بر صغیر کی معلوم تاریخ کا جتنا بھی مطالعہ کیا جائے وہاں پر ملتان کا ذکر نمایاں ملتا ہے۔یہ شہر کئی مرتبہ اجڑا اور آباد ہوا لیکن آج بھی یہ پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے۔سکندر اعظم ہو یا محمد بن قاسم۔شیر شاہ سوری ہوں یا افغان حملہ آور،مغل ہوں یا انگریز،سب نے اس شہر کی اہمیت تسلیم کی اور پھر انگریزی راج کی’’برکت‘‘سے یہاں پر ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔قیام پاکستان کے بعد یہاں پر دو خاندانوں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ملتان میں موجود گیلانی خاندان اُچ شریف سے ہجرت کر کے یہاں پر قیام پذیر ہوا۔قریب کی سیاسی تاریخ میں سید یوسف رضا گیلانی نے ضلع کونسل سے سفر شروع کیا اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وفا کی نئی تاریخ رقم کی،پیپلز پارٹی کے ساتھ وفا کے جرم میں انہیں نااہل کیا گیا لیکن پھر بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، آج وہ اور ان کے خاندان کے کئی افراد پارلیمان میں موجود ہیں اور اپنی وفاؤں کا خراج وصول کر رہے ہیں۔ملتان کی سیاست کا ایک اور بڑا نام مخدوم جاوید ہاشمی ہے۔انہوں نے طلبہ سیاست سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ مسلم لیگ کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ایسے دور میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی جب ساری قیادت جلا وطن تھی۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بدترین تشدد کا سامنا کیا، لیکن جب مسلم لیگ اقتدار میں آئی تو اس نے حسب روایت اس عظیم سیاستدان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس کا شیوہ ہے۔انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ایک دبنگ تقریر کے بعد استعفیٰ دیا اور باوجود کوشش کے واپس نہ لیا۔ان دنوں سوشل میڈیا پر متحرک ہیں، عملی سیاست کے بجائے صاحب فراش ہیں۔ملتان سے تعلق رکھنے والا تیسرا بڑا نام مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں اور وہی آج کے ہمارے کالم کا موضوع ہیں۔شاہ محمود قریشی کے بزرگ شیخ الاسلام مخدوم بہاؤ الدین زکریا ملتانی قریب 8 سو سال قبل ہجرت کر کے یہاں پر تشریف لائے اور یہاں پر اسلام کا چراغ روشن کیا۔قریشی خاندان کے مذہبی قد کاٹھ کی وجہ سے سیاست میں بھی انہیں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر رہے۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے سفر کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا۔وہ صوبائی وزیر رہے لیکن پھر انتہائی شائستگی کے ساتھ کسی بھی الزام تراشی کے بغیر مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئےاور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز رہے۔ لیکن جب قیادت کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے بڑے وقار کے ساتھ پیپلز پارٹی کو خیر باد کہا اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔شاہ محمود قریشی جب پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے اس وقت جہانگیر ترین کا طوطی بولتا تھا اور یہ کہنا بڑا مشکل تھا کہ ان کی موجودگی میں کوئی شخص عمران خان کا قرب حاصل کر سکے۔لیکن مخدوم صاحب نے اپنے طرز سیاست، باوقار انداز گفتگو اور شستہ لب و لہجے کی بدولت عمران خان کا قرب حاصل کیا اور وہ اس جماعت کے وائس چیئرمین یعنی نائب کپتان کے منصب پر جا پہنچے۔جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو وہ وزارت خارجہ کے منصب پر متمکن ہوئے۔ کہا جاتا تھا کہ جب بھی خان پر مشکل وقت آئے گا تو شاہ محمود قریشی ان کے نزدیک نظر نہیں آئیں گے لیکن دنیا نے دیکھا کہ جب مشکل وقت آیا تو جو قرب کا دعوی کرتے تھے وہ کہیں اور چلے گئے اور شاہ محمود قریشی نے نہ تو سمجھوتہ کیا،نہ پریس کانفرنس کی۔مشکل راستے کا انتخاب کیا اور تمام مشکلات سہتے ہوئے قریب ایک سال سے اپنے کپتان کے ہمراہ پابند سلاسل ہیں۔وہ باوقار انداز میں قید کاٹ رہے ہیں۔انہوں نے گرمی کا شکوہ کیا ہے نہ ہی گھر سے کھانا لانے کے مطالبے کیے ہیں۔کئی مرتبہ ناروا سلوک کر کے انہیں توڑنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ڈٹے رہے۔انہیں سائفر جیسے بے معنی کیس میں نااہل کیا گیا، سزائیں سنائی گئیں اور پھر بھی کام نہ بنا تو نو مئی کے کئی مقدمات میں انہیں نامزد کر دیا گیا۔ اس کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔مفاد پرستی، خودغرضی اور ذاتی مفادات کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے درمیان، شاہ محمود قریشی ایک تناور درخت کی مانند باوقار انداز میں کھڑے ہیں۔انکے بچوں زین قریشی اور مہربانو قریشی نے نامساعد حالات میں الیکشن لڑا۔زین قریشی نے تو دربار کے معاملات میں انتہائی سمجھداری کا ثبوت دیا اور خود کو ایک اہل نوجوان کے طور پر متعارف کرایا۔آپ تحریک انصاف سے اختلاف کر سکتے ہیں ان کے طرز سیاست میں کیڑے نکال سکتے ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کی وفا، جرات مندی، دلیری،بے غرضی اور استقامت کا انکار نہیں کر سکتے۔انکے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔انہوں نے کبھی وفاداری بیچی نہیں مفادات کا سودا نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے اسیروں اعجاز چوہدری،ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر مستقل مزاج لوگوں میں آج بھی تحریک انصاف کا نائب کپتان سر فہرست ہے اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان نے انہیں اپنا نائب بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا۔ایسے سیاسی راہنما ہماری سیاست کا بھرم ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں جماعت ان رہنماؤں کے ساتھ کیا رویہ رکھتی ہے۔