• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ رات میرے محبوب شاعر اور نہایت اعلیٰ درجے کے انسان سید ضمیر جعفری مجھے خواب میں نظر آئے، میں انہیں دیکھ کر گھبرا گیا۔ پہلے تو سوچا کہ نیند کا حصار توڑ کر اٹھ بیٹھوں مگر دیرینہ محبت بھرے تعلقات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا، مگر ضمیر صاحب نے میرے چہرے سے میرے احساسات کا اندازہ کر لیا اور بولے ’’تم بھی دوسروں کی طرح مجھے دیکھ کر ڈر گئے، مجھے کم از کم تم سے ایسی توقع نہیں تھی، تم تو مجھ سے بہت محبت کیا کرتے تھے‘‘۔ میں نے سہمی ہوئی آواز میں جواب دیا ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں تو آپ کی شکل دیکھنے کو ترس گیا تھا‘‘۔ ضمیر صاحب نے شاید میری بات پر یقین کر لیا اور بولے ’’میں آج کل اپنے پرانے دوستوں کو بہت مِس کر رہا ہوں مگر عجیب بات ہے جسے بھی خواب میں نظر آتا ہوں وہ چیخ مار کر جاگ جاتا ہے اور میں اس سے بات کرنے کو ترس جاتا ہوں‘‘۔ پتا نہیں کیا بات ہے، میں خود بھی ضمیر کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اور چاہتا تھا جلد سے جلد یہ خواب ختم ہو مگر ضمیر صاحب بہت دکھی لگ رہے تھے اور مجھے لگا وہ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے نارمل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’سنائیں عالم بالا میں کیسی گزر رہی ہے‘‘، بولے ’’عالم بالا میں ویسے تو بہت خوش ہوں مگر تم لوگوں کے حوالے سے بہت پریشان رہتا ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے، چند روز قبل میں اپنے ایک پرانے دوست سے ملا، جو ایک ٹی وی چینل کا مالک ہے، میں نے اس کے چہرے پر بے رخی دیکھی تو کہا یار لگتا ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں، میں تمہارا ضمیر ہوں، یہ سن کر اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس گئی اور بولا ’’کون ضمیر؟ میں کسی ضمیر کو نہیں جانتا‘‘، مجھے اس کی بات سے دکھ تو بہت ہوا، مگر میں نے کہا ’’یار میں وہی ضمیر ہوں جو میں کبھی تمہارے رگ و پے میں سمایا ہوتا تھا‘‘۔ اس نے کہا ’’تم ٹھیک کہتے ہو گے، مگر اب میں کسی ضمیر کو نہیں جانتا، خدا کیلئےیہاں سے چلے جائو، کیوں میرا چینل بند کرائو گے؟‘‘ یہ بتاتے ہوئے ضمیر صاحب کے چہرے پر گہرے ملال کے آثار نظر آئے اور مجھ سے پوچھا ’’یار اس نے ایسے کیوں کہا، میں تو اس سے محبت کرتا تھا اور وہ بھی میرے اس قدر قریب تھا کہ کوئی کام میری منشا کے خلاف نہیں کرتا تھا، اب اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘ میں انہیں اس بات کا کیا جواب دیتا، میں تو انہیں اپنے سامنے پاکر خود اندر سے سہما ہوا تھا۔ میں نے جواب دیا ’’سر! بس ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے، مجھے تو اپنی سمجھ نہیں آتی، میں دوسروں کے بارے میں کیا کہوں؟‘‘ مگر لگتا تھا ضمیر صاحب بھرے بیٹھے ہیں، بولے:چند روز قبل ایک پرانے دوست جو بہت مشہور سیاستدان ہے، سے ملنے اس کے خواب میں آیا اور اس نے مجھے دیکھتے ہی چیخ کر کہا ’’ضمیر خدا کیلئے مجھے اپنی یاد دلانے آئندہ میرے خواب میں نہ آنا، تمہارے کہنے پر میں اپنا کریئر خراب کرتا رہا، اب عزت کی روٹی کھا رہا ہوں خدا کیلئےاب میری جان چھوڑ دو‘‘۔ اس کے بعد اس نے بستر سے چھلانگ لگائی اور میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ ضمیر صاحب مجھے اپنی دکھ بھری داستان سنائے جا رہے تھے، انہوں نے ایک عالم دین کی کایا کلپ کے بارے میں بتایا، کچھ لکھاریوں کا قصہ سنایا، کچھ تجزیہ کاروں کا احوال بتایا، چند بیورو کریٹس انہیں دیکھ کر جس طرح گھبرائے اس کی تفصیل بیان کی، میں خاموشی سے سنتا رہا اور دل میں دعا کرتا رہا کہ خداوند! میں جتنی مروت دکھا سکتا تھا، دکھا چکا۔ اب ضمیر کی باتیں مجھ سے نہیں سنی جا رہیں، یااللہ! ان کی زبان بند کر دے یا مجھ سے سننے کی طاقت چھین لے، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ البتہ جب وہ مختلف طبقوں کی بے التفاتی کی داستانیں سناتے سناتے مسند ِانصاف کی طرف آئے تو میں نے سب ادب آداب اور سید ضمیر جعفری کیلئے اپنی بے پایاں محبت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چلا کر کہا ’’بس کریں ضمیر صاحب! بس کریں، اگر آپ سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جاتا تو بھول جائیں ان لوگوں کو جو کبھی ضمیر سے محبت کرتے تھے، آپ براہِ کرم عالم بالا میں واپس تشریف لے جائیں۔ آپ تو لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے اب انہیں رلانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے ان کی طرف دیکھا تو مجھے صرف آنسوئوں کی ایک جھالر نظر آئی۔ وہ جا چکے تھے اور آنسوئوں کی جھالر میرے لئے چھوڑ گئے تھے!

اور اب آخر میں کشمیری مجاہدین کے لئے میری ایک نظم ’’تمہارے راستے میں روشنی ہو‘‘ ملاحظہ فرمائیں:

(1)

میں کتنا نازاں ہوں اپنے لکھے ہوئے/حرف شگفتگی پر/میں سوچتا ہوں خدا نے مجھ کو ہنر یہ کیسا عطا کیا ہے/کہ میرے لفظوں کو خلعت فاخرانہ دے کر/مرا نصیبہ جگا دیا ہے/میں لاکھوں لوگوں کے آنسوئوں کو/میں ان کی افسردہ خواہشوں کو/میں ان کے پھیلے ہوئے دکھوں کو/سمیٹ لیتا ہوں اپنے دامن میں/میں اپنے ہنستے ہوئے قلم سے/میں اپنے لفظوں کے زیروبم سے/انہیں غموں سے نکالتا ہوں/اداس چہروں پہ مسکراہٹ کی روشنی جب طلوع ہوتی ہے/میری آنکھوں میں اک ستارہ خوشی سے رقصاں/پلک کی دہلیز تک پہنچتا ہے اور حیرت سے سارے بدلے ہوئے مناظر کو دیکھتاہے

(2)

مگر یہ قصہ بہت پرانا ہوگیا ہے/میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا/کہ چار سو روشنی ہے اور بے شمار آنکھیں/غزالی آنکھیں/میرے لہو میں اتر رہی ہیں/میں پوچھتا ہوں کہ اس نگر میں یہ روشنی کا غبار کیسا/ہوائوں میں یہ خمار کیسا/فضائوں میں اک صدا ابھرتی ہے/اور کہتی ہے/یہ شہیدوں کے خون کی مشعلیں ہیں، جن سے/ نگر نگر میں ہوا چراغاں/یہ مائوں، بہنوں کی، بیٹیوں کی سروں سے، اتری ردا کا صدقہ!/یہ روشنی سیب جیسے گالوں، گلوں میں/نیزوں کو زیوروں کی طرح پرونے سے/ہر دریچے سے آرہی ہے/عجیب منظر دکھا رہی ہے/کہ نقد جاں ہاتھ میں ہے اور بے شمار راہی بقا کے رستے پہ

(3)

میں دیکھتا ہوں کہ ایک عورت کہ جس کے چہرےپر مامتاہے/کہ جس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی رواں ہے/وہ اپنے بچے کی لاش پلکوں کی رہگزر پہ لئے کھڑی ہے/میں پوچھتا ہوں تمہیں ضرورت ہے میرے لفظوں کی/میں لاکھوں لوگوں کے آنسوئوں کی/سسکتی دم توڑتی رتوں کو/فضا میں پھیلے ہوئے دکھوں کو/میں اپنے لفظوں کے زیروبم سے/اداس چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوں/تمہیں ضرورت ہو میرے لفظوں کی تو بتائو/یہ سن کے اس نے گلاب بچے کا ماتھا چوما /پھر اس کے بہتے لہو میں انگلی ڈبو کے اس نے/یہ حرف لکھے/خدا کرے میرے دکھ سلامت رہیں کہ ان سے/ہمارے رستوں میں روشنی ہے/تمہارے رستوں میں ایک عرصے سے راحتوں اور سہولتوں نے/گھنے اندھیروں کا روپ دھارا/سہولتوں کا غبار جس نے تمہارے رستے چھپا دیئے ہیں/وفا کے تارے بجھا دیئے ہیں/یہ مات کھائے کچھ اس طرح سے کہ جتنے منظر ہیں تابہ منزل/وہ جگمگائیں، تمہاری آنکھوں میں مسکرائیں!/یہ دکھ وہ شعلہ بنے کہ جس سے کہیں نہ امکان تیرگی ہو/تمہارے رستے میں روشنی ہو!

تازہ ترین