروائی ہے جس طرح 9مئی کے تخریبی واقعات کئےگئے جس کے مکمل شواہد کے باوجود پھر ان شرپسندوں سے اظہار لاتعلقی کا اظہار کیا گیا اور جوڈ یشل انکوائری کا مطالبہ کیاگیا۔ بنوں واقعات پربھی صوبائی سطح پرتحقیقاتی کمیشن اور جوڈیشل کمیشن کی باتیں کی جارہی ہیں۔

یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ کے پی اسمبلی میں آپریشن عزم استحکام کے خلاف قرار داد بھی منظور کرائی گئی اور اس سے پہلے بیانات اور خبروں کے ذریعے اس آپریشن کی مخالفت بھی کی گئی ہے ۔ یہ تو واضح ہے کہ آپریشن عزم استحکام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کرنا ہے۔ تواگر کوئی نہ دہشت گرد ہے نہ سہولت کار ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ جہاں تک اس آپریشن سے عام شہریوں کے متاثر ہونے کا پروپیگنڈا ہے تو یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ایسا ایک فیصد بھی ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پھر کیا اس آپریشن کی مخالفت کرنیوالے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا، عوام کا تحفظ ،ملکی امن اور استحکام نہیں چاہتے۔ اگر آپریشن میں تاخیر نہ ہوتی تو بنوں جیسے واقعات بھی نہ وقوع پذیرہوتے۔

گزشتہ روزجرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں افغانستان کے جھنڈے اٹھائے چند دہشت گردوں نے پاکستانی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا۔ سفارتخانے پرلگے پاکستان کے پرچم کی بے حرمتی کی اور عمارت کے اندر توڑ پھوڑ کی۔ تاثر یہ دیا گیا ہے کہ واقعہ میں ملوث شرپسندوں میں افغان شامل ہونگے لیکن اسی آڑ میں چند دیگر لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کی نشاندہی کرنے پرکام ہورہا ہے۔اس واقعہ سےیہاں چند سوالات بھی پیدا ہوئے ہیںکہ اگر اس میں دیگر لوگ بھی شامل تھےتووہ کون تھے ان کاتعلق کس ملک اور کس جماعت سے تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کے لئے جرمنی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ جرمن پولیس نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان بلوائیوں کو واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی کیوںنہ روکا نہ ہی گرفتار کیا آخر کیوں وہ یہ سارا تماشہ دیکھتی رہی؟۔ یہ بھی سوال ہے کہ اس شرپسندی اور بلوائیوں کو کن کی اشیرباد حاصل تھی اور کس نے اس کا باقاعدہ منصوبہ بنایا اور اس دہشت گردی کا انتظام کیا۔

اس مذموم واقعہ کی وجہ سے تو وہاں بسنے والے پرامن پاکستانی بھی اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس واقعہ کو سنجیدہ لے۔صرف جرمن سفیر سے احتجاج ریکارڈ کرانا کافی نہیں ہے۔ باقاعدہ طور پرجرمن حکومت سے اس واقعہ کی تمام تر تفصیلات سامنے لانے اور اس میں ایک ایک شرپسند کے خلاف سخت کارروائی کرنے پر زور دے اور اگر اس میں کسی بھی طرح کوئی پاکستانی ملوث ہے تو اس کے خلاف پاکستان میں قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی پاکستان کے خلاف ایسا سوچ بھی نہ سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین