فلسطین کی تحریک آزادی کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے شہادت گاہ الفت میں قدم رکھ کر ثابت کر دیا کہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے جان کی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسماعیل ہنیہ ایک ایسی جگہ سے شہادت کے سفر پر روانہ ہوئے جو بظاہر ان کیلئے محفوظ ترین تھی،لیکن دشمن نے انہیں تاک کر نشانہ بنایا اور انہیں شہادت کے سفر کا مسافر بناکر متعدد مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔اسماعیل ہنیہ کا قتل صرف تحریک آزادی فلسطین کےایک رہنما کا قتل نہیں بلکہ یہ عالمی امن کو سبوتاژ کرنے کی ایک بڑی سازش ہے۔اسے محض حماس یا اسرائیل کے باہمی تنازع کے پس منظر میں دیکھنے کے بجائے وسیع عالمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔قارئین کو معلوم ہوگا کہ اس وقت اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کو عارضی وقفہ دینے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں جاری تھیں۔اٹلی کے شہر روم میں فریقین جمع تھے جبکہ ان مذاکرات کی نگہبانی کیلئے اعلیٰ امریکی عہدیدار بھی موجود تھےاور قریب تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جاتا کہ عین موقع پر اسرائیل نے امن معاہدے کے ایک اہم کردار کو موت کی وادی میں اتار کر نہ صرف امن کا ایک اہم موقع کھو دیا بلکہ تباہی و بربادی کی ایک نئی داستان بھی رقم کر دی۔ اسرائیل کے انہی اقدامات کے باعث آج دنیا ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ فلسطین کی آزادی کیلئے برسر پیکار، یہودیوں کے جبر و تشدد کا مقابلہ کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے بے پناہ قتل عام نے ایک نئے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے۔اس جنگ کے دوران دنیا نے دیکھا کہ معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے، بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔فلسطینی اپنے ہی وطن میں یرغمال ہیں، انہیں اجتماعی طور پر قبروں میں اتارا جا رہا ہے،اسرائیل اپنے فضائی حملوں کے ذریعے غزہ اور اس سے ملحق تمام فلسطینی علاقوں کو بارود اور ملبے کا ڈھیر بنا چکا ہے، اسرائیلی زمینی فوج نے ہلاکو اور چنگیز خان کو شرما دیا ہے دنیا بھر کے باشعور باشندے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کر کے اپنے اپنے حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان سب اقدامات سے بڑھ کر فلسطینی حریت پسندوں نے جس طرح جدوجہد، محنت اور قربانی کے ساتھ اپنی تحریک آزادی کو اپنے خون سے زندہ رکھا ہوا ہے ماضی میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔پوری دنیا اس بات کا بھی اعتراف کر رہی ہے کہ فلسطینی رہنماؤں نے عالمی امن بچانے، انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے صبر و استقامت اور ہمت و حوصلے کی نئی داستان رقم کی ہے۔ یہ اسماعیل ہنیہ ہی تھے کہ جنہوں نے بربریت اور ظلم کیخلاف مزاحمت بھی جاری رکھی اور ہر مرحلے پر امن مذاکرات کی بھی راہ ہموار کی۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے محفوظ ریسٹ ہاؤس میں شہادت کا تاج اپنے سر پر سجانے والے اسماعیل ہنیہ 2006ء میں جب فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا۔ انکو 2017ء میں خالد مشعل کی جگہ جب حماس کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تو انہوں نے ایک طرف تو تحریک آزادی کو جلا بخشی اور دوسری طرف امن کا دروازہ بھی کھولا۔آپ 1980ءسے لیکر اب تک کئی مرتبہ امن مذاکرات کا حصہ بنے اور ہمیشہ امن کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ 1962ءمیں غزہ کے مغربی علاقے میں قائم ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونیوالے اسماعیل ہانیہ نے اپنے بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں خاک و خون کا ماحول دیکھا۔ انہوں نے خود ساری زندگی جنگ آزادی میں گزاری۔ تعلیم مکمل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی لیکن وہ ایک طرف تو وہ جدوجہد آزادی کا حصہ رہے اور دوسری طرف امن کی شمع بھی جلائے رکھی۔شہادت گاہ الفت کے اس مکین کو امن مشن کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔11 اپریل 2024ء کو اسرائیلی فوجیوں کے دہشت گرد حملوں کے دوران عین عید کے روز آپ کے تین بیٹے اور چار پوتے پوتیوں کو شہید کر دیا گیا تب بھی انہوں نے امن کا پرچم گرنے نہ دیا۔ اپنے خاندان کے 71 افراد کی شہادت کے باوجود مذاکرات بحال رکھے۔ اسرائیل نے ایک ایسے شخص کو نشانہ بنایا جو انسانی حقوق، رواداری، امن اور مذاکرات کا داعی تھا اور اس حیثیت میں اسکا کردار تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت 56 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا ضمیر جگا پائے گی؟نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر پھیلی ہوئی مایوسی اور مردنی میں زندگی کے آثار نمودار ہونگے؟ معدنی دولت سے مالا مال ممالک اپنی اس دولت سے امت کو نفع پہنچانے کی کوئی سبیل کرینگے؟ اس وقت امت مسلمہ کی بظاہر سربراہی سعودی عرب کے نوجوان حکمران محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے اور کم و بیش تمام مسلم ممالک کا ان پر اتفاق بھی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ معدنی وسائل سے مالا مال یہ ممالک اپنی قوم کو سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف مائل کریں۔ کتابوں کو اپنی نوجوان نسل کا ہتھیار بنائیں۔انتہا پسندی کو اپنا دشمن قرار دیں۔تب ہی اس خاکستر سے چنگاری پھوٹنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہمارے تمام رہنماؤں کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے،اپنے نوجوانوں کو علم کے اسلحہ سے مسلح کرنا ہوگا،دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں میں اپنے قابل اور اہل نوجوانوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا،اگر یہ سارا عمل ایک صدی تک جاری رکھا جائے تو تب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہاں کشت و خون کی بجائے امن کا گلشن آباد ہوگا۔ غربت کے بجائے خوشحالی کا دور دورہ ہو گا،مایوسی کے بجائے امید کے چراغ روشن ہوں گے۔