• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھروں کی قدر نہ کرنے والے بے گھر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ گھر آسانی سے نہیں بنتے بلکہ ان کے لیے قدم قدم پر قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ خلوصِ نیّت، عزمِ مصمّم، اَن تھک محنت، مستقل مزاجی، یک سوئی اور نشانِ منزل پر نظر ہی ایک گھر کے حصول کو ممکن بناتی ہے۔ دُنیا عارضی ہی سہی، لیکن ہر انسان کے لیے انفرادی حیثیت میں اپنا گھر اور بہ حیثیتِ قوم اپنا مُلک، اپنی سرزمین ناگزیر ہے۔ پیروں تلے زمین اور سَر پہ چھت کتنی عظیم، ان مول نعمت ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے، جسے یہ نعمت میسّر نہیں۔

ہمارے وطنِ عزیز کی تاریخ بڑی منفرد اور تکلیف دہ ہے، کیوں کہ برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور نظریاتی مملکت کا قیام ایک غیر معمولی واقعہ تھا، جس کی دُنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ برِصغیر کے مسلمانوں نے اپنا دین اور تہذیب بچانے کے لیے اپنے جان و مال کی بیش بہا قربانیاں دیں اور دُنیا بَھر کی مزاحمتی تحاریک کے لیے ایک انوکھی مثال قائم کی۔ یہ ایک قوم، ایک عقیدے اور ایک تہذیب کی بقا کی جنگ تھی، جو لگ بھگ ایک سو برس تک جاری رہی۔ 

مزاحمت کے بعد سیاسی گُفت و شُنید کا مرحلہ آیا، تو مسلمان قوم کے مخلص ، زیرک رہنمائوں نے بھرپور جوش و خروش اور حکمت و بصیرت سے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک آزاد خطّے کے قیام کا سفر آگے بڑھایا اور پھر ایک طویل سفر کے بعد اقبال کا خواب، قائداعظم کے تدبّر اور سیاسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔

قیامِ پاکستان کے بعد سامنے آنے والے پیچیدہ ترین سیاسی و معاشی مسائل کے باوجود یہ مُلک اپنا وجود اور اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے، کیوں کہ اس مُلک کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے، ہجرت کی تلخ یادیں ہیں، انصارو مہاجرین کی یگانگت کی کہانیاں ہیں اور ان سب کے پس منظر میں اسلامی نظریۂ حیات ہے۔

یہ مملکتِ خداداد کئی نسلوں کا تحفہ اور شہیدوں کی امانت ہے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی ایک قیمتی متاع ہے، جو سَر اُٹھا کر جینے کا اعتماد بخشتی ہے۔ اس آزادی کی قدر کرنا اس مُلک کے باشندوں کا فرض ہے۔یاد رہے، پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف باتیں اور پاک سرزمین کی سلامتی پر تحفّظات کا اظہار، آزادی جیسی عظیم نعمت کی ناقدری و ناشُکری ہے۔

اور…ہر سال اگست کا مہینہ گویا ہمیں اس عظیم نعمت سے فیض یابی کی یاد دہانی کرواتا ہے، ماضی کے اوراق پلٹتا ، نئے منظر نامے تشکیل دیتا ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اس نعمت کی قدر اور حفاظت کریں، کیوں کہ پاکستان کی بقا ہی میں ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقا مضمر ہے۔ دُنیا کی کوئی بھی سہولت و آسائش اپنے وطن، اپنی سرزمین کی پاک فضائوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اور پاکستان کے ساتھ ہماری سب سے بڑی بھلائی یہی ہوسکتی ہے کہ ہم اپنے لیے تفویض کردہ ذمّے داریوں کو، خواہ وہ گھریلو ہوں، سماجی یا پیشہ ورانہ، مکمل ایمان داری سے ادا کریں۔ 

بیرونِ مُلک جائیں، تو مُلک کی نیک نامی اور حُرمت پر کسی صُورت حرف نہ آنے دیں اور اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اس کی تاریخ سے مسلسل آگاہ رکھیں، کیوں کہ ارضِ پاک کی تاریخ کی حفاظت بھی اُتنی ہی ضروری ہے، جتنی اس کے جغرافیے کی۔ یوں بھی زندہ قومیں اِسی طرح آگے بڑھتی اور اپنے وجود کو سلامت رکھتی ہیں۔