آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے، ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن پرامن رہیں۔
نیشنل علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ اللّٰہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہے، کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تو رب کریم کی قسم ہم اُس کے آگے کھڑے ہوں گے۔
آرمی چیف نے کہا کہ جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟ کشمیر تقسیم پاک و ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے، فلسطین اور غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، فلسطین سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے ہم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے اور پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ جرائم اور اسمگلرز مافیا دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جاتاہے، اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھو۔
خوارج ایک بہت بڑا فتنہ ہیں، آرمی چیف نے سرفراز بزمی کے اشعار پڑھ کر حوالہ دیا۔
اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ، املاک بھی، اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ، شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
آرمی چیف نے کہا کہ ہم انھیں سمجھا رہے ہیں فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ، برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست سے مخالفت نہ کریں، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے، پاک فوج اللّٰہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کے خاتمے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانیوں کی مہمان نوازی کی ہے، دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے پختون بھائیوں اور خیبر پختونخوا کے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم پختون بھائیوں اور خیبر پختونخوا کے عوام کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ مغربی تہذیب اور رہن سہن ہمارا آئیڈیل نہیں ہے، ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہونا چاہیے، آرمی چیف نے مغربی تہذیب کے حوالے سے علامہ اقبال کے شعر کا حوالہ بھی دیا۔
اپنی ملت پر قياس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکيب ميں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعيت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعيت تری
آرمی چیف نے کہا کہ اس پاکستان پر لاکھوں عاصم منیر، لاکھوں سیاستدان اور لاکھوں علماء قربان، پاکستان ہم سے زیادہ اہم ہے، علماء و مشائخ سے التماس ہے شدت پسندی یا تفریق کی بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں، علماء کو چاہیے وہ اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔