ہم نے اپنی زندگی میں سیاست دانوں کی تضاد بیانیوں کے بڑے عجیب و غریب واقعات دیکھے اور سنے ہیں مگر بانی تحریکِ انصاف نے جس دیدہ دلیری سے جھوٹ اور غلط بیانی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اسکی مثال ہماری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ابھی اس کے پہلے بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ہی بیان کی نفی کرتے ہوئے ایک نیا بیان دے دیتا ہے جس کا مظاہرہ حال ہی میں جنرل عاصم منیر سے ایک درد مندانہ دھمکی آمیز بیان کی صورت میںکیا گیا ہے۔ جس میں جنرل موصوف سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں فوری طور پر ’’ نیوٹرل‘‘ ہوجائیں ۔ خان صاحب نے یہ بیان دیتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ اپنے بیان میں لفظ ’’ نیوٹرل‘‘ کو تبدیل کرکے اس سے کوئی ملتا جلتا لفظ ہی استعمال کر لیں کیونکہ اُن کا یہ فقرہ ابھی تک کوئی نہیں بھولا کہ ’’ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیںاور قرآن میں خدا ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم یا تو حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہو یا جھوٹ اور دردغ گوئی کے ساتھ‘‘ ۔ اب ان کا نیا بیان سن کر اہلِ فکر سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ جناب کا پہلا بیان سچ پر مبنی تھا یا موجود ہ بیان ؟ ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری مقتدر ہ نے حقیقی سیاسی قیادت کا راستہ روکنے کیلئے جو بُت تراشے اُن کی اکثریت میں نہ تو سیاسی سوجھ بوجھ تھی اور نہ ہی تاریخ کا ادراک ۔ اُن میں صرف ایک ہی خوبی تلاش کی گئی کہ وہ مخالف سیاست دانوں کا ناطقہ کیسے بند کر سکتے ہیںاور کس طرح مقتدرہ کے مفادات کی نگرانی میں جھوٹ کو سچ بنا سکتے ہیں۔ یہ کھیل اس وقت تک تو کامیابی سے چلتا رہا جب تک ہماری اسٹیبلشمنٹ ہماری معیشت میں بیرونی امداد لانے کا ایک بڑا ذریعہ بنی رہی ۔ جو ا نہیں سامراجی جنگوں میں آلہء کار بننے کی وجہ سے ملتا رہا۔ لیکن جو نہی یہ سلسلہ بندہوا تو ملکی معیشت کی اصل صورتِ حال ’’ تشویشناک منظر‘‘ کی صورت میں سامنے آگئی ۔ کیونکہ سالہا سال کے سیاسی عدم استحکام نے نہ تو صنعت و حرفت اور نہ ہی زراعت اور دیگر شعبوں میںکسی بنیادی ترقی کی پائیدار بنیادیں استوار کیں۔ مانگے تانگے کی معیشت نے بالآخر اپنا فطری رنگ دکھایا اور غیر ملکی امداد بند ہوتے ہی ہمارا معاشی کھوکھلا پن کھل کر سامنے آگیا ۔ یہ وہ موقع تھا جب فیصلہ سازوں کو بھی اپنے اندازِ فکر کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ اور سیاست کو حقیقی سیاسی قیادت کے حوالے کرکے خود کو اپنے آئینی فریم ورک میں سمٹ جانا چاہیے تھا مگر انہوں نے اپنی پرانی ڈگر نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور مسلسل حکومتیں بنانے اور گرانے کا عمل جاری رکھا ۔ اور جمہوری عمل کے ذریعے بننے والے ملک میں تقریباََ 77سال گزر جانے کے باوجود کسی بھی وزیرِ اعظم کو اپنی مدّ ت پوری کرنے نہ دی، نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ آئندہ دنوں میں مقتدر ہ
کی پاکستانی سیاست میں مداخلت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ حالات اس طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہر قومی ادارہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ صورتِ حال پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی کہ مقتدرہ اور عدلیہ ایک دوسرے کے مدّ ِ مقابل ہوں، وہ جسٹس منیر کا نظریہ ء ضرورت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ، طیارہ سازش کیس میںنواز شریف کی سزائے عمر قید ہو، بے نظیربھٹو کی حکومت کو گرانے میں عدالتی توثیق یا پانامہ کی جگہ اقامہ میں نواز شریف کی تا حیات نا اہلی ، ہر جگہ اعلیٰ عدلیہ نے مقتدرہ کے ہر فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔ لیکن اب بدترین معاشی بحران امن و امان کی نا گفتہ بہ صورتِ حال اور بیرونی امداد کی بندش نے مقتدرہ کے اثرو رسوخ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ صورتِ حال پاکستان کو تیزی سے خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ سیاسی عمل کے ذریعے پُر کرنے کے بجائے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی کو اقتدار میں لانے کے لیے پراجیکٹ عمران کا آغاز کردیا گیا۔ وہ عمران خان جو تقریباََ سولہ سال سے اقتدار میں آنے کے لیے کبھی جنرل پرویز کے صدارتی ریفرنڈم کو سپورٹ کر رہا تھا اور کبھی طالبان سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا تھامگر عوام نے اسے چند سیٹوں سے زیادہ اہمیت نہ دی تھی حالانکہ ورلڈ کپ ہیرو اور شوکت خانم ہسپتال کی وجہ سے وہ اس وقت کم متنازع حیثیت کا مالک تھا۔ 2013کے متنازع انتخابات میں صدر زرداری نے اپنے تحفظّات کے باوجود نہ صرف شکست تسلیم کی بلکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ پر امن انتقالِ اقتدار کا راستہ بھی ہموار کیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے سیاسی عمل کو فطری بہائو پر بہنے دیا جاتا۔ پراجیکٹ عمران کے ذریعے 2018کے انتخابات میں ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لایا گیا جس نے جھوٹ ، الزام تراشی اور یو ٹرن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ وہ دنیا کا شائد واحد سیاستدان ہے جو کسی سیاسی ڈائیلاگ میں یقین نہیں رکھتا۔ جو خود کو عقلِ کُل سمجھتا ہے ۔ جس کا پونے چار سالہ اقتدار اس معاشی ، اخلاقی اور انتقامی سیاست کی بنیاد بن گیاہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔کیونکہ جھوٹ کی حقیقت ایک دن سامنے آہی جاتی ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔