مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے گھر میں ایک عورت کام کرتی تھی، اُس کا شوہر جوانی میں ایک حادثے کا شکار ہوکر انتقال کرگیا، تو وہ اپنے بچّوں کو لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد والدین بھی وفات پاگئے، تو اس کے بھائیوں نے گھر بیچ دیا اور حصّے بخرے کرکے چلتے بنے۔ ماں باپ اور چھت سے محروم ہونے کے بعد وہ مجبوراً کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہوکر اپنے بچّوں کے بہتر مستقبل کے لیے دن رات محنت مشقّت کرنے لگی۔
اس نے اپنی پوری جوانی اپنے بچّوں پر وار دی۔ صبح سے رات گئے تک کئی کئی گھروں میں کام کرتی اور اسی طرح اپنے بچّوں کو پال پوس کر جوان کیا۔ مَیں ایک روز اپنے گھر میں اُس کی محنت، مشقّت کی تعریف کررہا تھا، تو میری بیٹی، جومقامی اسکول میں گریڈ17 کی ٹیچر ہے، اُس نے اپنی ایک کولیگ ٹیچرکی عزم و ہمّت اور استقامت کا ایک واقعہ سُنایا، جو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
مس ناصرہ،بہت خُوب صُورت، خُوب سیرت اور اعلیٰ اخلاق کی حامل خاتون ہیں اور اُن کے شوہر بھی بیوی کی طرح بہت وجیہ و شکیل اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ دونوں کی آپس میں رفاقت، پیار ومحبت دیکھ کر رشک آتا ہے اور انھیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا کہ چند برس قبل وہ کسی ایسے حادثے کا شکار ہوئے ہوں گے کہ جس سے سنبھلنا بہت مشکل تھا۔ ہواکچھ یوں کہ ایک روز مس ناصرہ کے شوہراپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ مخالف سمت سے آنے والے ایک ٹرالر سے بچتے ہوئے اُن کی گاڑی بے قابو ہوکر ایک گہری کھائی میں جاگری۔ اس خوف ناک حادثے میں گاڑی چکنا چُور ہوگئی۔
فوری اسپتال پہنچانے کی وجہ سے وہ بچ توگئے، لیکن کوئی ہڈی پسلی سلامت نہ رہی۔ گردن پرکاری ضرب لگنے سے منہ بھی ٹیڑھا ہوگیا۔ مس ناصرہ کو اطلاع ملی، تو بھاگم بھاگ اسپتال پہنچیں، جہاں اپنے شوہر کی حالت دیکھ کرآنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا، لیکن بہت ہمّت سے کام لیا۔ چوں کہ دونوں ہی کے والدین حیات نہیں تھے، اس لیے سارا بوجھ اُن کےاپنے ہی کاندھوں پرآپڑا تھا۔ ایک طرف شوہر زندگی اورموت کی کش مکش میں بستر پر پڑے تھے، تو دوسری طرف اُن پر تین بیٹیوں کی ذمّے داری بھی تھی، لیکن اُنھوں نے حوصلہ نہیں ہارا، خدا کا شکر کہ اُن کے پاس اپنی گاڑی تھی۔
شوہر کی تیمارداری، بچّیوں کو اسکول چھوڑنا،لے جانا اور گھر کے کام کاج کی وجہ سے ان کی زندگی جیسے گھن چکّر بن کر رہ گئی تھی۔ اس دوران اللہ کا کرم اور ڈاکٹروں کی اَن تھک محنت رنگ لائی۔ ان کے شوہر کی ہڈیاں تو جڑگئیں، لیکن منہ سیدھا نہ ہوسکا۔ ڈاکٹرز کے کئی بورڈ بیٹھے، لیکن سب بے سود۔ مس ناصرہ علاقے کے ایک اللہ والے بزرگ کے پاس چلی گئیں۔ اُن سے بیمار شوہر کے لیے دعائیں کروائیں اور جب واپس جانے لگیں، تو بزرگ نےکہا کہ ’’چلتے پِھرتے، اٹھتے بیٹھتے اللہ کے مقدّس نام ’’یاذوالجلال والاکرام‘‘ کا ورد کرتی رہنا۔ اِن شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا، اللہ کو اُس کے اس نام سے پُکارنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔‘‘
وہ بزرگ کی ہدایت کے مطابق اللہ کو صدقِ دل سے پُکارتی رہیں اور پھر ایک دن جب اسپتال پہنچیں، تو ڈاکٹرز نے خوش خبری سنائی کہ ان کے شوہر کا منہ خود بخود سیدھا ہوگیا ہے۔ مس ناصرہ یہ سنتے ہی سجدے میں گرگئیں اور زاروقطار روتے ہوئے’’یاذوالجلال، والاکرام، یاذوالجلال والاکرام‘‘ کا ورد کرنے لگیں۔ بہرکیف، دو سال کے طویل علاج کے بعد جب ان کے شوہر کو پیروں پرچلانے کی کوشش کی گئی، تو کوششِ بسیار کے باوجود وہ اپنے قدموں پر کھڑے نہ ہوسکے۔ اُس موقعے پر اُن کی زبان پر یہی کلمہ تھا کہ ’’اللہ ہر شئے پر قادر ہے، وہ تو مُردے میں بھی جان ڈال سکتا ہے۔‘‘ خیر، اپنے شوہر کو گھر لے آئیں اور دل و جان سے اُن کی خدمت میں لگ گئیں۔
ایک دن جب وہ اپنی بچّیوں کو اسکول سے گھر لے کر آرہی تھیں، تو موٹر سائیکل پر سوار دو اوباش نوجوان،اُن کے ہاتھ میں چوڑیاں دیکھ کر اُن کا پیچھا کرنے لگے، چوڑیاں بہ ظاہر سونے کی لگ رہی تھیں، لیکن وہ تھیں آرٹیفیشل، اور پھر جوں ہی وہ گھر پہنچیں، دروازہ کھول کر ابھی گاڑی اندر پارک کی ہی تھی کہ اوباش نوجوان گیٹ پر آگئے اور گن پوائنٹ پر زبردستی اُن کی چوڑیاں اُتارنے کی کوشش کرنے لگے۔ مس ناصرہ نے اُن سے کہا، ’’بھائی! مَیں خود ہی اُتار دیتی ہوں اور جو کچھ بھی میرے پاس ہے، سب لے لو، لیکن اللہ کے واسطے مجھے اور میری بچّیوں کو کچھ نہ کہو۔‘‘
انھوں نےچوڑیاں اور10 ہزار روپے نقدچھین لیے، لیکن نکلتے ہوئے اُن کی نظر اُن کے شوہر پر پڑگئی، تو پوچھا، ’’یہ کون ہے؟‘‘ مس ناصرہ جو دل ہی دل میں مستقل ’’یاذوالجلال والاکرام‘‘ کا ورد کررہی تھیں، بولیں ’’یہ میرے خاوند ہیں، اور معذور ہیں۔‘‘ یہ سن کر دونوں اوباش نوجوان باہر نکل گئے، مگر پھر چند ہی لمحوں میں دوبارہ واپس آئے اور یہ کہتے ہوئے نقدی، چوڑیاں مس ناصرہ کو واپس کردیں کہ ’’بہن! ہم سے غلطی ہوگئی، ہمیں معاف کردیں۔‘‘ تب مس ناصرہ ایک سجدے میں گرگئیں اور زور زور سے ’’یاذوالجلال والاکرام یا ذوالجلال والاکرام‘‘ کا ورد کرتی رہیں۔
بہرحال، اس واقعے کے بعد دو سال مزید گزرگئے، مس ناصرہ نے حوصلہ برقرار رکھا اور دن رات اپنے شوہر کی تیمارداری میں لگی رہیں۔ اُن کے ہاتھ، پیر کی مالش کرتیں، انھیں سہارا دے کر اٹھاتیں، چلانے کی کوشش کرتیں، یہاں تک کہ ایک دن اپنے شوہر کو اُن کے قدموں پر کھڑے کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔
پہلے پہل وہ بے ساکھی کے سہارے چلے اور پھر بے ساکھی کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ آج ماشاء اللہ وہ دونوں اپنی ملازمت اور گھریلو زندگی میں مصروفِ عمل ہیں۔ شوہر کی صحت یابی کے بعد دونوں میاں بیوی گویا ایک نئی زندگی کا آغاز کرچکے ہیں۔ واللہ، کیا شان ہے میرے ربّ کی کہ وہ پُکارنے والے کو کبھی مایوس نہیں کرتا، بہ شرطیکہ صدقِ دل سے پُکارا جائے۔ (ایم آرشائق، کمال آباد، راول پنڈی کینٹ)