• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر بھر اس زندگی، اِن غلطیوں اور اِن انتخابات سے ہم سیکھتے رہتے ہیں، "انتخاب" سے مراد یہاں چوائس ہے، سن 2018 یا سن 2024 کا انتخابی آر ٹی ایس یا فارم 47والا قصہ نہیں۔ سب انتخابی کہانیاںاپنی جگہ ایک الگ ہی "آرگینک کیمسٹری" ہے!

کچھ باتیں ہیں چند سیاست دانوں اور ڈپلومیٹس کی جو یادوں کے دریچے کھول رہی ہیں لیکن راستے میں رکھی یہ"جب تاریخ دہراتی ہے" (ایس ایم ظفر) ، جن سے مل کر زندگی عشق ہو جائے " وہ لوگ (سید وقاص جعفری) ، "کارِ زیاں" اور " خد و خال خاک ہوئے" (کلیم احسان بٹ) تصانیف طَوعاً و کرہاً آنکھیں نکال رہی ہیں ، ان سے نا نمٹ لیں ؟

مجھے یہ دکھ عمر بھر رہے گا کہ ماضی میں ایک دفعہ ایس ایم ظفر مرحوم کے حکم پر ان سے ملنے نہ جا سکا تاہم بات فون تک محدود رہ گئی، بحیثیت سینیٹر اور وزیر کے علاوہ بطورِ قانون دان اور مصنف بھی ان کی ملک و ملت کیلئے خدمات ہیں، ان کے پیشہ ورانہ عادات و اطوار ہر دور میں قابلِ تقلید رہے۔ بیٹے نے جب تازہ تازہ لا کیا تو میں نے اس سے "درخواست" کی تھی ایس ایم ظفر کی "میرے مشہور مقدمے" پڑھیں، اس نے یہ کتاب خریدی ضرور مگر لگتا ہے پڑھی نہیں، تھوڑی پڑھی، ورنہ پروفیشنل اثرات ضرور نظر آتے اور تاریخ کے حوالے بھی رکھتا، یہاں جو بدقسمتی عرض کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ نوجوان نسل تاریخ ، فلسفہ حتیٰ کہ اپنی ڈگری کے بعد اپنی ہی فیلڈ کے مطالعہ میں تساہل پسند ہے ورنہ مائنڈ یوور اون بزنس کی برکات سے ہم کنار ہوتی، اور ہم جوہری توانائی سے بڑھ کر تحقیق و تفتیش کی بنیاد پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہوتے۔" وہ لوگ " کو بک کارنر جہلم نے واقعی محبت کے نام مرتب کیا ہے کہ ہر ہر حرف الفت لگے: مولانا مودودی سے قاضی حسین احمد، سید منور حسن، ڈاکٹر حسن صہیب مراد، امجد اسلام امجد کے علاوہ ہمارے دوست انوار حسین حقی کی جو یادیں تازہ کی ہیں ان سے پھر وہی دیپ جلے جن کی روشنی کہتی ہے مائنڈ یوور اون بزنس کم و بیش بیس انداز سے ہم کلام ہوتا جس کا ڈیسنٹ وے کہتا ہے ، ارے پیشہ ورانہ انداز میں اپنی مہارتوں کو نکھارئیے اور نتائج کو مزید بہتر اور بناؤ کا پیرہن پہنائیے کہ اسی میں ذاتی اور اجتماعی بھلا ہو۔ کامیاب لوگوں میں یہ طریقہ اور سلیقہ بخوبی ملے گا۔ بہرحال مجموعی طور پر تحقیق میں محقق اقوام سے ہم معاشی اور سیاسی طور بہت پیچھے ہیں۔ بقول کلیم احسان بٹ:

شہرِ غزل کے کوچہ و بازار بند ہیں

چلتے تھے کاروبار ابھی کل کی بات ہے

جہاں معیشت اور داخلی سیاست ایسے باب ہیں جن میں جدتوں اور حقیقتوں کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا، یعنی معیشت کو ماڈرن طرز دیتے ہوئے قوم کو سچ بتانا ضروری ہے کہ ہم کہاں فائدے میں ہیں اور کہاں نقصان میں، اور داخلی چیلنجز بھی روزانہ کی بنیاد پر قوم کے سامنے ہونے چاہئیں ورنہ کاروبار سے روزمرہ تک سب پہیلی لگیں گے، ایسا کوئی معاہدہ ریکوڈک جیسا ہو یا آئی پی پیز ( انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) ان کا عوام کو علم ہونا چاہئے۔ وہ زمانے گئے جب حکومتیں عوام سے چھپاتی تھیں اور کبھی امریکہ سے خاموش معاہدہ تو کبھی افغانستان سے عجیب تعلق ، ایسی سب چیزیں بزنس اور انسانی نفسیات سے کھلواڑ کرتی تھیں۔ ممکن ہے کچھ معاہدوں اور بزنس میں حکومتی سیکرٹ چلتا ہو لیکن ہر چیز ہی پہیلی ہوتی چلی جائے تو یہ گڈ گورنس کے منافی ہے۔ عالمی برادری میں سفارت کاری کا تعلق بھی کوئی پہیلی نہیں، وزارتِ داخلہ و وزارت خزانہ و وزارتِ خارجہ کی مثلث کا ہر ہر زاویہ اہم ہے اور ہر زاویہ میں مائنڈ یوور اون بزنس کی خودمختاری اور لنکس کو بیک وقت ساتھ چلنا ہوگا۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ تینوں ایجوکیشن کو بھی ساتھ لیں۔ابھی حال ہی میں قوم نے اولمپکس میں پاکستان کے اسپورٹس کا جو حال دیکھا اس پر تو قومی نوحہ لکھنا بنتا ہے۔ یہاں بھی بدقسمتی وہی کہ صوبوں سے مرکز تک اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے محکمے اور وزارتیں مائنڈ یوور اون بزنس سے سینکڑوں میل دور اور دیگر کے کاموں میں ٹانگ اٹکانے میں سارے کے سارے اندر۔ اولمپکس کارکردگی دیکھ کر لوگ کہنے لگے ہیں کہ تحقیق کیجئے جن کے بھانجے بھتیجے سیر کرنے گئے تھے، ممکن ہے ایسا نہ ہو مگر عوام مقننہ اور انتظامیہ پر یہ ٹرسٹ تھا ، عدلیہ پر پہلے ہی جو ہے سو ہے! ایسے میں جو نوجوانوں کے کیمپ میں پیغام جا رہا ہے وہ یہی کہ وہ برین ڈرین ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اور یہ ٹیلنٹ غیر اقوام کی خدمت کرے گا ، اور ہم بنجر زمین ہوتے جائیں گے۔

ابھی حال ہی میں پاکستان کے 39 ویں وزیر خارجہ اسحق ڈار اور ڈپٹی وزیراعظم کا یہ کہنا سامنے آیا ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے بہت کوشش جاری ہے۔ مان لیا آپ کوشش کر رہے ہیں ، جناب! جب وزیرِ خزانہ تھے تب کیا کیا ؟ کاش اسحاق ڈار کو مفتاح اسمٰعیل کی جگہ نہ لایا جاتا کم از کم وہ سچ تو قوم کے سامنے رکھتے تھے ابہام نہیں۔ کوئی حکومت کو یہ بھی بتادے کہ مہنگائی کی نام نہاد کمی میں رسد و طلب کے غیر متوازن ہونے کا گہرا عمل دخل ہے۔

پھر، یہ مرثیہ گوئی بار ہا کر چکا ہوں کہ وزارتِ خارجہ کی وجہ سے بھی پاکستان کی بڑی رسوائی اور پسپائی ہے۔ پاکستان کا اصلی ڈیٹا عالمی اداروں کو نہیں پہنچایا جاتا ، کوئی ڈیٹا اکٹھا کرے تو آگے پہنچائے، عالمی اداروں کو جو جیسا ملا انہوں نے شائع کردیا اور کبھی عدالتی نظام میں بدتر تو کبھی تعلیمی نظام میں۔ ہر ملک میں سفارتی عملے کی فوج ظفر موج کیا کرتی ہے؟ کچھ سفرا کا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاش یہ لوگ آغا شاہی کو ادارہ سمجھ کر عبد الستار جیسے ڈپلومیٹ کی کتاب سبق سمجھ کر پڑھ لیں۔

وزارتِ خارجہ و داخلہ و خزانہ میں قوالیوں کی نہیں اپنے اپنے بزنس پر توجہ کی آج اشد ضرورت ہے!

تازہ ترین