مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے پیارے دادا جان، چوہدری اللہ داد جٹ کوروٹانہ کا خمیر ضلع گجرات کی تحصیل، کھاریاں کے گاؤں عموانہ کی مٹّی سے اُٹھا۔ وہ ایک قد آور، بارعب اور صاف گو، مگر اَن پڑھ شخص تھے۔ ہمیشہ صاف، اُجلا لباس پہنتے اور ان کی شخصیت ’’مقامی دانش وَر‘‘ کی عملی تعبیر تھی۔ تاہم، بعض نامساعد حالات نے انھیں اپنے گاؤں سے ہجرت پر مجبور کیا، تو ان کا اپنے دو بھائیوں کے ساتھ پہلا پڑاؤ، لائل پور(فیصل آباد) کے گاؤں ہری سنگھ میں ہوا۔ دادا اپنے دونوں بھائیوں شاہ محمد اور محمد رمضان سے بڑے تھے۔
مذکورہ دیہات میں انھوں نے زمین ٹھیکے پر لے کر کاشت کاری شروع کردی۔ اس زمانے میں سکھوں، عیسائیوں نے گاؤں سے ہجرت کی، تو وہاں کی نمبر داری ان کے حصّے میں آگئی۔ پھردادا جان نے پچاس کی دہائی کے اواخر میں دوسری ہجرت ضلع وہاڑی کے گاؤں چک نمبر190/W.B میں کی، یہاں ایک مربع زرعی رقبہ خریدا۔ یہ وہ وقت تھا، جب انگریز ہاتھ دیکھ کر مفت زمین کسان کو دیتے تھے تاکہ جنوبی پنجاب میں آباد کاری کی جائے، ہر چند دادا جان اَن پڑھ تھے، مگر انھوں نے پہلا کام زمین میں باغ بانی کا کیا، اُس وقت دُور دُور تک کوئی باغ نہیں لگا تھا۔
ان کا معمول تھا کہ روزانہ نماز کے بعد اپنے ڈیرے پر چلے جاتے، باغ کی سیر کرتے اورملازموں کو ہدایات دیتے۔ حسبِ معمول ایک روز باغ گئے، تودیکھا کہ اُن کا بیٹا، بھتیجا اور پوتا وہاں بیٹھے پڑھ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، پھر ان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی۔ اگرچہ پچاس کی دہائی میں نئے آباد کاروں کو معاشی تنگ دستی کا سامنا تھا، لیکن اس کے باوجود دادا جان نے نہ صرف اپنے بیٹوں، بلکہ پوتے، پوتیوں کو بھی تعلیم دلوائی۔
اَن پڑھ ہونے کے باوجود ان کے عقائد خالصتاً توحید پر مبنی تھے۔ اُس دور میں، خواتین میلے، ٹھیلوں میں جاتی تھیں، مگر اُن کے یہاں کے مرد و خواتین کو کسی غیرشرعی میلے ٹھیلے میں جانے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔ وہ جب اپنے خاندان کے ساتھ اُس گاؤں میں آئے، تو اُس وقت وہاں بلا اجازت ایک دوسرے کے گھرآنے جانے کا چلن عام تھا، کیوں کہ وہاں زیادہ تر ایک ہی برادری کے لوگ مقیم تھے، مگر دادا جی نے اس کلچر کا حصّہ بننے سے انکار کیا، لہٰذا کسی کو بغیر دستک اُن کے گھر آنے کی اجازت نہ تھی۔
اگرچہ لین دین ہر خاندان کی ضرورت ہوتا ہے، مگر دادا کا حکم تھا کہ اگر کسی کو قرض دو، تو وصول کرنے اس کے گھرکبھی مت جاؤ، نہ تقاضا کرو، بلکہ قرض کی ادائی تک انتظار کرو۔ یہ روایت تاحال جاری ہے۔ اُس وقت گاؤں میں عام کلچر تھا کہ کام کرنے والے ’’کامے‘‘ جب کسی کے گھر جاتے، تو زمین دار کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ دادا جی نے اس فرسودہ رسم کو بھی ختم کیا اور اُنھیں عزت و احترام کا مقام دیا۔ یہ داداجان کی تعلیم سے رغبت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے گھرانے کا شمار پڑھے لکھے گھرانوں میں ہوتا ہے۔
اُن کے بڑے بیٹے محمد اسماعیل صوبے دار نے گاؤں میں طالبات کا پرائمری اسکول منظور کروایا، جب کہ چھوٹے بیٹے، محمد اشرف نے علاقے میں پرائمری اسکول منظور کروانے کے ساتھ گرلز اسکول کی اپ گریڈیشن میں بھی اہم کردار اد کیا۔ بعدازاں، ذاتی اخراجات سے سرکاری رقبہ منظور کروا کر اسے محکمہ تعلیم کے حوالے کردیا۔ اسکول کی تعمیر کے بعد اسٹاف کی فراہمی کا مسئلہ درپیش ہوا، تو محکمہ تعلیم کے افسران کے ایما پر ہمارے ہی خاندان کی تعلیم یافتہ بچیوں نے تدریس کے فرائض انجام دینا شروع کردیئے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج الحمدللہ، گاؤں میں بہت سی طالبات ایم فِل اور پی ایچ ڈی ڈگریز کی حامل ہیں۔
دادا جی کے ایک پوتے، محمد اکبر مرحوم اپنے حلقے کے اوّلین گریجویٹ تھے، جب کہ دوسرے پوتے، ڈاکٹرجاوید اصغر جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کی نثرنگاری پر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد، گورنمنٹ ڈگری کالج، جہانیاں میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے چکے ہیں۔ راقم بھی پی ایچ ڈی اسکالر اور لاء گریجویٹ ہے۔ جب کہ دادا کے سب سے چھوٹے پوتے، محمد عامر اصغر، ایم بی اے کرنے کے بعد فیملی کے ساتھ بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ نسلِ نو میں دادا جی کی پڑپوتی مریم جاوید اصغر، انگلینڈ میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔
نیز، ان کے پڑپوتے محمد ریحان ظفر نے قانون، جب کہ نعمان ظفر نے اٹلی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، جب کہ ان کی پڑپوتیوں میں عائشہ اکرام، ایم فِل فزکس، اقراء خالد اصغر ایم فل فوڈ اینڈ نیوٹریشن اور سب سے چھوٹی پڑپوتی، حرا خالد اصغر ڈاکٹر آف فارمیسی ہیں۔ یہ ہمارے لیے مقامِ شُکراور اعزاز کی بات ہے کہ آج ہمارے خاندان کا ہر فرد پڑھا لکھا ہے، جس کا پورا کریڈٹ ہمارے دادا، چوہدری اللہ جٹ کو جاتا ہے۔ یاد رہے، دیہی کلچر کی ایک اہم روایت حقّہ نوشی بھی ہے۔
کسی کے انتقال پر تعزیت کے لیے بھی لوگ آتے، تو اُنھیں حقّہ پیش کیا جاتا، جسے پنجابی زبان میں ’’پُھوڑی پر بیٹھنا‘‘ کہتے ہیں، لیکن دادا جی نے اپنی پوری زندگی کبھی حقّہ، سگریٹ نہیں پیا، نہ ہی اپنی اولاد کو اس کی اجازت دی، نتیجتاً پورے خاندان میں کوئی بھی تمباکو نوشی کی علّت میں مبتلا نہیں۔ جب کہ اُنھوں نے وصیّت کی کہ میرے مرنے پر کسی کو بھی ’’حقّہ‘‘ پیش نہ کیا جائے۔ یہ اُن کی خوش بختی تھی کہ وہ ایک سو سال سے زائد عُمر میں رمضان المبارک کے مہینے میں رب کے حضور پیش ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، (آمین)۔ (خالد محمود فیصل، ملتان)