مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے والد، رشاد محمود، میرے ایسے اتالیق تھے، جنہوں نے میری ساٹھ سالہ زندگی میں قدم قدم پر رہ نمائی و دست گیری کے ساتھ مجھے بہترین تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ کیا۔ وہ27جون 2024ءکو 92برس کی عُمر میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ میرے والد1932ء میں بمبئی (ممبئی) میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزاری، جو انہیں مفلسی سے نسبتاً خوش حالی تک لے گئی۔
بارہ سال کی عُمر میں یتیم ہوجانے پر اسکول چھوڑنے والے میرے والد نے زندگی میں اَن گنت کتب کا مطالعہ کیا، جب کہ اُن کی زندگی میں بھی ہمارے لیے متعدد اسباق ہیں۔ انھوں نے 92برس کی عمر تک بغیر کسی جسمانی یا ذہنی عارضے کے خوش و خرم زندگی گزاری، یادداشت آخر تک قابلِ رشک رہی، پوری زندگی ترقی پسند کارکن اور مفکّر کی حیثیت سے ہر قسم کے تعصّب، تنگ نظری اور قوم پرستی سے دُور رہے۔
میرے دادا ، عبدالرحیم کا آبائی وطن، سورت اور زبان گجراتی تھی اور میرے والد اُن کے تیسرے بیٹے تھے،جب کہ میری دادی، ترکیہ کے شہر، برسا میں پیدا ہوئیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ حیدر آباد دکن ہجرت کی، تو وہاں کے فرماں روا، میر عثمان علی نظام حیدرآباد نے اُنھیں پناہ دینے کی پیش کش کی، جو کمال اتا ترک کے سیکولر طرزِ حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس طرح میرے والد کی رگوں میں ترکی اور گجراتی خون گردش کرتا تھا۔
اُنھیں اپنے ابتدائی دَور کی تمام باتیں ازبر تھیں، جو اکثر و بیش تر ہمیں بتایا کرتے کہ1938ء میں جب وہ پہلی جماعت کے طالب علم تھے، تو اپریل میں ڈاکٹر محمد علّامہ اقبال کی وفات اور نومبر میں کمال اتاترک کی وفات پر اسکول میں چھٹی دی گئی۔ اُس وقت تک تحریکِ خلافت کی یادیں تازہ تھیں، لیکن اب ہندوستان کے مسلمانوں نے اس نئے ترکی کو تسلیم کرلیا تھا، جو کمال اتاترک کی قیادت میں اُبھر چکا تھا۔ انہیں وہ خبریں بھی یاد تھیں، جو وہ ریڈیو پر جرمن اور جاپانی فتوحات کے حوالے سے سُنتے تھے۔
1944ء میں میرے دادا اپنے چھے بچّوں اور دادی کو چھوڑ کر راہئ ملک عدم ہوئے تو اس وقت والد صاحب محض بارہ برس کے تھے۔ دادا کے انتقال کے بعد والد کی مفلسی کا آغاز ہوا، بمبئی کے گنجان آباد علاقے میں پورا خاندان صرف ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہوگیا، وہ اپنی ماں یعنی میری دادی کے ساتھ محنت مزدوری کرکے اپنے چھوٹے بھائی،بہنوں کا پیٹ پالنے لگے۔ گلیوں میں غبارے،ریلوے اسٹیشن پر اخباربیچتے، لیکن پھر بھی پیٹ بھر کھانا کم ہی نصیب ہوتا اور سخت محنت مزدوری کے باوجود ہمیشہ حصولِ تعلیم کے لیے بے چین رہتے۔
اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے اخبار کے ذریعے اُن کا رابطہ ترقی پسندوں سےہوا، تو وہ اُن کے لیے رضاکارانہ کام کرنے لگے، ساتھ ہی اپنی پارٹی کے اخبارات، جو اُردو، ہندی اور انگریزی میں شائع ہوتے تھے، بمبئی کے علاقوں اندھیری، باندرہ اور دادرمیں فروخت کرنے لگے۔اسی دوران انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے، جن میں ادبی، سماجی اور سیاسی معاملات پر گفتگو ہوتی، جسے وہ غور سے سُنتے۔
یاد رہے، ان مجالس میں ادب کے درخشندہ ستارے، کیفی اعظمی، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، نیاز حیدر، دیوندر ستیارتھی، بلونت گارگی اور جوش ملیح آبادی وغیرہ شریک ہوتے تھے۔1947ءکے بعد بمبئی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے باقاعدہ رضاکار بن گئے۔
انجمن کے سینئر ارکان نے میرے والد کو کتابیں بہم پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا،تو انھوں نے اپنے دَور کے تمام نمایاں لکھنے والوں کی کتابوں کا بھرپور مطالعہ کیا۔ دراصل انجمنِ ترقی پسند مصنّفین، بمبئی کے کچھ علاقوں میں کُتب خانے بھی چلاتی تھی، جن سے کتابوں کی فراہمی آسان تھی۔ 1948ء میں انجمن کی کانفرنس میں ایک رضاکار کارکن کے طور پر اس کے انتظام و انصرام میں مدد کی، بعدازاں، سینئر رضاکارکارکنوں کے ساتھ مختلف شہروں کے سفر اور اجلاسوں میں شرکت کی۔
اُن کی والدہ ان سرگرمیوں پر کچھ خوش نہیں تھیں، اسی غربت میں اُنہیں تپِ دق کا مرض لاحق ہوا اور 1950ء میں انتقال کر گئیں۔والدہ کے انتقال کے بعد وہ اپنی پارٹی کے لیے کُل وقتی کام کرنے لگے اور اگلے پانچ سال بمبئی میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے۔
پاکستان آنے کے بعد وہ کراچی میں رہے اور شیشے کی دکانوں پر ملازمتیں کیں۔ یہاں بھی ترقی پسند سیاست کا سلسلہ جاری رکھا، جو پاکستان میں خاصا مشکل کام تھا۔ اسی دوران بائیں بازو کی زیادہ تر قیادت زیرِ زمین یا رُوپوش ہوکر کام کرنے پر مجبور تھی۔1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی، حتیٰ کہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا۔
تیس سال کی عمر میں والد نے شادی کی اور اپنے پہلے بیٹے کا نام مصر کے رہ نما، جمال ناصر کے نام پر رکھا، جس نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے کر سام راجی طاقتوں کو للکارا تھا۔1957ء میں نو تشکیل شدہ نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے جی ایم سیّد کی رہائش، حیدر منزل میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی۔ کچھ عرصے بعد لاہور منتقل ہوگئے اور اگلے پانچ برس وہیں بسر کیے، جہاں وہ محنت مزدوری کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں میں بھی مشغول رہے۔ تب جنرل ایوب خان کا دَور شروع ہوچُکا تھا، جو مُلک میں بچی کھچی جمہوریت کے خاتمے کا دَور تھا۔
1964 ء میں والد نے دس سال بعد بھارت کا پہلا اور آخری سفر کیا۔ وہ بتاتے تھے کہ 1964ء تک پاک، بھارت تعلقات بُرے نہیں تھے، لوگوں کی آمدورفت اورنقل و حمل آسان تھی۔ کتابیں اور رسائل بڑی تعداد میں دونوں ممالک بھیجے جاتے تھے۔ ویزے بھی آسانی سے مل جاتے تھے۔ ثقافتی تبادلے ہوتے، مگر یہ سب اچانک بدل گیا، جب جنرل ایوب خان نے 1965ء میں بانئ پاکستان کی بہن، محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخابات میں ہرانے کا دعویٰ کیا۔ اُس وقت میرے والد نیشنل عوامی پارٹی میں تھے، جو فاطمہ جناح کی حمایت کررہی تھی۔
بعدازاں، میرے والد نے نیشنل عوامی پارٹی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ میں بھاشانی کے مقابلے میں عبدالولی خان کا ساتھ دیا اور1970ءکے انتخابات میں پارٹی سیکرٹری محمود الحق عثمانی کی انتخابی مہم، لیاقت آباد میں چلائی۔1971ءکےانتخابات کے بعد وہ اس بات کے شدید حق میں تھے کہ اقتدار جیتنے والی جماعتوں کوسونپناچاہیے۔ وہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی ایکشن کے سخت مخالف تھے۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو صاحب نے بائیں بازو کے لوگوں پر زندگی تنگ رکھی، مگر جب1977ء کے انتخابات ہوئے، تو انھوں نے پاکستان قومی اتحاد کے بجائے، پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔
انھوں نے زندگی بھر خُود کو مصروف رکھا۔ بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک مسلسل تگ و دو کی، کبھی فارغ نہیں بیٹھے۔ انھوں نے ہم سب بھائیوں کو اپنے ساتھ دکان پر بٹھا کر شیشے کا کام سکھایا اور کاری گر بنایا تاکہ ہم اپنی روزی خود کما سکیں۔ اُن کی زندگی میں سُستی و کاہلی کا کوئی تصوّر نہیں تھا، وہ کاہلی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ہم نے، اُن سے ایک سبق کتابوں سے محبّت کا بھی سیکھا۔ بمبئی میں وہ مستقلاً مدن پورہ کے علاقے کی ’’شاہد فری لائبریری‘‘ جاتے اور دیگر کتب خانوں سے بھی بہت محبّت و انسیت رکھتے تھے۔
ہم نے اپنے بچپن سے انہیں روزانہ دو چار اخبارات پڑھتے دیکھا۔ اُنہیں سب معلوم ہوتا کہ اُن کے شہر، مُلک اور دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ یوں تو وہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہ کرپائے، لیکن انہیں دنیا کے ہر موضوع سے دل چسپی تھی اور ان ہی سے مجھ میں بھی جاننے کی خواہش پروان چڑھی۔ تاریخ، حالاتِ حاضرہ، سیاست، مذہب، ادب، ادبیاتِ عالم، نفسیات، سماجیات غرض یہ کہ انہیں ہر شعبے سے دل چسپی تھی۔ وہ ہمیں اکثر ٹھیلوں اور کیبنز سے پرانی کتب خرید کردیتے کہ نئی کتاب کے لیے وسائل نہیں تھے۔ جب ہمیں انگریزی نہیں آتی تھی، تو عالمی ادب کے اُردو تراجم سے فائدہ اٹھانا سکھایا۔
مَیں نے اُن سے یہ سبق بھی سیکھا کہ اپنے اردگرد ہونے والی ہر چیز میں دل چسپی لے کر اس کے بارے میں ممکنہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ ہمیشہ ہمیں ہر قسم کے تعصّب اور تنگ نظری سے بچنے کا درس دیا کرتے۔ اگرچہ اُن کے دوست احباب مختلف مسالک، قومی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے، مگر وہ سمجھتے تھے کہ مُلک و قوم سے محبّت رکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ دیگر سے نفرت کرنا شروع کردیں۔
انہوں نے ہمیں سکھایا کہ ہر قسم کے جنگجویانہ اور ’’ازلی دشمن‘‘ والے بیانیے سے بچنا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی ازلی دوست یا دشمن نہیں ہوتا، سب کہ اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ سیکولرازم کا مطلب یہی سمجھتے تھے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کا احترام اور تحفّظ کیا جائے۔ایک اور سبق ہم نے اُن سے یہ سیکھا کہ فن و ثقافت کی قدر کی جائے۔
اُنھیں فلمیں بہت پسند تھیں، وہ بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کے شوقین تھے۔1940ءاور 1950ءکے عشروں کی فلموں کے اداکار وں ،ہدایت کاروں کے ساتھ انھیں موسیقاروں، نغمہ نگاروں کے نام بھی یاد ہوتے تھے۔کوئی اگر کسی گیت کا ایک مصرع سُنادیتا، تو وہ پورا گیت گادیتے۔وہ کہا کرتے کہ اچھی کتابوں کی طرح اچھی فلمیں بھی سماج اور سماجی مسائل سمجھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔
ساتھ ہی اُن کی شاعری پر گرفت بھی کمال تھی۔ انہیں بے شمار غزلیں، نظمیں ازبرتھیں، جو انہوں نے عرصہ پہلے کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، علی سردار جعفری اور نیاز حیدر وغیرہ سے خود سنی تھیں۔ پھر غالب اور میر سے لے کر جون ایلیا اور افتخار عارف تک بے شمار شعراء کے کلام سے برمحل اشعار سُنایا کرتے تھے۔
وہ ہمیں ادبی و سیاسی بیٹھکوں میں لے جاتے، پریس کلب اور آرٹس کائونسل سے لے کر پی ایم اے اور بزمِ علم و دانش تک جہاں بھی ممکن ہوتا، ہمیں لے کر جاتے۔ اُن ہی سے ہم نے سیکھا کہ زندگی میں کبھی بناوٹ اور تصنّع سے کام نہیں لینا چاہیے۔ وہ عبیداللہ علیم کا یہ شعر اکثر دہراتے؎مَیں کھلی ہوئی ایک سچائی، مجھے جاننے والے جانتے ہیں.....مَیں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا۔ (ڈاکٹر ناظر محمود،اسلام آباد)