• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے داخلی عدم استحکام اور خلفشار میں انتخابات کا خوف بہت بڑا عامل رہا ہے۔ 1957ء میں وزیر اعظم سہروردی نے فروری 1959ء میں عام انتخابات کا اعلان کیا، مگر اِس دوران خان عبدالقیوم خاں کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ کا 28میلوں پر محیط جلوس نکلا اور مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کی طرف سے ایک بہت بڑی ریلی میں آزاد خارجہ پالیسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اِس پر امریکہ میں گہری تشویش پیدا ہوئی کہ انتخابات میں وہ جماعتیں برسرِ اقتدار آ جائیں گی جو اُسکے مفادات کیخلاف ہونگی، چنانچہ سول ملٹری قیادت کے گٹھ جوڑ سے صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کا آئین منسوخ کر کے ملک میں 8؍اکتوبر 1958ء کی شب مارشل لاء لگایا اور جنرل ایوب خاں کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ تقریباً گیارہ سال بعد چشم فلک نے پاکستان کے اُفق پر ایک اور تاریخ شکن منظر اُبھرتے دیکھا۔ وہی جنرل ایوب خاں جنہوں نے پارلیمانی جمہوریت کو عوام کے مزاج اور ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا تھا ٗ وہ بہت بڑے عوامی احتجاج سے پسپا ہو کر اپوزیشن جماعتوں کے دو بڑے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام بحال کیا جاتا ہے اور آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونگے ٗ مگر حالات روز بروز شعلہ بداماں ہوتے جا رہے تھے اور اُس وقت کے فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاںنے انتخابات کا راستہ روکتے ہوئے 25مارچ 1969ء کو مارشل لا نافذ کر دیا اور 1962ء کا دستور تاراج کر ڈالا۔بعد ازاں دستور ساز اسمبلی کیلئے انتخابات کا اعلان کیا۔
یہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور اس کے مدہوش ساتھیوں کی عاقبت نااندیشی اور کور چشمی تھی کہ اُنہوں نے انتخابی مہم کا دورانیہ ایک سال تک پھیلا دیا۔ اِس عرصے میں ہماری قومی سیاست کو طرح طرح کی بلاؤں نے آ گھیرا۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئیں اور اُن کی جگہ علاقائی عصبیتیں اور طبقاتی نفرتیں بڑھتی گئیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ عصبیت کے نام پر عوامی لیگ نے ایک فاشسٹ جماعت کا روپ دھار لیا جبکہ پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نوجوانوں کی بلاخیز طاقت بن کر اُبھری۔ جذبات عقل و ہوش پر اِس قدر غالب آ گئے اور انتخابی عملہ نظریاتی طور پر اتنا تقسیم ہو چکا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے ہتھیار بند غنڈوں نے اپنی حریف جماعتوں کے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک آنے ہی نہیں دیا۔ کرنل صدیق سالک (مرحوم) جو اُن دنوں مشرقی پاکستان میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے ٗ اُنہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے اور انتخابات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ’’فری فار آل‘‘ تھے۔ پنجاب اور سندھ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ بوگس ووٹنگ کی روک تھام کا کوئی معقول بندوبست نہیں تھا۔ شناختی کارڈ کی شرط تھی نہ فہرستوں میں رائے دہندگان کی تصویریں شامل تھیں ٗ چنانچہ خواتین کے غول کے غول ایک پولنگ اسٹیشن سے دوسرے پولنگ اسٹیشن تک جاتے اور بڑی آسانی سے جعلی ووٹ بھگتائے جاتے۔ اِس طرح وہ عناصر انتخابات میں کامیاب ہو گئے جو اقتدار کی خاطر پاکستان کو قربان کرنے کے لیے اندھے ہو گئے تھے۔ انتخابی نتائج نے پاکستان کو سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کا ایک بھی اُمیدوار مغربی پاکستان میں کامیاب نہیں ہوا اور یہی معاملہ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا تھا۔ انتخابات کا خوف جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کے رگ و پے میں شروع سے رچا بسا تھا ٗ وہ اِس کی تنگ دلی اور بے بسی سے ایک خوفناک حقیقت بن کر سامنے آ گیا تھا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔
مسٹر بھٹو سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد برسراقتدار آئے ٗ تو اُنہوں نے کمال دانش مندی سے 1973ء میں قوم کو ایک متفقہ دستور دیا اور پہلی بار اِس امر کا اہتمام کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اِس کے ارکان مکمل طور پر اعلیٰ عدالتوں کے فاضل جج صاحبان سے لیے جائیں تاکہ ایگزیکٹو کا کوئی رول باقی نہ رہے۔ بظاہر یہ نظریہ اور فلسفہ بڑا دلکش اور حددرجہ خوش آئند نظر آتا تھا ٗ مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ ایک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں تھا اور اِس کی تعمیر میں بہت خرابی مضمر تھی۔ مارچ 1977ء میں انتخابات جس الیکشن کمیشن کے تحت منعقد ہوئے ٗ اُس کے سربراہ سپریم کورٹ کے فاضل جج تھے ٗ مگر پوری قوم اُن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور چار ماہ کی جاں گسل کشمکش کے بعد جنرل ضیاء الحق کو مارشل لا نافذ کرنا پڑا ٗ کیونکہ حکومت کی مشینری مفلوج ہو گئی تھی اور سیاسی تصفیہ وہم و گمان میں گھڑا ہوا تھا۔ اِس کے بعد ہونے والے انتخابات کے بارے میں دھاندلی اور ’’پری الیکشن انجینئرنگ‘‘ کے سنگین الزامات لگتے رہے اور اب مئی 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کی یہ آبزرویشن سامنے آئی ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیٹی کا نظام خراب تھا اور اب وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا انتظامی کردار ادا کرے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن انتظامی صلاحیت سے یکسر محروم ہے، کیونکہ جج صاحبان عدالتی معاملات میں تو ایک نپی تلی اہلیت رکھتے ہیں ٗ لیکن انتظامی امور چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں نہ اُنہیں اِس کی تربیت ہوتی ہے جبکہ ملک میں ایک دن کے اندر وفاقی اور صوبائی انتخابات کا انعقاد اور اِسی روز نتائج کا اعلان غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کا متقاضی ہے۔ انتخابی عمل میں لاکھوں افراد شامل ہوتے ہیں جن کی تربیت اور اُن کی نقل و حمل جنگی بنیادوں پر کی جاتی ہے جو فاضل جج صاحبان کے بس کی بات نہیں۔ بیسویں آئینی ترمیم نے چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت ایک الیکشن کمیشن کے رکن کے برابر کر دینے سے الیکشن کمیشن کو مزید ضعف کا شکار کر دیا ہے۔ اسی ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگے تھے اور وہ دیانت داری کی نہایت اچھی شہرت رکھنے کے باوجود انتخابات کو اعلیٰ معیار کے مطابق منعقد کرانے میں ناکام رہے۔
میں گزشتہ دس پندرہ برسوں سے لکھتا آ رہا ہوں کہ آئین میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کی تشکیل میں بنیادی تبدیلی لائی جائے اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک افراد اِس میں شامل کیے جائیں۔ بھارت کا تجربہ ہمارے سامنے ہے ٗ وہاں اسی کروڑ ووٹروں پر محیط انتخابات کے لیے دو الیکشن کمیشن قائم ہیں جو چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ صرف دو ارکان پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں افراد سول سروس سے لیے جاتے ہیںجو اپنے اختیارات بڑی مستعدی ٗ غیر جانب داری اور غیر معمولی انتظامی صلاحیت کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں۔ وہاں انتخابات کے نتائج چار پانچ ہفتوں کے بعد سنائے جاتے ہیں جن پر کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہیں ہوتا ٗ کیونکہ الیکشن کمیشن کی اعلیٰ کارکردگی سے پوری قوم مطمئن ہے۔ اِس طاقت ور اور بااختیار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں حکمران جماعتیں ہی انتخابات کراتی ہیں اور اُنہیں انتخابات کے ضابطوں سے انحراف کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں نگران حکومتوں کا تجربہ بھی ایک مذاق ثابت ہوا ہے اور وہ انتخابات کے عمل میں غیر جانب داری کا اہتمام کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس کی آبزرویشن کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا انتظامی کردار ادا کرے ٗ لیکن یہ کردار اس کی ہیئت اور دائرہ اختیار کو مکمل تبدیل کیے بغیر ادا نہیں کیا جا سکے گا اور بڑی عمر کے اور ذہنی طور پر زوال آمادہ جج صاحبان کے بجائے چاق چوبند اور اعلیٰ منتظمین کو یہ کام سونپنا ہو گا جو تحصیل کی سطح سے لے کر وفاقی سطح تک نظم و نسق چلانے کا تجربہ رکھتے ہوں ٗ البتہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان الیکشن ٹربیونلز انتخابی عذرداریوں کا بروقت فیصلہ کر کے انتخابی نظام کو بڑی تقویت پہنچا سکتے ہیں۔
تازہ ترین