• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

غلام محمّد، مشرقی پاکستان کے نام وَر افسانہ نگار تھے۔ تخلیقی صلاحیت، منفرد تخیّل اور نقطۂ نظر کی بدولت اُس زمانے کے چوٹی کے جرائد نقوش، فنون، افکار، دیپ، اوراق، ادبِ لطیف اور ساقی وغیرہ میں اُن کے افسانے شائع ہوتے تھے۔ مَیں اُس وقت ڈھاکا کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم تھا، وہیں متعدّد بارمیری اُن سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اُن کے دادا جان، اعظم گڑھ (یوپی) سے سابق مشرقی پاکستان کے شہر ’’کھلنا‘‘ آبسے تھے۔ 

غلام محمّد وہیں پیدا ہوئے، اُسی شہر میں اُن کے والد فقیر محمّد کا لرزہ خیز قتل ہوا، جس کا اُن کے دل ودماغ پر گہرا اثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ غلام محمّد کے افسانوں میں دنیا جہاں کے دُکھ، درد اور غموں کی عکّاسی نمایاں تھی۔ درحقیقت اُن کا پورا خاندان ہی کسمپرسی کا شکار تھا اور ظاہر ہے، ایسے حالات سے گزرنے والا نوجوان اسی قسم کی افسانہ نگاری کرسکتا تھا۔ 

بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ غلام محمّد میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ جن دِنوں معروف شاعر، محبوب خزاں ڈھاکا میں آڈیٹر جنرل کے عہدے پر فائز تھے، اُن کے دفتر میں ڈھاکا کے ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ محبوب خزاں نے غلام محمّد کو مقابلے کا امتحان دینے کا مشورہ دیا۔ 

غلام محمّد نے بھی اُن کے مشورے کو مقدّم جانا اور اپنی ذہانت و متانت سے مقابلے کے امتحان میں نمایاں کام یابی حاصل کرکے اور سیکشن آفیسر بن گئے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے اپنے دفتر کے ایک بنگالی سینئر افسر کی بیٹی سے شادی کرلی۔ اُن کے سسر، بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے، انہوں نے اپنے داماد کےلیے عظیم پور کالونی کے قریب ایک سرکاری کوارٹر الاٹ کروادیا، تو غلام محمّد اپنی اہلیہ کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئے۔

ابھی بنگلا دیش وجود میں نہیں آیا تھا، لیکن وہاں کے سیاسی حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رُونما ہورہی تھیں۔ غلام محمّد طبیعتاً انتہائی حسّاس اور محتاط انسان تھے۔ سو، انہوں نےحالات کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے بے حد محتاط رویّہ اپنالیا۔ اُن کی بہتر کارکردگی کے باعث اُنھیں ڈھاکا میونسپل کارپوریشن کاچیف ایگزیکیٹو سیکرٹری مقرر کیا گیا، تو یہاں بھی اُن کی محبّت اور خلوص کا وہی عالم تھا۔ 

وہ سب کے ہم درد و خیر خواہ تھے، دفتر میں بنگالیوں کی اکثریت تھی، سب ہی اُن سے خوش تھے اور اُن کا بے حد احترام کرتے تھے۔ پھر وہاں شورش برپا ہوئی اور مشرقی پاکستان، بنگلادیش بن گیا۔ بنگلادیش کےقیام سے قبل اور بعد میں بھی بہت خون خرابا ہوا۔ غلام محمّد ان حالات میں انتہائی محتاط ہوگئے تھے، انھوں نے اپنے سب دوستوں، قریبی عزیزوں، حتیٰ کہ بھائی، بہنوں کو بھی اپنے گھر آنے اور ملنے جُلنے سے منع کردیا تھا۔

وہ اگرچہ ایک بااثر بنگالی کے داماد اور ایک پاور فُل بنگالی خاتون پروفیسر کے شوہر تھے، اُن کے بچے بھی بنگلا زبان بولتے تھے، اس کے باوجود وہ بنگالی نہ ہونے کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ اُن کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اُردو بولنے والے لوگوں سے میل جول ترک کردیا، تو اُردو زبان میں خط وکتابت کے علاوہ لکھنا، پڑھنا بھی موقوف کردیا۔ اس دوران کوئی دس بارہ سال تک اردو زبان میں کوئی افسانہ تخلیق نہ کرپائے۔

بنگلادیش میں مکتی باہنی (عسکری تربیت یافتہ دہشت گرد تنظیم) نے اُردو بولنے والوں کو چُن چُن کرموت کے گھاٹ اُتارنا شروع کردیا تھا۔ اسی دوران انہیں کہیں سے بھنک مل گئی کہ غلام محمّد بھی غیر بنگالی ہے، لہٰذا موقع ملتے ہی ایک گروپ انھیں گھر سے اٹھا کر سلاٹر ہاؤس لے گیا۔ 

یاد رہے، ایسے کئی مقتل، ڈھاکا کے مختلف علاقوں میں موجود تھے، جہاں نفرت و تعصّب کی بنیاد پر لاتعداد لوگوں کو قتل کیا گیا تھا، جن میں غلام محمّد کے بہنوئی، معروف افسانہ نگار واحد نظامی بھی شامل تھے، وہ ایک دن محمّدپور سے آفس گئے، تو پھر کبھی واپس نہ آئے۔ انہیں بہت بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اسی طرح ہمارے پڑوس میں رہنے والے شاہد بھائی، جن سے میری پرائمری کے زمانے سے دوستی تھی، انھیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپڈا میں انجینئر کی ملازمت ملی، تو کومیلا سے ڈھاکا منتقل ہوگئے۔

انھیں دفتر کی طرف سے مع ڈرائیور گاڑی ملی ہوئی تھی۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھی دفتر جاتے رہے، بنگلا زبان بہت اچھی بولتے تھے، اس لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن شکل کیسے تبدیل ہوتی۔ ایک دن حسبِ معمول آفس سے گھر جارہے تھے کہ ڈرائیور نے راستے میں گاڑی خراب ہونے کا بہانہ بناکر اچانک ایک جگہ روک دی (اُن کا بنگالی ڈرائیور دراصل کئی روز سے تاک میں تھا) اور پھر قریبی گھر میں موجود مکتی باہنی کے غنڈوں کو ساتھ لے آیا۔ وہ شاہد بھائی کو دبوچ کر اندر لے گئے اور انتہائی سفّاکی سے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ 

غلام محمّد کو بھی مکتی باہنی کے غنڈے ایک ویران جگہ پر واقع سلاٹر ہائوس لے گئے تھے، جہاں ایک بہت بڑی سی خندق میں اردو بولنے والوں کو قربانی کے جانوروں کی طرح پٹخ کر بے دردی سے گلے پر چُھری پھیر دی جاتی تھی۔ اس موقعے پر وہاں موجود مکتی باہنی کے غنڈے ’’جئے بنگلا‘‘ کا فلک شگاف نعرہ لگاتے، تالیاں بجاتے اور اپنی خوشی کا والہانہ اظہار کرتے۔ غلام محمّد پتّھر کی مورتی بنے کھڑے تھے۔ ذرا سوچیے، وہ غلام محمّد، جو باپ کے قتل کا سوچ کرخوف سے کانپنے لگتا تھا، اُس وقت جب وہ خود مقتل میں موجود تھا اور اس کی باری آنے والی تھی، اُس کی کیا حالت ہوگی؟

غلام محمّد کے دفتر میں سب ہی اُن اس کے چاہنے والے تھے، اُن ہی میں سے ایک بنگالی ملازم نے غلام محمّد کی بیوی کو فون پر اطلاع دے دی کہ غلام محمّد کو مکتی باہنی کے کچھ لوگ اغوا کرکے سلاٹر ہاؤس لے گئے ہیں۔ یہ سُنتے ہی اُن کی بیوی آندھی طوفان کی طرح اپنی کار پر سلاٹر ہاؤس پہنچ گئیں۔ وہاں مکتی باہنی کے غنڈے انہیں تشدّد کا نشانہ بنارہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر انہوں نے چیخ کر کہا ’’اِنھیں کیوں مار رہے ہو۔ یہ تو بڑا بھودرو مانس (شریف آدمی) ہے۔‘‘ جواباً غنڈے بولے ’’نہیں میڈم! یہ بھودرو مانس نہیں، یہ اُردو بولنے والا ہے۔

یہ بھلا شریف آدمی کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ جب اُن کی بیوی نے دیکھا کہ یہ کسی طرح نہیں مان رہے، تو انتہائی سخت لہجے میں کہا، ’’مَیں بنگالی ہوں اور یہ میرا شوہر ہے، تو میرا شوہر کیسے غیر بنگالی ہوسکتا ہے؟ تم لوگ پہچانتے نہیں، مَیں کون ہوں؟‘‘ مکتی باہنی کے لڑکوں میں شاید کسی نے اُنھیں پہچان لیا تھا، وہ فوراً بولا، ’’آپ میڈم موکل (MOKUL)ہیں، ڈھاکا یونی ورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔‘‘ یہ سُن کر انہوں نے کہا، ’’مَیں تم سب سے کہیں بڑھ کر بنگلادیش تحریک کی علَم بردار ہوں۔ تم سے زیادہ اس کی شادھن (آزادی) کے لیے جدوجہد کرچُکی ہوں اور یہ میرے شریکِ حیات ہیں۔‘‘

مکتی باہنی کے غنڈے اُن کی اس بات پر مخمصے میں مبتلا ہوگئے اور بولے ’’سوری میڈم! شاید ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ ہم کسی اور کے دھوکے میں انہیں اُٹھا لائے ہیں۔‘‘ ان کی بیوی موکل نے بارعب لہجے میں کہا، ’’یہاں لانے سے پہلے اچھی طرح معلوم کرلیا کرو کہ وہ غیر بنگالی ہے بھی یا نہیں۔ خدا جانے تم لوگ اب تک کتنے بنگالیوں کو مارچکے ہو۔‘‘ سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اُن سے معافی مانگی، جس کے بعد موکل اپنے شوہر غلام محمّد کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف گئیں اور جس طوفانی انداز میں سلاٹر ہاؤس پہنچی تھیں، اسی رفتار سے وہاں سے نکل گئیں۔ 

غلام محمّد موت کے منہ سے بچ کر اپنے گھر آگئے تھے۔ بعد ازاں، وہ سرکاری نوکری کو خیرباد کہنے کے بعد ایک نجی ادارے سے منسلک ہوگئے، لیکن اُن کے دل ودماغ میں یہ بات بس گئی تھی کہ ’’مَیں ہزار برس اس سرزمین سے اپنا رشتہ استوار رکھوں، ایک بنگالی لڑکی سے شادی کرکے اپنے سارے پرانے رشتے ناتے ختم کردوں، اُردو لکھنا، پڑھنا، بولنا حتیٰ کہ اُردو بولنے والے عزیزو اقارب سے ملنا جُلنا بھی ترک کردوں، مگر میری اپنی شناخت نہیں بدلے گی۔ مَیں اُردو بولنے والا ہی سمجھا جاؤں گا۔‘‘وہ موت کی منہ سے نکل کر آنے کے بعد، اپنے گھر میں بھی خُود کو اجنبی محسوس کرنے لگے تھے۔

ڈھاکا سے اُن کا جی اچاٹ ہوگیا تو سکون کی تلاش میں پردیس کا رُخ کرلیا۔ کبھی دبئی، کبھی لیبیا، کبھی امریکا میں ملازمت کی، مگر نگری نگری پِھرنے کے باوجود اُن کے دل ودماغ کو کہیں سکون نہیں ملا۔ بالآخر 27 اگست 1997ء کو دنیا کی قید سے آزاد ہوکر راہئ ملکِ عدم ہوگئے۔ (جاوید محسن ملک، اسلام آباد)